مسکراہٹ، خوشبو، مٹھاس اور روشنی بانٹنے والے۔۔۔شکور پٹھان

اقوال زریں، پند ونصائح ہم سب روز ہی سنتے ہیں ، پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں اور اپنے اپنے مسشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی بات یاد رہ جاتی ہے۔ اور یاد بھی صرف بات ہی رہتی ہے۔ بہت ہوا تو اوروں تک پہنچادی۔ وہ لوگ قابل قدر ہیں جو نصیحت کو پلے سے باندھ لیتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
کالج کی زندگی کا آخری دن تھا۔ ہم کلاس فیلوز اپنے چند اساتذہ کے ساتھ ایک دوسرے کو خدا حافظ کہنے کے لئے جمع تھے۔ ان تمام باتوں میں  یاد رہی تو ہمارے ایک بے حد قابل احترام استاد پروفیسر عبدالوحید قریشی (جو ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے) کی باتیں تھیں جن پر شاید عمل تو کبھی نہ کیا ہو۔ استاد محترم نے فرمایا کہ قدرت نے زندگی ہمارے لئے بہت خوبصورت بنائی ہے۔ ہم بہت کچھ اس زندگی سے لیتے ہیں۔ لیکن رات کو سونے سے پہلے ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ آج میں نے زندگی کا حسن بڑھانے کیلئے کیا، کیا؟۔ یہی گزرے دن کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ ہے۔
پھر ریڈرز ڈائجسٹ میں پڑھا کہ
There are two kind of people, Takers and Givers. Takers, they eat well, and Givers, they sleep well..
یوسفی صاحب کا ایک جملہ بھی ذہن کے کسی گوشے موجود ہے کہ پھول جو کچھ زمین سے لیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اسے لوٹادیتے ہیں۔
آج نجانے کیوں ایسے ہی کچھ لوگ یاد آئے۔ یہ میرے آپ جیسے بظاہر بڑے معمولی سے لوگ ہیں۔ کوئی انکا نام بھی نہیں جانتا لیکن جو کچھ یہ کرتے ہیں کمال کرتے ہیں۔ شاید یہ دوچار باتیں جو میں آپ کو سنانے جارہا ہوں آپ کو بے معنی سے معلوم ہوں لیکن مجھ پر نجانے کیوں انکا ایسا اثر ہوا کہ میں انھیں بھول نہیں پاتا۔ جب بھی یہ باتیں یاد آتی ہیں دنیا اتنی بری نہیں لگتی۔
۱۔ میرے جو احباب شارجہ میں رہتے ہیں جانتے ہونگے کہ شارجہ سے صبح سویرے دوبئی جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ فاصلہ بمشکل پندرہ منٹ کا ہے جو کہ ایک، اور بعض اوقات دو دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ دن کا آغاز کوفت اور بیزاری سے ہوتا ہے۔ اور یہ بیزاری اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب دوبٗی شارجہ کے درمیان ایک مقام ۔الملا پلازہ ۔ آتا ہے یہاں  چار پانچ لائنیں  دو میں بدلنے لگتی ہیں اور ،باٹل نیک، کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ کچھ سڑکیں انڈر پاس میں داخل ہورہی ہوتی ہیں  اور کچھ دائیں جانب تریفک سگنلز کی طرف مڑتی ہیں۔۔ ٹریفک عجیب گڈمڈ سا ہوجاتا ہے اور لوگ باگ کی کوفت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
یہیں اکثر ایک نوجوان پولیس والا ٹریفک کنٹرول کیا کرتا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل، روشن سی مسکراہٹ رہتی تھی۔ موسم کتنا بھی شدید ہر۔ ٹریفک کتنا بھی بے ہنگم کیوں نہ ہو۔ اس نوجوان کی مسکراہٹ ہمیشہ قائم رہتی تھی۔
اس افراتفری اور نفسانفسی میں جب اس کے چہرے پر نظر پڑتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے ہلکی ہلکی پھوار برس رہی ہے یا باد نسیم کے جھونکے چل رہے ہین۔ گاڑیوں والے جان بوجھ کر اس کے قریب سے ہوکر گزرتے اور اسے سلام کرتے ۔ یوں لگتا کہ اس سارے دشمن ٹریفک میں ایک وہی ہمارا دوست ہے۔ اس کی مسکراہٹ صبح کا ایک خوشگوار آغاز ہوتی۔ کئی لوگوں نے اس سپاہی کے  بارے میں اخبارات میں  لکھا اور دوبئی پولیس اور اس نوجوان کا شکریہ ادا کیا کہ
‘His smile, makes our day”
۲۔ اگر اپ کو دوبئی کے پاکستانی قونصل خانے میں کوئی کام ہے تو آپ ایک بد ترین دن کیلئے تیار ہوجائیں۔ بدنظمی، بد تمیزی اور بد سلیقگی کا اس سے بڑا امتزاج کہیں اور نہیں ملے گا۔۔ مجھے یاد نہیں کہ کس کام سے میں وہاں صبح دس بجے قونصلیٹ سے باہر سڑک پر ایک طویل قطار میں کھڑا تھا۔ شدید گرمی کے دن تھے ، لوگ پسینے میں شرابور اور دھوپ کی شدت سے بے حال تھے۔ اتنے میں ایک پٹھان نے اپنی ٹیکسی وہاں روکی اور پانی کی چھوٹی بوتلوں کے چند کارٹن اتار کر سڑک پر رکھے ، پھر ایک ایک کارٹن کھول کر اسمیں سے بوتلیں نکال کر قطار میں لگے لوگوں میں  تقسیم کرنے لگا۔ مجھے اشتیاق ہوا تو میں نے پوچھا کہ کیا قونصلیٹ والوں نے یہ انتظام کیا ہے تو اس نے بتایا کہ میں یہاں  سے گزرا تو دیکھا میرے بھائی پتہ نہیں کب سے دھوپ میں کھڑے ہیں۔ یہ قطار چھوڑ کر پانی کیلئے نہیں جاسکتے میں  نے سوچا چلو ان کو پانی پلادیا جائے چنانچہ میں جا کر یہ کارٹن خرید لایا۔۔ ” ہم مزدور آدمی ہے اور بس اتنا ہی کرسکتا ہے”
۳۔ شارجہ کے خوبصورت کورنیش پر بنی مسجد النور کے باہر عید کی نماز تھی۔ نماز ختم ہونے کے بعد سات یا ٓآٹھ سال کا خوبصورت سا عرب بچہ جو کہ شاید شامی یا اردنی تھا، اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس کے پاس ایک بڑا سا تھیلا تھا جس میں سے چاکلیٹیں نکال کر وہ صفوں کے آخر تک جاکر بچوں میں تقسیم کر رہا تھا۔
عید کی صبح بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ شاید اس عرب بچے کی سب سے بڑی عیدی تھی۔
۴۔ اب سے چار ماہ پہلے میں نئے علاقے میں منتقل ہوگیا۔ میرے پرانے محلے کی مسجد مین فجر کی نماز کے بعد ایک بڑے میاں ، روزانہ باقاعدگی سے جیب سے عطر کی شیشی نکال کر، اوراد و وظائف میں مشغول تمام نمازیوں تک جاتے اور انہیں خوشبو پیش کرتے۔ وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر ایک تک پہنچتے۔
خوشبو بانٹنا۔۔۔یہ کام تو پھول کرتے ہیں۔
۵۔ جہاں میں ملازمت کرتا ہوں وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے گو کہ اکثریت ہندوستانیوں کی ہے۔ ساؤ تھ افریقہ کا رہنے والا تامل نسل کا ہمارا ایک ساتھی صبح دفتر کے آغاز پر ایک ایک نشست پر جا کر ہر ایک کو صبح بخیر کہتا، ہر ایک سے ہاتھ ملاتا  ا ور خیریت وغیرہ پوچھنے کے بعد پھر اپنا کام شروع کرتا۔ دفتر میں دیگر لوگ آتے، ایک آدھ سلام وغیرہ کرلیتا باقی لوگ آتے ہی خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھ جاتے۔
اس کا نام روی تھا اور وہ ہندو تھا، لیکن اس نے ہمیں بتایا کہ ،قولو للناس حسناٗ، کے کیا معنی ہیں۔
یہ وہ ہیں جو زندگی کے حسن کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ بہت پرسکون نیند سوتے ہوں گے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply