پیپلزپارٹی کی سندھ میں گزشتہ حکومت کے دوران مالیاتی سال 2022ء کے صرف آخری مہینے جون میں وزرات اطلاعات و نشریات نے 22 ارب 70 کروڑ 50 لاکھ روپے کے اشتہارات میڈیا کو جاری کیے ۔
وزرات انفارمیشن کی آڈٹ رپورٹ کا ایک پیرا اسے شدید مالیاتی بے ضابطگی کے زمرے میں گردانتا ہے اور وہ اس بے ضابطگی کی ذمہ داری کے تعین کی مانگ کرتا رہا لیکن کسی پر اس بے ضابطگی کی ذمہ داری متعین نہیں کی گئی۔
یہاں پر کچھ مشاہدات قابل غور ہیں:
اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات شرجیل انعام میمن اور سیکرٹری اطلاعات و نشریات پر ایسی کون سی اشد ضرورت کا انکشاف ہوا تھا جس کے تحت اس قدر بھاری رقوم ایک مہینے میں اشتہارات کی مد میں جاری کی گئی ؟
اشتہارات جن اخبارات ، ٹی وی چینل اور نیوز ایجنسیوں کو جاری کیے گئے ان میں سے کئی ایک نام تو بہت مشکوک ہیں اور اتنی بڑی رقوم اشتہارات کی مد میں خرچ کرکے سندھ حکومت نے میڈیا میں اپنی حکومت کے بارے میں کس قدر مثبت امیج کی تعمیر کی ؟ یہ سوال بھی خود سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات کے بارے میں وہ افواہیں سچ تھیں کہ انھوں نے اس وزرات پر رہتے ہوئے جس قدر فنڈز اشتہارات اور دیگر منصوبوں کی مد میں جاری کرائے ان میں بھاری بھر کمیشن وصول کیے گئے ؟
دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ شرجیل انعام میمن پر یہ الزام ہے کہ وہ میڈیا میں اپنی پروجیکٹس ‘پیڈ نیوز’ کے ذریعے کرتے رہے اور اس مد میں بھی بھاری بھرکم رقوم کئی ایک ٹی وی چینلز اور اخبارات کو پیڈ کی گئیں جن میں ان میڈیا گروپوں کے ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی شامل تھے جن کے مالکان بارے عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان میں چل رہی سیاسی کش مکش میں مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کے کیمپوں کے لیے اپنے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو پروپیگنڈا مشینری کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور دونوں کیمپوں میں شامل میڈیا گروپوں کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کا پی پی پی کی قیادت اور سندھ حکومت کی طرف رویہ انتہائی معاندانہ اور کئی صورتوں میں گٹر صحافت کا منظر پیش کرتا رہا ۔
وزرات اطلاعات و نشریات سندھ اس دوران اپنے پبلسٹی فنڈز کی مد میں کئی ایڈورٹائزمنٹ کمپئن پر بھی بھاری فنڈز خرچ کیے جن میں سے کچھ کا ذکر مالیاتی اور انتظامی بے ضابطگی پر مبنی آڈٹ اعتراضات کی شکل میں وزرات انفارمیشن منسٹری سندھ کی آڈٹ رپورٹ 2022ء میں ذکر بھی ہے لیکن اسی وزرات اطلاعات و نشریات نے ایک بار بھی اس طرح کی فنڈنگ ان ماہرین معاشیات کی خدمات حاصل کرنے کے لیے نہیں خرچ کیے جو پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت کے اہم شعبوں خاص طور پر مجموعی معاشی کارکردگی کے دوسرے صوبوں کی معاشی کارکردگی سے موازنے کے لئے انتہائی اہل تھے اور رضاکارانہ بنیادوں پر سندھ حکومت کی گڈ گورننس کا مقدمہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر لڑنے کے اہل تھے ، کیوں؟
میں نے نومبر اور دسمبر میں کراچی میں شرجیل انعام میمن کی قیادت میں کلنٹن میں ایک کوٹھی میں قائم پی پی پی کے مرکزی ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے دفتر کا دو بار دورہ کیا تھا اور میں وہاں پر ہائر ان کی ٹیم سے ملا بھی تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی تھی کہ ان کی ٹیم میں مالیات، معیشت ، تعلیم ، صحت ، بلدیات جیسے اہم شعبوں میں مہارت رکھنے والے کانٹینٹ تیار کرنے والوں کی کوئی موجودگی نہیں تھی جو ان کی ہائر کردہ ڈیجیٹل میڈیا کی ٹیم بہترین اعداد و شمار کے ساتھ مواد تیار کرکے دے سکیں جن کے بغیر ان کی شوال میڈیا ٹیم کی ساری تکنیکی مہارتیں بے کار ہی کہلائی جاسکتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ڈیجیٹل پی پی پی کی مرکزی ٹیم اس میدان میں سوشل میڈیا پر معاندانہ پروپیگنڈے کا توڑ کرنے میں قطعی ناکام رہی اور دوسری طرف پی پی پی سے ہمدردی رکھنے والے ماہرین عدم التفات اور عدم توجہ کی شکایت کرتے نظر آئے ۔
وزرات اطلاعات و نشریات سندھ نے گزشتہ پانچ سالوں میں پی پی پی کے اہم ترین تاریخی دستاویزی ریکارڈ کی تیاری اور اشاعت کے لیے سرگرم سینئر ترین فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین کے پروجیکٹ کو بھی فنڈنگ کرنے اور انھیں تکنیکی تعاون فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جبکہ وزیر اطلاعات و نشریات شرجیل انعام میمن کو پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ زرداری نے کئی بار ایسا کرنے کو کہا ۔
آخری بار دسمبر 2023ء میں ، میں بھی آصفہ زرداری کے کہنے پر ان سے ملا تھا اور انھوں نے خانہ پری کرنے کے لیے موجودہ خاتون ایم پی اے جو ان کے دفتر کی انچارج تھیں کو زاہد حسین کے گھر جیکب لائنز میں بھیجا تھا لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہ ہوا ۔
زاہد حسین نے پی پی پی کی سیاسی تاریخ مدون کرنے کے پروجیکٹ کے سلسلے میں کسی تعاون کے بغیر تنہا ہی جب اس سلسلے کی پہلی کتاب مرتب کی تو اس کی اشاعت کی ذمہ داری بھی پی پی پی کا شعبہ نشر و اشاعت نہ اٹھا سکا جس کی ذمہ داری بھی شرجیل انعام میمن پر عائد ہوتی ہے وہ اس قدر اہم اور مستند دستاویز کو پارٹی فنڈ یا وزرات اطلاعات و نشریات کے فنڈ سے بڑے پیمانے پر شائع اور تقسیم کرسکتے تھے اور اس کا انگریزی، سندھی تراجم بھی شائع کرانے کا اہتمام کر سکتے تھے لیکن ایسا کچھ بھی انھوں نے کرنے کی زحمت تک نہ اٹھائی ۔ وہ اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر زاہد حسین کے ساتھ متعدد پریس کانفرنسز اور ان کا میڈیا سے انٹریکشن کا اہتمام کرسکتے تھے لیکن انھوں نے کچھ بھی نہ کیا ۔
اس پروجیکٹ کے بانی زاہد حسین کے ساتھ خصوصی طور پر انہوں نے کیا سلوک کیا اور ان کی کیسی نا قدری کی گئی اور ان سے کس قدر ذلت آمیز سلوک کیا گیا ، اس حوالے سے ایک انٹرویو میں نے زاہد حسین کا ریکارڈ کیا ہے جسے جلد ہی میں اپنے یو ٹیوب چینل پر اپ لوڈ کروں گا ۔
بھٹوز کے تاریخی ورثے کی نشریات و اشاعت میں مجرمانہ غفلت پی پی پی کے شعبہ و نشریات و اشاعت کا ایک جرم ہے جسے جان کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس شعبہ میں ضیاع الحقیت کے بھوت سے مباشرت کرنے والوں کا قبضہ ہو ۔ میں اس میں سب سے بڑا مجرم شرجیل انعام میمن کو سمجھتا ہوں اور میں کم از کم اس معاملے میں کتمان حق کا مجرم نہیں بننا چاہتا ۔

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں