لامارک کا انتقام۔۔وہاراامباکر

بائیولوجی کا لفظ 1800 میں ایجاد ہوا. اس لفظ کو ایجاد کرنے والے اور اس کو باقاعدہ الگ سائنسی کا شعبہ بنانے والے سائنسدان لامارک تھے۔ کیچووں پر تجربات کرنے کے شوقین لامارک اس سے پہلے غیرفقاریہ جانوروں کا لفظ سائنس کو دے چکے تھے۔

اپنے والد کے انتقال کے بعد لامارک نے سکول چھوڑ دیا، سترہ سالہ لامارک سات سالہ جنگ میں شرکت کرنے چلے گئے۔ اس دوران گر کر سر پر چوٹ کھانے کے سبب فوج چھوڑنا پڑی۔ ملٹری کا نقصان، سائنس کا فائدہ تھا۔

لامارک نے پہلے بار سائنسی بنیادوں پر ارتقا کا نظریہ پیش کیا۔ اس کے دو حصے تھے۔ پہلا یہ کہ ارتقا ہوتا ہی کیوں ہے۔ تمام جاندار مطابقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پیچیدہ ہونا چاہتے ہیں۔ اس کا دوسرا حصہ اس کے طریقے کے بارے میں تھا کہ ماحول جانداروں کی شکل اور خاصیتیں بدلتا ہے۔ اس کی مثال لامارک نے ساحلی پرندوں کے ساتھ دیا جن کی ٹانگیں اپنے جسم کو پانی سے بچانے کے لئے اونچی ہوتی گئیں اور یہ خاصیتیں اگلی نسلوں میں جاتی گئیں۔ ان کے خیال میں یہی چیز انسانوں کے ساتھ بھی کام کرتی ہے۔ لوہار ہتھوڑا چلا چلا کر مضبوط پٹھوں کی خاصیت اگلی نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔ لامارک کا نظریہ، فطری چناوٗ کا نہیں تھا کہ زیادہ فِٹ لوگ بچیں گے بلکہ یہ کہ خاصیتیں بدلتی ہیں اور یہ آگے منتقل ہوتی ہیں۔ یہ نظریہ انہوں نے 1820 میں پیش کیا۔

لامارک کے نظریے کو ان کے ساتھیوں میں خاص پذیرائی نہ ملی۔ ان کی اپنی صحت بھی گرنا شروع ہو گئی تھی۔ بینائی ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ “کیڑوں اور کیچووں کے پروفیسر” کو اپنی ملازمت چھوڑنا پڑی۔ نہ شہرت تھی اور نہ ہی آمدنی۔ ان کا انحصار مکمل طور پر اپنی بیٹی پر تھا۔ جب 1829 میں ان کا انتقال ہوا تو ان کو “کرائے کی قبر” میں دفن کیا گیا۔ یعنی پانچ سال بعد جب ان کے جسم کو کیڑے اور کیچوے کھا چکے ہوں گے، یہ قبر کسی اور کو مل جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لامارک کو اپنے مرنے کے بعد زیادہ ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ساتھی کووئیے لامارک کے ارتقا کے نظریے کے مخالف تھے۔ نپولین نے جب مصر فتح کیا تھا اور مصر سے ٹنوں سائنسی میٹیرئل فرانس پہنچا تھا تو کووئیے نے اس کا مطالعہ کرتے ہوئےوہارا کہا تھا کہ ہزاروں سال پہلے بھی بلی، مگرمچھ، بندر وغیرہ ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں، پس ثابت ہوا کہ لامارک غلط تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں وقت کی عمیق گہرائیوں کا علم نہیں تھا اور ہزاروں سال ایک بڑا عرصہ لگتا تھا۔ کووئیے مرنے والے سانسدانوں کی یولوجی لکھا کرتے تھے۔ لامارک کے مرنے کے بعد ان کے لئے جو تعریف لکھی، اس کو سائنس کے مورخ گولڈ نے “سفاکانہ ماسٹرپیس” کہا ہے۔لچکدار گردن والے زرافوں اور گیلی پشت والے پرندوں کے کارٹون بنائے جو لامارک کی یاد کا حصہ بن گئے۔ ان کو “شاعرانہ تخیل رکھنے والا سائنسدان” کہا۔

ڈارون نے لکھا کہ اگرچہ ارتقا کا نظریہ لامارک نے پہلے پیش ضرور کیا تھا اور وہ واقعی میں ایک بڑے سائنسدان تھے لیکن انکا یہ تصور بالکل غلط تھا کہ خاصیتیں اگلی نسل میں منتقل ہو سکتی ہیں۔ ڈارون نے لکھا کہ لامارک کی تھیوری بہت کمزور تھی اور انہیں اس تھیوری سے کوئی مدد نہیں ملی۔ خاصیتیں پیدائش کے وقت فکس ہوتی ہیں، حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ لامارک کے ان خیالات کی بائیولوجی میں کوئی جگہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک کے بعد دوسرے اکٹھے ہونے والے شواہدات لامارک کے خلاف جاتے رہے۔ جسم عام خلیے سے سپرم اور بیضے کے درمیان فرق رکھتا ہے۔۔ ایک لوہار جتنے بھی ہتھوڑے چلا لے، اس کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ سپرم ان پٹھوں کے خلیوں سے بالکل الگ ہے۔ اٹھانوے ملی گرام کے سپرم اگر کمزوری کی خاصیتیں لے کر جا رہے ہیں تو اگلا بچہ کمزور ہی ہو گا۔ 1950 کی دہائی میں اس علیحدگی کے خیال کو مزید تقویت ملی کہ سپرم یا ایگ میں ڈی این اے تبدیل نہیں ہو سکتا اور اگلی نسل میں خاصیتیوں کی منتقلی کا تعلق صرف اس ڈی این اے سے ہے۔ لامارک ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالیہ برسوں میں البتہ پرانے کیچووں نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے۔ اب سائنسدان جانتے ہیں کہ وراثت اتنی سیدھی نہیں اور فلوئیڈ ہے۔ جینز اور ماحول کے درمیان رکاوٹیں پکی نہیں، مسام دار ہیں۔ صرف جینز ہی سب کہانی نہیں۔ یہ جینز کس طرح ایکسپریس ہوتی ہیں۔ آن یا آف ہوتی ہیں۔ خلیے ڈین این اے کو آف کر سکتے ہیں، چھوٹے میتھائل گروپ کے استعمال سے۔ آن کر سکتے ہیں، ایسیٹائل گروپ سے پروٹین کی لڑیوں کو سیدھا کر کے۔ اور سائنسدان اب جانتے ہیں کہ خلیاتی تقسیم میں یہ پیٹرن بالکل ٹھیک ٹھیک منتقل ہوتے ہیں۔ یہ “خلیوں کی یادداشت” ہے۔ (ایک وقت میں کچھ سائنسدانوں نے یہ خیال بھی پیش کیا تھا کہ دماغ کی یادداشت کا فزیکل سٹرکچر بھی نیورون میں میتھائل اور ایسیٹائل گروپ کے ذریعے ہے، لیکن یہ درست نہیں)۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ پیٹرن مستحکم ہیں لیکن مستقل نہیں ہیں۔ ماحولیاتی تجربے میتھائل اور ایسیٹائل کا اضافہ یا ان کی تفریق کر سکتے ہیں۔ یہ پیٹرن بدل سکتے ہیں۔ یہ ماحول سے انٹرایکٹ ہونے کی وجہ سے کسی آرگنزم میں ہونے والی تبدیلی ہے۔

برے تجربات اور اچھے تجربات خلیوں میں لکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ شدید ذہنی دباوٗ ممالیہ کے دماغ میں نیوروکیمیکل سے بھر دیتا ہے جو میتھائیل گروپ کو ان جگہوں پر نشان زدہ کر دیتے ہیں جہاں ان کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ (تفصیل کے لئے نیچے لنک دیکھ لیں)۔یہ پیٹرن اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوہوں پر ان کے کئی طرح کے تجربات کئے جا چکے ہیں لیکن انسانوں میں ان کی مثال دہشت گردی کے واقعات سے اثرانداز ہونے والی ماوٗں کی ہے۔ سٹریس ڈس آرڈر کم سے کم ایک درجن جینز کو ایکٹیویٹ یا ڈی ایکٹیویٹ کرتا ہے۔ ذہنی دباوٗ کا شکار مائیں بے چین اور سٹریس رکھنے والے بچوں کو جنم دیتی ہیں جن میں نئے حالات کا مقابلے کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔یہ مشاہدات ستمبر 2001 میں حمل کے قریب خواتین سے ہونے والے بچوں میں کئے جا چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماحول سے ہونے والی تبدیلیاں جینیاتی کوڈ میں نہیں ہیں۔ یہ ڈی فیکٹو میوٹیشن ہیں اور کسی بھی میوٹیشن کی طرح نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ ہم خود اپنے اندر یہ تبدیلیاں اپنی زندگی کے ساتھ جمع کرتے جاتے ہیں۔ (عمر کے ساتھ آئیڈنٹیکل جڑواں کے دور چلے جاتے جانے کی یہ وجہ ہے)۔

ماحول سے ہونے والی تبدیلیوں کی اگلی نسل میں منتقلی کی شرح کم ہے۔ سپرم اور ایگ ملتے ہیں تو ان ایپی جینیٹک تبدیلیوں کو صاف کرتے ہیں۔ اس سے آپ اپنے والدین کی زندگیوں کی زنجیروں سے آزاد ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن کچھ رہ جاتا ہے، سمگل ہو جاتا ہے۔ بلونگڑوں، چوزوں اور بچوں تک منتقل ہو جاتا ہے۔ وراثت میں حاصل کردہ خاصیت بھی کسی حد تک اگلی نسل تک پہنچ سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈارون کی طرح لامارک بھی وراثت کے طریقہ کار کو تو بالکل بھی نہیں جانتے تھے۔ ارتقا اچھے وقتوں میں سست اور برے وقتوں میں تیزرفتار ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خاصیتوں کی منتقلی کا طریقہ برے وقتوں میں انواع میں تیزرفتار تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ اس کو کووئیے اتنا پسند نہ کریں لیکن لامارک بالکل غلط نہیں تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply