غیر فوجی کالم۔۔ربیعہ سلیم مرزا

ہمارے بچپن میں ہمارے بڑے باقاعدگی سے اخبار پڑھتے تھے۔ ہاکر دروازے کے نیچے سے اخبار ڈال جاتا ۔ سب سے پہلے اخبار دادا ابا کے کمرے میں پہنچتا ، پھر ابا، چچا جان کے پاس سے ہوتا ہوابڑے کمرے کی سینٹر ٹیبل کی زینت بنتا۔

بچے لپک کر کہانیوں والا صفحہ جھپٹتے اور خواتین درمیانی رنگین صفحات اچک لیتیں کہ لیٹسٹ ماڈلز کے ساتھ ساتھ ،کپڑوں کے فیشن کا بھی پتہ چلتا۔۔اتنی خاصیت رکھنے والی چیز منٹوں میں حصے بخروں میں بٹ جاتی، “خاص جو تھی ۔”

ان دنوں جس چیز کے بارے میں سوچتے تھے کہ یہ کیوں چھپتی ہے وہ تھا اخبار کا ایڈیٹوریل پیج،جو کبھی دادا ابو کے کمرے سے باہر نہیں نکلتا تھا ۔
بریگیڈئر صولت رضا نے سچ کہا ہے ۔
کالم ایک خط ہے جو لکھنے والا اپنے قارئین کے نام تحریر کرتا ہے ۔اس خط میں من بیتی کو جگ بیتی کے روپ میں اجاگر کیاجاتا ہے ۔گوکہ میں ابھی نہ تو دادی بنی ہوں اور نہ ہی اتنی سیانی لیکن پھر بھی صولت رضا کے کالموں پہ مشتمل “غیر فوجی کالم “کو پڑھ کر سمجھنے ضرور لگی ہوں کہ بڑے لوگ کیسے سوچتے ہیں ۔

کتاب رضا صاحب کے اخبارات میں چھپے کالمز پہ مشتمل ہے۔اسے “غیر فوجی ” کا نام دیا گیا ہے۔۔ لیکن اس میں فوج اور حکومتوں کے درمیان ہونے والی دوستانہ جنگی مشقوں کی کہانیاں ہیں ۔یہ اور بات کہ اس میں حکومت کی سستیاں زیادہ اور فوج کی پھرتیاں زیادہ ہیں۔

قصّہ شہر بدر کا(قسط3)۔۔شکور پٹھان
آخر کیوں نہ ہوں لکھنے والا ایک فوجی ھے ،عاشق اور فوجی ریٹائر ہوکر بھی مورچہ نہیں چھوڑتے ۔
صولت رضا کے کالمز زیادہ تر مختلف شخصیات کے تعارف اور اور محکمانہ نظم وضبط کے گرد گھومتے ہیں ۔مگر مجموعی لحاظ سے غلام گردشوں میں رقصاں سازشوں کے تانوں بانوں اور حکومتی ہتھکنڈوں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ہر کالم کچھ کہتا ہے،کچھ بتاتا ہے،اور کچھ آپ کے سوچنے کیلئے چھوڑ دیتا ہے ۔یہی ایک بہترین لکھنے والے کا خاصہ ہوتا ھے کہ وہ قاری کو سب کو سمجھا کر کہے “بوجھو تو جانیں ۔
ایک خاتون خانہ ہونے کی حیثیت سے اپنے روزمرہ مطالعے سے ہٹ کر میں نے اسے اس لیے پڑھا کہ پاکستان کی آبادی کا باون فیصد حصہ خواتین پہ مشتمل ہے جنہیں پاکستان، فوج، عوام، جمہوریت، مارشل لاء تو کیا اپنے ووٹ کی اہمیت کا کچھ پتہ نہیں ۔بہت ساری مجھ سی بھی ہیں جو ووٹ ڈالنا ہی غیر ضروری سمجھتی ہیں ۔اس کتاب کو پڑھ کر میری بنیادی آگہی میں بے حد اضافہ ہوا۔
اور مجھے سمجھ آئی کہ عورت ہو یا مرد “ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ”
یہ الگ بات کہ برگیڈیئر صاحب نے کافی حد تک نیوٹرل رہ کر لکھا ہے۔جس میں عوامی جذبات اور سیاستدانوں کی رائے کو اہمیت دی گئی ہے، اور اتنی ہی دی گئی ہے جتنی ان دنوں آپ کو نظر آرہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

برگِ سبزیست تحفہء درویش۔۔۔۔احمد رضوان
لہذا کتاب کو بے دھڑک پڑھیے ،اور جانئے کہ  گزشتہ ادوار میں ہم نے کہاں کہاں کیا کیا بویا تھا ۔۔اور اس کے آج ملنے والے ثمرات کیا ہیں ۔؟
“غیر فوجی کالم “ایک کتاب نہیں ایک عہد ہے ۔ایک ایسا عہد جو گذرنے میں ہی نہیں آتا ۔یہ ایک ایسے نصاب کی نشاندہی ہے جو کئی سالوں سے بدلا نہیں ۔اور نہ بدلے گا ۔ان کے سارے کالمز ہمارے گزشتہ سماجی ،معاشی اور سیاسی اور مذہبی رویوں کے عکاس ہیں ۔تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اس کتاب کو پڑھ کر اپنے آئندہ کیلئے بہتر راہ متعین کی جائے۔
بریگیڈئر صولت رضا کو اس کتاب کیلئے میری طرف سے ایک “غیر فوجی سلیوٹ “!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply