طوفان نوح کا ایک ہولناک منظر۔۔انعام الحق

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقے اسوقت تباہ کاریوں میں طوفان نوح کا منظر پیش کررہے ہیں یقینا متاثرین سیلاب پر یہ وقت قیامت کی گھڑیوں کی طرح کٹ رہا ہے اگست 2022 کے سیلاب سے پاکستان کے چاروں صوبے بشمول کشمیر وگلگت بلتستان متاثر ہوئے ہیں
اس سیلاب سے سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ،لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے گھر سیلاب سے متاثر ہوئے ،کئ بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں،ہزاروں افراد آنا فانا بیروزگار ہوگئے ،سینکڑوں افراد اس سیلاب سے متاثر ہوکر معذور بھی ہوچکے ہیں،بہرحال ایک قیامت کا منظر تھا جو قوم اور پوری دنیا نے دیکھا

سب سے ہولناک تباہی والے علاقوں میں کوہ سلیمان کے اطراف کے علاقے بھی شامل ہیں جہاں پر سیلاب نے قیامت خیز تباہی مچائی جسکے نتیجے میں تونسہ شریف اور اسکے ملحقہ علاقے اور بستیاں دیکھتے ہی دیکھتے نیست ونابود ہوئے یقینا یہ ایک قدرتی آفت ہے لیکن قدرتی آفت کے برپا ہونے کے بعد قابل تقلید کردار اورسنگدل کردار نکھر کر سامنے آئے
پوری قوم اورپوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے مذہبی طبقات کے ہاتھ فقط ملی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پربےسروسامانی کے باوجود بڑھتے دیکھے خالصتاً فلاح انسانیت کے جذبہ سے سرشار مدارس دینیہ کے اساتذہ ہوں یا طلبہ کرام اپنی تمام تر تعلیمی سرگرمیاں معطل کرکے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور جو ہوسکا وہ کرگزرے اگر ابنائے مدارس کی سیلاب زدہ علاقوں کی کارگزاری میں مدارس کے ماتھے کے جھومر جامعہ صفہ کراچی کے نائب مدیر مفتی زبیر حفظہ اللہ اور انکے بھائی حافظ طاہر قیصرانی کا ذکر نہ کروں تو یہ تذکرہ نامکمل ہوگا کیونکہ ان لوگوں کا شمار سیلاب زدہ علاقوں میں خدمات کے لحاظ سے ان چند تنظیموں یا اداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیلاب کی خوفناک تباہی کو سب سے پہلے بھانپا اور فی الفور مدد کے لئے میدان میں اترے اور خالی خود نہیں اترے میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور نیوز رومز کی منتیں کرکرکے سیلاب کی صورتحال سے قوم کو آگہی دلوانے میں اور مخیر حضرات اور ذمہ دار اداروں کو متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے مفتی زبیر حفظہ اللہ اور انکے بھائی حافظ طاہر قیصرانی کے پیج پر انکی بروقت خدماتِ کی جھلک کو دیکھا جاسکتا ہے جب میڈیانےمنتوں اور ترلوں کے باوجود خاطر خواہ رسپانس نہ دیا تو حافظ طاہر قیصرانی ارباب اختیار اور قدرتی آفات کی ایمرجنسی صورت حال میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی جیسے حکام کو متوجہ کرنے کے لیے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں متاثرین سیلاب کے ہمراہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے اور رو رو کر متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہمارے ادارے اور میڈیا اسوقت شہباز گل پر فوکس تھا
پھر اسی طرح دارالعلوم کراچی نے سیلاب سے متاثر گھروں کی تعمیر کا اعلان کرتے ہوئے بھرپور خدمات کے لئے میدان میں اترے ،جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نے اہل خیر کو متوجہ کیا ،جامعۃ الرشید کاایمرجنسی کی صورتحال کے لئے قائم کردہ مستقل ڈیپارٹمنٹ سرگرم ہوا،جماعت اسلامی کا ذیلی ادارہ الخدمت فاؤنڈیشن نے خوبصورت کردار ادا کیا اسی طرح خیر المدارس ملتان ہویا جامعہ فریدیہ اسلام آباد ہو سب نے متاثرین سیلاب کی خدمت میں انمٹ نقوش چھوڑے اور ابھی تک خدمات جاری ہیں سب مدارس دینیہ ، تنظیموں اور اداروں کا ذکر مشکل ہے بہرحال مذہبی فورمز نے لائق ستائش کردار ادا کیا
اس سلسلے میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں
(1)سب سے پہلے ارباب مدارس دینیہ کو یہ تجویز دوں گا کہ وہ اپنے اداروں میں قدرتی آفات وبلیات میں خدمات سر انجام دینے کے لئے مستقلا شعبہ قائم کریں اور اس کے لئے وقتا فوقتاً ورکشاپس بھی کروائیں
(2)پرویز مشرف جیسے دین بیزار شخص نے مدارس دینیہ کے نیٹ ورک کو قابل ستائش فلاحی چین قرار دیا تھا جو کہ حقیقت بھی ہے پاکستان کے شہر ہوں یا دیہات ،قصبے ہوں یا محلے ہرجگہ مدارس دینیہ کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے میں سب سے بڑے تعلیمی نیٹ ورک وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زمہ داران سے گزارش کروں گا کہ وہ قدرتی آفات کی صورت میں مدارس دینیہ کے کردار کو مربوط اور مضبوط بنانے کے لئے ایک مستقل شعبہ قائم کریں اور اجتماعی طور پر بہتر خدمات ہوسکیں گی
(3)مذہبی طبقات چاہیے وہ مدارس دینیہ ہوں یا مذہبی فلاحی تنظیمیں اور ادارے ہوں وہ ایسی صورتحال میں مشترکہ ایمرجنسی کنٹرول رومز قائم کرکے اس بات کی مانیٹرنگ کریں کہ کہاں پر خدمات کافی ہیں اور کہاں پر خدمات کی ضرورت ہے تاکہ ایسا نہ ہوکہ ایک علاقے میں تو سب کام کررہے ہوں جب کہ دیگر متاثرہ علاقوں میں کوئی بھی فلاحی ٹیم نہ پہنچی ہو
(4)موجودہ سیلابی صورتحال میں مفتی محمد زبیر حفظہ اللہ جیسے متمول فلاحی نیٹ ورک کے روح رواں بھی ہیلی کاپٹر کی ضرورت کی دہائیاں دیتے نظر آئے اگر موصوف ہی فلاحی تنظیموں کوہیلی کے بھوت سے آزادی دلواتے ہوئے اپنے فلاحی ادارے صفہ ٹرسٹ کو ہیلی کی سہولت سے لیس کرلیں تو بوقت ضرورت ان سخت دل حکمرانوں سے ہیلی کی دہائیاں دینے سے جان خلاصی ہوسکے گی اسی طرح ،بنوری ٹاؤن ،دارالعلوم کراچی اور جامعہ الرشید کے لئے یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں
(5)مذہبی طبقات سیلاب زدگان کی خدمات میں اول دستہ کا کردار ادا کررہے ہیں لیکن امداد کے نام پر ایسے اوقات میں ایمان دشمن ادارے بھی میدان میں اتر جاتے ہیں جو لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ایمان بیزاری کے اقدامات کرتے ہیں اس لئے مذہبی طبقات سیلاب زدگان کے ایمان کی حفاظت کے لئے بھی اقدامات کریں تمام متاثرہ علاقوں میں مختصر اور پر اثر دروس قرآن اور صبر و شکر کے موضوعات سے آگاہی کو بھی شیڈول میں شامل کریں تاکہ عوام میں ایمان کی تازگی اور بیداری رہے

(6) برساتی نالوں اوردریاؤں کے اردگرد عمارتوں کی تعمیر پر مکمل پابندی ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کا کروڑوں کا نقصان نہ ہو جیسے ابھی سوات ،ناران اور کاغان وغیرہ میں صورت حال سامنے آئی کے پانی کے قریب ترین تعمیرات کیوجہ سے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا
(7)پانی کے راستوں میں تعمیرات کی اجازت دینے پر متعلقہ اتھارٹیز کے خلاف جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے اور انکوائری رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے
(8)ارباب اقتدار کو اپنا محاسبہ کرناچاہیے کہ آخر کیوں اس قدر ہولناک تباہی کے باوجود پاکستان کو عالمی سطح پر آفت زدہ قرار نہیں دیا جاسکا ۔۔۔؟
(9)سیلاب زدگان کی ایمرجنسی امداد کے بعد انکی بحالی انکو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور اصل کام امداد کا عادی بنانا نہیں بلکہ پاؤں پر کھڑا کرنا ہی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

(10)بطور قوم ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں پر اجتماعی معافی مانگنی چاہیے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply