نابینا و دیگر معذور افراد اور ہمارا معاشرہ۔۔مہرساجدشاد

ہمارے والد محترم کے استاد حافظ قاری شوکت علی نابینا تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا، جب ان کا انتقال ہو گیا لیکن وہ بہرحال میری یاد داشتوں میں موجود ہیں۔

ابا جی مرحوم بتایا کرتے تھے کہ قاری صاحب کو اللہ نے بینائی نہیں دی تھی لیکن باقی صلاحیتیں بے مثال تھیں، وہ اکیلے دور دراز  علاقوں تک جا پہنچتے تھے، یادداشت کمال کی  تھی، راستے ایسے ماپے ہوتے کہ ہم اگر کنفیوز ہوتے کہ یہ گلی یا اگلی تو وہ بتاتے جہاں ہم پہنچے ہیں یہیں سے دائیں مڑنا ہے۔ بااخلاق اور خوش طبع تھے۔ مسجد میں بیٹھے ہوتے تو ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہی جان جاتے، جونہی ہم وضو کر کے صف پر چلنا شروع کرتے تو وہ چند قدموں کی  چاپ  سے ہی پہچان کر کڑکدار آواز دیتے، کون ! محمد طفیل ہے ؟ میں کہتا جی قاری صاحب !

آج مجھے ابو جی کی وساطت سے قاری شوکت اس لئے یاد آئے ، میں کہیں بیٹھا تھا اور وہاں  نابینا افراد کے عالمی دن پر گفتگو ہو رہی تھی، یہیں مجھے اٹلی کا وہ دن یاد آیا جب میں وہاں کچھ علیل ہوا اور اپنے میزبان کے ہمراہ میڈیکل  سٹور سے کچھ عام ادویات خریدنے گیا۔ وہاں دیکھا ہر دواء  پیکٹ میں تھی اور اس پر (برل) بصارت سے محروم افراد کی زبان میں بھی نام اور ضروری ہدایات درج تھیں۔ میں حیران ہوا کہ نابینا افراد کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اس قدر اہتمام کہ تمام ادویات پر اضافی خرچہ کر کے اسے نابینا افراد کے   پڑھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ یہ قوموں کے احساس ذمہ داری کا اظہار ہے۔ ہمارے ہاں ابھی اس کا تصور ممکن نہیں۔

بدقسمتی سے ہم ایک غیر ذمہ دار قوم ہیں اور اپنے رویوں سے  یہ   ثابت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف وجوہات کی بنا پر ٹانگوں سے معذور افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو مستقل معذور ہیں یا کسی حادثہ وغیرہ کے باعث عارضی طور پر معذوری جھیل رہے  ہیں۔ ہم انکی ضروریات کا خیال رکھنے کا رویہ اور سوچ نہیں رکھتے، ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن عملدرآمد کے منتظر ہیں۔

گزشتہ حکومت نے ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے  کچھ پیش رفت کی ،تو ہمارا اجتماعی معاشرتی رویہ اور شعور بے پردہ ہو گیا۔  سٹیٹ بنک کے  ذریعے تمام بنکوں کو حکم دیا گیا کہ تمام بنک اپنی اے ٹی ایم مشینوں اور بنک کے داخلے کو (ویل چیئر فرینڈلی) ویل چیئر پر جانے کے قابل بنائیں، اس کے بعد جو ہوا اس کو آپ (جھلکیوں میں ان تصاویر میں) اپنے ارد گرد کسی بھی بنک پر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔

لیکن المیہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کی آبادی ۹۵ فیصد سے زائد مسلمان ہے جن کو دن میں پانچ بار اجتماعی عبادت کیلئے مسجد میں جانا ہوتا ہے، لیکن کسی شہر کسی صوبے حتی کہ پورے ملک میں آپکو کوئی ایک مسجد ایسی نہیں ملے گی جہاں کوئی معذور فرد ویل چیئر پر خود جا سکے۔ انسانیت ہماری زندگیوں میں آئے گی تو ہی ہم انسان کہلا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply