شولپان، شولپان/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

لنک؛گزشتہ اقساط

 

 

 

شولپان اور میری جسمانی کیمیا کوئی اتنی ہم آہنگ نہیں تھی جتنی کہ ذہنی کیمیا۔ رؤف تاتار کی طفل تسلیاں الماآتا میں میرے قیام کو طویل کیے جا رہی تھیں مگر اب مجھے شولپان کا ساتھ مل گیا تھا، پھر ماسکو میں ویسے بھی کام نہیں چل پا رہا تھا، مجھے گمان تھا اگر رؤف تاتار سے پوری نہ سہی آدھی وصولی بھی ہو گئی تو ماسکو میں کام کی نہج کو درست کرنے کی تگ و دو کیا جانا ممکن ہو پائے گا۔ اگرچہ ایسا ہونا مشکوک لگتا تھا۔

شولپان اپنے بکھیڑوں سے فراغت پا کر شام ڈھلنے سے پیشتر میرے پاس پہنچ جایا کرتی تھی۔ پھر ہم دونوں وہاں سے ٹیکسی یا بس کے ذریعے شہر کے ایک جانب پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے میں ایک مقام پر پہنچتے اور وہاں سے سو دو سو میٹر اوپر چڑھ کر شولپان کے والدین کے کنٹری ہاؤس پہنچ جاتے تھے جو خالی پڑا ہوا تھا، البتہ کبھی کبھار اس کی والدہ دن میں آ کر پودوں کی دیکھ بھال کر جایا کرتی تھی۔ میں اپنے ساتھ چین میں تیار کردہ بیئر کی لٹر والی دو چار بوتلیں لے آتا تھا۔ شولپان صرف جوس پیتی تھی۔ کنٹری ہاؤس کے باغ میں گلاب اور دوسرے پھول کھلے ہوتے جہاں بیٹھ کر میں آب جو سے شغل کرتا اور شولپان جوس کی چسکیاں لیتے ہوئے، میرے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کیے جاتی یا کوئی گیت سنا دیتی۔ گھر کے باہر سے گذرتے ہوئے لوگ کبھی کبھار کنکھیوں سے ہماری جانب دیکھ لیتے تھے وگرنہ صرف پالتو کتوں کی آواز ہی سناٹے کو توڑا کرتی تھی۔ کھانا عموماً  کھا کر آتے تھے یا کھانے کی کوئی چیز ساتھ لے آتے تھے۔ کنٹری ہاؤس کا ایک ڈیڑھ کمرہ اندر سے کسی قدیم مزار کی مانند لگتا تھا جس میں شولپان زمین پر بستر بچھا دیتی تھی اور ہم دونوں جاندار اپنے جسموں کے مرقد میں اٹھکھیلیاں  کرتے ہوئے رات گئے صبح تک کے لیے مردہ ہو جاتے تھے۔

شولپان نے بتایا تھا کہ اس کے والدین کے تین کنٹری ہاؤس ہیں۔ ایک دور کے پہاڑ پر واقع ہے۔ ایک رات وہاں بھی بسر کریں گے۔ جب ایک رات وہاں جانے کے لیے روانہ ہوئے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ اس تک جانے کے لیے کچھ زیادہ ہی اونچائی پر جانا پڑا تھا۔ راستے میں لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر کے دروازے سے بھونکتے ہوئے چھوٹے سے کتے نے آ کر میرے چلتے ہوئے میری پنڈلی میں دانت گاڑنے کی کوشش کی تھی۔ شولپان نے کتے کو بھگا دیا تھا لیکن خود ترس کھا کر اتنی بار مجھ سے ” آئی ایم سوری، آئی ایم سوری” کہا تھا کہ مجھے لگنے لگا تھا جیسے مجھے کتے کی بجائے خود شولپان نے کاٹا ہو جس پر وہ بار بار معذرت کر رہی تھی۔ میں یہ سوچ کر ہنس پڑا تھا۔ شولپان نے مجھ سے ہنسنے کا جواز پوچھا تو میں نے بتا دیا تھا۔ اس پر اس نے کہا تھا کہ ظاہر ہے اسی کا قصور تھا جو اسے لے کر آئی تھے۔ جب کنٹری ہاؤس پہنچے تو شولہان نے کتے کے دانتوں سے لگے معمولی زخموں کو صابن لگا کر دھو دیا تھا۔ یہ کنٹری ہاؤس کوئی اتنا اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ یہاں باقی گھر بہت دور دور تھے اور رات کو یہ جگہ بھوت بنگلہ لگی تھی۔ ہم وہاں پھر کبھی نہیں گئے تھے۔

شولپان بہت سادہ مزاج لڑکی تھی۔ اس نے میوزک کی تعلیم بیچ میں چھوڑ دی تھی لیکن گا اچھا لیتی تھی۔ اسے اپنے باپ سے پیار تھا لیکن اپنی ماں کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اس نے چند سال پہلے ایک سیاہ فام نوجوان تارک وطن کو ترس کھا کر گھر میں پناہ دے دی تھی جو اس کے اپارٹمنٹ کے باتھ روم کے نزدیک سوتے سوتے اس کے بستر تک آ گیا تھا۔ وہ انسان دوست لڑکی تھی لیکن سیاہ فام کائیاں تھا جسے اس کا جسم اور اس کی مدد درکار تھی۔ وہ اسے اپنے ساتھ یورپ جانے کا جھانسہ دے کر لے گیا تھا اور یوکرین میں دھوکہ دے کر اس کی پونچی سمیٹ کر اسے بے یار و مددگار چھوڑ کر خود یورپ چلا گیا تھا۔ اس کے باپ نے اسے رقم بھیج کر یوکرین سے لوٹنے میں مدد دی تھی۔ اسے فلمیں بنانے کا شوق تھا لیکن مجھے  اس کی باتیں سن کر یہی لگتا تھا کہ وہ خیالات میں بسنے والی لڑکی ہے۔ وہ بالکل بے پروا تھی۔ ایک بار سڑک پر چلتے ہوئے میں نے دیکھا تھا کہ لوگ میرے ساتھ چلتی ہوئی شولپان کو بار بار دیکھ رہے ہیں۔ میں نے جب شولپان کی جانب دیکھا تو اس کی ایک چھاتی تقریباً  گریبان سے باہر نکلی ہوئی تھی۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے لاپرواہی کے باعث بلاؤ کے بٹن بند کرنا بھول گئی تھی۔ اس نے انگیہ بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ کہیں مڑتے ہوئے بلاؤز پہ کھنچاؤ پڑا تو یہ معاملہ ہو گیا تھا۔ میں نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا، “یہ کیا بدتمیزی ہے”۔ اس نے حسب معمول ” آئی ایم سوری” کہتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے گریبان کے بٹن بند کر لیے تھے۔ اسی طرح وہ گھر سے نکلتے ہوئے، پتلون یا سکرٹ پہننے کی بجائے، نزدیک پڑے کسی بھی دوپٹہ نما سکارف کو دھوتی کی طرح باندھ لیا کرتی تھی جو منی سکرٹ کا کام دے جاتا تھا۔

اس کی شکل و صورت واجبی تھی لیکن اپنی ہنس مکھ طبیعت اور سادگی کے باعث وہ سبھی کو اچھی لگتی تھی۔ حافظ رحیم کی تو اس سے بہت بن گئی تھی مگر اسے حافظ رحیم اپنی مذہبی گفتگو اور غیر مذہبی اعمال کے باعث اچھا نہیں لگتا تھا۔ حافظ چونکہ دینی مدرسے میں پڑھتا رہا تھا اس لیے اس کے رویے زیادہ متمدن نہیں ہو سکے تھے۔ وہ اکثر ٹوائلٹ کے استعمال کے بعد فلش کرنا بھول جاتا تھا۔ اس غلاظت کا نظارہ شولپان کو بھی ایک دو بار کرنا پڑا تھا۔ تاہم وہ دونوں جب آپس میں گفتگو کرتے تو خوب ہنسا کرتے تھے۔

ایک روز شولپان نے دن کے وقت مجھ سے کہا تھا کہ آج اس کے والدین گھر پر نہیں ہیں اس لیے وہ علیحدگی میں وقت بتانے کی خاطر اس کے گھر جائیں گے۔ ہم وہاں چلے گئے تھے۔ اس کی چھوٹی بہن بھی والدین کے ساتھ کنٹری ہاؤس چلی گئی تھی اور چھوٹا بھائی جو رات کو کسینو میں کام کرتا تھا، ایک اور کمرے میں پڑا سو رہا تھا۔ جس کمرے میں ہم ملتفت ہونے کی خاطر داخل ہوئے تھے وہاں بچھے پلنگ کے ساتھ والی دیوار پر قرآنی آیات کے طغرے آویزاں تھے۔ میری ان پر نگاہ پڑی تو میں نے ضد کی تھی کہ انہیں یہاں سے اتارو۔ شولپان  میرے خیالات سے واقف تھی اور خود بھی میری ہم خیال تھی اس لیے پوچھا تھا، ” کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر لگے رہیں”۔ مجھے لگا تھا کہ میں بن بیاہ کے جسمانی تعلقات میں شریک ہو کر قرآن کی حرمت سے کھلواڑ نہیں کر سکتا۔ اس نے سختی کے ساتھ کہا تھا کہ کہا ہے تو اتار دو یا الٹا دو۔ شولپان نے طغرے الٹا دیے تھے، تب ہم دونوں نے مل کر شولپان کے باپ کے گھر کی حرمت پامال کی تھی۔

تعلق ہو تو اختلاف بھی ہوتا ہے اور جھگڑا بھی۔ کسی بات پر ہم دونوں کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ ہم نے آپس میں ملنا چھوڑ دیا تھا۔ اس سے پہلے ایک بار میں اور رحیم بازار میں گھوم رہے تھے کہ ہمیں دو لڑکیاں جاتی دکھائی دی تھیں۔ ایک 23، 24 برس کی تھی اور ایک 19،20 برس کی۔ بڑی بہت خوبصورت تھی اور چھوٹی بہت ملیح۔ ان سے متعارف ہونے کے بعد معلوم ہوا تھا کہ بڑی کا نام قرلیغش ہے اور چھوٹی کا نام قرلیغا۔ ہم نے انہیں گھر مدعو کر لیا تھا وہ ساتھ چلی آئی تھیں اور کچھ دیر بیٹھ کر پھر آنے کا وعدہ کرکے چلی گئی تھیں۔ قرلیغا تو آتی رہی تھی جو رحیم سے شناسا اور شاید شناسائی کی حد پار بھی کر گئی ہو لیکن حافظ صاحب نے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا، ویسے وہ عموماً  تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مگر قرلیغش نے کہا تھا، وہ ایک بڑی عمر کے وکیل کے ساتھ رہتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے اور بہت زیادہ حاسد ہے۔ چنانچہ میں نے بھی زور نہیں دیا تھا۔ یہ دونوں لڑکیاں فلم انسٹیٹیوٹ میں اداکاری کا درس لے رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب جب ایمان کے ساتھ میل ملاقات بند ہوئی تو طغرل نے قرلیغش پر زیادہ ڈورے ڈالنے شروع کر دیے تھے۔ پھر وہ ایک روز آ ہی گئی تھی۔ حافظ رحیم کام پر گیا ہوا تھا۔ لگتا تھا قرلغش گھر سے ارادہ کرکے چلی تھی کہ آج وکیل کی امانت میں خیانت ضرور کرنی ہے۔ جابداروں کے لائق اس عمل کے دوران جب طغرل کی نیچے کی جانب دیکھ رہا تھا تو قرلیغش نے پوچھا تھا،” آپ وہاں کیا دیکھ رہے ہیں” جی ہاں وسط ایشیا میں ہمارے ہاں کی طرح آپ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ روسیوں کی طرح چھوٹتے ہی تم کا۔ یہ سوال سنتے ہی طغرل کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا۔ جتنا قہقہہ بار عمل طغرل اور قرلیغش کا یہ باہمی عمل تھا ویسا اتفاق طغرل کو نہ تو اس سے پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ ہی بعد میں کبھی۔ چند روز بعد ایمان کے ساتھ صلح ہو گئی تھی اور مستقبل کی حسین اداکارہ قرلیغش بھی قصہ پارینہ بن گئی تھی، ہمیشہ کے لیے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply