او کن جیا/کبیر خان

’’ اوکن جِیا کیا جیا ہوتا ہے۔ ۔؟ ‘‘اُس نے آٹھویں بار پوچھا،ہم نے سولہویں بار اِدھر اُدھر کر دیا ۔ خدا ہونی کہیں ، اُردو میں دودھ پیتے بچّے کوہم کیسے سمجھاتے کہ ایسے تمام سوالات جن سے بڑوں اور بزرگوں کی ہیٹی کا ذرّہ برابر احتمال ہو، خارج نصاب ہوتے ہیں ۔ نیز باہرلے سوالوں کو پرچے کے اندرلا کھڑا کرنا ،’’پڑّل‘‘ ڈالنا ہوتا ہے۔اور پڑّل ڈالنا’’گناہ کبیرہ ‘‘ہے۔ ابھی ہم اتنا ہی سوچ پائے تھے کہ کوندے کی طرح ایک خدشہ لپکا ۔۔  ’’بچّوُ! اگر تیرا یہ ببّ  پوچھ بیٹھا کہ گناہِ کبیرہ کیا جیا ہوتا ہے تو  ۔؟‘‘

ہم کپکپا کر رہ گئے۔ اور لگے سوچنے کہ وی سی آر پر اپنا پسندیدہ مشاعرہ چھیڑ کر’’واہیاں تباہیاں‘‘ مچا دیں یا ایک بار پھرمیاں داد کا چھکّا چلا دیں۔(ہماری دونوں پسندوں سے اُس کی جان جاتی ہے۔ اور وہ بیٹھک سے نکل جاتا ہے)۔یہ بھی سوچا کہ حیلے بہانے سے بچّے کو کچن میں اس کی ماں کے متھّے مارآئیں۔ شاید رات کا کھانا بھی باعزت طریقہ سے چل جائے اور بچّے کو ایسی کوئی کہانی بھی نہ سنانا پڑے ،جس سے آدھی رات تک غیرنصابی سوالات ٹپکے کے آم کی طرح گرتے اور ہمارے سر میں عقل کے یہ موٹے موٹے گومڑے اُگاتے رہیں ۔ معاً ہمیں اُلارا سوجھا، ہم نے بچّے کی سہولت کےلئے پہلا الف کاٹ کر لُنڈا بُچّہ اور ہلکا پھلکا سا لارا سپردِ خویش کر دیا۔ بچّوں کی ایک عادت ہمیں بہت اچھی لگتی ہے کہ ’’جُجّو‘‘ کے سوا ہر نئی چیز بخوشی نا صرف قبول کر لیتے ہیں بلکہ جیب میں ٹھونس لیتے ہیں ۔ جیب میں گنجائش نہ ہو تو منہ کے سیف ڈپازٹ میں بنٹے، بٹن، گِریاں،آخرے، توُت، سنبلو،ریوڑیاں،گِیٹے وغیرہ باجماعت اسٹور کر لیتے ہیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو بچّہ وقفے وقفے سے خواب کیچ کرنے کی سعی کر رہاتھا۔ جب ہمیں یقین ہو گیا کہ لُنڈے بُچّے اُلارے کھاتے کھاتے موصوف نیند کی گہری وادیوں میں اُتر چکے ہیں تو ہم نے بھی سونے سے پہلے جماندرو فوجی کی طرح کُنڈی تالا، چُنری صافہ ’’کراس چیک ‘‘ کرنے کی ڈرِلّ کی۔۔۔ یعنی ’’بیت‘‘ اور اثاث البیت سب ’’او  کے‘‘۔

ڈرل سے فارغ ہو کر ہم نے منجی پر پاسا ٹیکا ہی تھا کہ نیند سے بھری آوازآئی۔۔۔۔ ’’او کُن جیا۔۔۔۔ کیا جیا۔۔۔۔۔ یاؤں ، یاؤں،یا۔۔۔۔؟‘‘۔ ہم نے پلاسٹک کی ’’ٹِسّی‘‘ (ایک بہت چھوٹی چڑیا) کا بچّہ جیسے تیسے اُس کی مُٹھّی سے نکالا اور اُس کی جگہ گہری نیند میں ڈوبی ماں کا کان بچّے کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ چپلوں سمیت دونوں  پیر ہمارے چہرے پر جما کر انٹا غفیل ہو گیا ۔ اورتھوڑی دیرمیں شاید ہم بھی اُس کی اقتدا میں نیند کی وادی میں اُتر گئے۔ اک جھٹ پٹا سا تھا۔ سوئے ہوئے یا ہم جاگ رہے تھے۔ ؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اچانک ۔۔ ’’پپّا بھائی جان! میاؤں میاؤں۔۔۔۔،اوکُن جیا یاؤں یاؤں ں ں ‘‘ کی بازگشت ٹھوکریں ٹکریں کھاتے کھاتے نجانے کہاں تھک کر سو گئی ۔

ہم نے خود سے ایک اور ’’جینٹلمین پرومس ‘‘ کیا کہ ابھی تو سو جاتے ہیں، کل سورج اُگنے سے پہلےپہلے ’ اوکن جیا‘ کا گُڈّا بنا کر بیٹے کے سرہانے رکھ دیں گے اور صبح سویرے۔۔  ’’سرپرائی ئی ئی ززز‘‘۔

لو جی! کرنی خدا کی یہ ہوتی ہے کہ ایک کِرن دروازے کی درز سے ہوتی ہوئی تیر کی مانند ہماری بائیں آنکھ میں آن گھس جاتی ہے۔ ہم اسی آنکھ سے تماشہِ اہل کرم دیکھتے ہیں ، دوسری سنوروا رکھی ہے۔ پورا لاکھ روپیہ لگا تھا۔ چنانچہ اس سے ہم کبھی کبھی صرف ناگفتنی خواب دیکھ لیتے ہیں اور بس۔ ایک روز اس سے گھر والی کو مشقی آنکھ ماری ، بیچاری کووہیں کھڑے کھڑے آشوب آگہی کی یہ موٹی پھنسی نکل آئی۔ تب سے کارخانہ قدرت میں کوئی ایسی شے نہیں جس میں اُنہیں نقص دکھائی نہ دیتا ہو۔ ویسے آپس کی بات ہے، صور اسرافیل کے بعد اگر کوئی آوازایک شریف آدمی کو نور پیر ویلے جگا سکتی ہے ، وہ کھڑکی کے اُس پار سے گھر والی کی جھِڑکی ہوتی ہے۔ جسے ہمارے پاسے بعضے بعضے ’’چڑک‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ چڑک کی اپنی فطرت ہے، جہاں گرتی ہے آنکھ جھپکنے سے پہلے پہلے آگ،دھواں،پھٹ،لیریں بتیاں، تباہیاں ، بربادیاں چھوڑ جاتی ہے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے بائیں آنکھ کی درز سے جھانکا، ہمہ اطراف عجب سی بارودی سگند پھیلی ہوئی تھی۔ بِھتّ کے جس پھٹ سے گرد کی روشن پھانٹ اندر آتی ہے،وہیں سے شب برات کے سَروں کی مہک لہک رہی تھی۔ موقع غنیمت جان کر ہم نے روشنی کی اس سیدھی تِیر لکیر کو پکڑا۔۔۔۔ ’’ہت تیرے کی۔۔۔۔‘‘جواباً ایک عدد ’’دھت تیرے کی‘‘وار کر وہ غائب ہو گئی ۔

’’پپّا بھائی جان !، ایک اوکن جِیا۔۔۔۔، میرے لئے بھی۔۔، او۔۔ کُن۔۔ یاؤں کیوں جی۔۔۔ آآآ‘‘۔ عالمِ خواب میں بھی بیٹے کی سُوئی ’’اوکن جئے ‘‘پر اٹکی ہوئی تھی۔ ہم نے ایک تکیہ بائیں کان کے عین نیچے، دوسرا دائیں کے ٹھیک اُوپر دھرا اور پھر دونوں بازوؤں سے دونوں سرہانوں کوقلابے میں لے کر گہری نیند میں اُتر گئے۔ ابھی کروٹ بھی نہ لے پائے تھے کہ بچّے نے اپنا دستِ راست تکیہ کے نیچے گھُسایا اور ہمارا کان پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا:’’اوکن جِیا ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ِ لمّ کَنّا، بے بوجھ ، بے سُرت۔۔۔؟‘‘۔ ہم نے گلو خلاصی کی غرض سے اثبات میں سر ہلایا ۔’’ یہ تو کَنّ ترڈّ ا ہے‘‘۔ اُس نے کہا ۔ ہم نے اُس کی تشخیص کی بھی تائید کی۔
’’پپّا ! اوکُن جِیا آپ جیسا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔؟ بے بوجھ ،ہاں کہو ہاں ، نہ کہو نہ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔‘‘ ہم نے کہا۔ بچّے نے جیب ، مُٹھّی اور منہ سے ہر شے نکال پرے پھینکی۔اور کروٹ بدل کر سوگیا۔ اُس کے گلاب چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’’اسے کیا ہوا۔۔۔۔؟‘‘ ’کلّے ویلے‘ کے بعد بیگم نے جھاتی ماری’’آج ابھی تلک گہری نیند سو رہا ہے ؟‘‘۔ عرض کیا تشویش کی کوئی بات نہیں ، آج اس نے’’ اوکُن جِیا‘‘ دریافت کر لیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply