حاشیوں کے سرخ ہونے کاقصہ۔۔اسرار احمد شاکر

کسی بھی نثر پارے کا درست ادراک، تخلیق کار کی شخصیت، اس کے نظریہ فن، اس کی سوچ اور فکر کو جانے بغیر اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کہ ہر تخلیق اپنے فن کار کی شخصیت کا پرتو اور اس کی فکری اساس کا مظہر ہوتی ہے۔
عابدمیر کی شخصیت سے جو لوگ واقف ہیں، وہ بہ خوبی جانتے ہوں گے کہ وہ ایک نظریاتی انقلابی سوچ کے حامل نوجوان، متحرک اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے فن کو ان کی شخصیت اور بلوچستان کے حوالے سے، ان کے نظریات کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جائے تو زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔

عابدمیر کے مختصر اور مختصر ترین افسانوں کا فنی طور پر تعین اگرچہ میرے جیسے عام سے قاری اور کہانی کار کے بس کی بات اس لیے بھی نہیں ہے کہ بہت سے نقاد افسانے کی اس صنف کو افسانہ ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ محمد حمید شاہد نے اپنے مضمون ’’مختصر افسانہ اور کتنا مختصر کریں گے؟‘‘ میں اس فہرست میں وارث علوی، ممتاز حسین اور خلیل الرحمان کو شامل کیا ہے، جنہوں نے ’’سیاہ حاشیے‘‘ جیسے مصنف کے افسانچوں کو چٹکلے، لطیفے اور پہیلیاں کہا تھا۔ جب کہ حسن عسکری کے حوالے سے مزید اس ضمن میں لکھا ہے کہ ”حسن عسکری نے، منٹو کے ‘سیاہ حاشیے’ کو کہیں مختصر افسانے کہا ہے اور کہیں لطیفے، تاہم انہیں یوں قبول کیا تھا کہ وہ انسانی دستاویز ہو گئے تھے۔“

پس! افسانے کے تمام تر فنی اور تکنیکی مباحث میں الجھے بغیر، اپنے قاری کی تلاش میں سرگرداں عابدمیر کی ان مختصر کہانیوں کو ایسی ہی ایک انسانی دستاویز جانیے، جن میں دنیا کی قدیم اور خوب صورت تہذیب کا امین، مگر لہو رنگ بلوچستان دِکھتا ہے، بلوچستان کا بے بس، لاچار اور غریب باسی دِکھتا ہے، جو زندگی کی کربناکیوں کا عکس لیے اپنی تمام تر محرومیوں سے نبرد آزما ہے۔ اپنے غم و اندوہ اور ظلم و زیادتیوں کے ساتھ لڑتا اور نباہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کتاب ان مقہور و مجبو ر لوگوں کا نوحہ بن گئی ہے، جن کی آنکھیں، خواب، دیواریں، راستے، دریا، پہاڑ سب سرخ ہو گئے ہیں۔ یوں اِن کہانیوں کے بطن سے، اُن غریبوں کے دکھوں کی دستاویز بن کر ”سرخ حاشیے“ وجود میں آ گئے ہیں۔

زیرِتبصرہ عابدمیر کی کتاب ”سرخ حاشیے“ اُن غریبوں اور بلوچ باسیوں کے نام ہوئی ہے، جو حاشیوں کے سرخ ہونے کی نذر ہوئے! اگلے صفحے پر عطا شاد کااستفہامیہ مصرع درج ہے۔ یوں کہ، ”تم گردنیں کاٹنے سے افکارِ حیات مار سکتے ہو؟!“

ترتیب کے لحاظ سے کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے، جس میں کل تیس کہانیاں شامل ہیں۔
۱۔ کہانی سرخ ہو جاتی ہے
۲۔ پانی نے کہانی لکھی
۳۔ کہانی ختم نہیں ہوتی

کتاب کا آغاز ایک ایسی کہانی سے ہوتا ہے، جو بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں ہوئے بم دھماکے کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔”کٹے ہوئے اعضا کی گفتگو“ کے عنوان سے لکھی گئی کہانی کو نام ہی کچھ ایسا دیا گیا ہے کہ کوئی بھی حساس قاری، کہانی پڑھتے ہوئے اپنے آپ میں نہیں رہتا۔ اس کہانی میں جہاں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی پر چوٹ کی گئی ہے، وہیں یہ کہانی جنونیت پر مبنی سوچ کے زیرِ اثر سسکتی، دم توڑتی انسانیت کا نوحہ بن گئی ہے۔ خدا کے نام پر مخلوقِ خدا کی جان کی حرمت کو پامال کرنے والوں کی سفاکیت کی نقاب کشائی کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ بہشت کی جاہ اور اللہ اکبر کی صدا میں وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلنے والے، نفرت اور ملامت کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ بم دھماکے کی صورت میں انسانی اعضا دور دور تک بکھر جانے کے بعد، کٹے ہوئے اعضا کی باہم گفتگو کا آغاز مہرالنسا کی کلائی سے ہوتا ہے۔ اس پورے منظرنامے کا حقیقی کرب محسوس کرنے کے لیے، بطور نمونہ اب ذراکہانی کے کچھ فقرے ملاحظہ کریں۔

مہرالنسا کی کلائی: اف کیسا درد ہے۔۔۔ یہ درد تو ابھی تھم جائے گا، مگر ہائے میری چوڑیاں، کل ہی تو لا کے دی تھیں اس نے۔۔۔ کہا تھا کہ آج پہن کر دکھانا۔۔۔ اب آئے گا دیکھنے تو کیا میری کلائی کو پہچان بھی پائے گا۔؟

پھر فاطمہ کا ہاتھ گویا ہوتا ہے۔۔۔ اگلے لمحے پلوشہ کی آنکھیں بول پڑتی ہیں۔۔۔ پھر مہناز کا دھڑ دُہائی دیتا ہے۔۔۔ اور آخر میں خودکش حملہ آور کا سر چلا کر کہتا ہے،”تم سب کافر کی بچیاں ہو۔۔۔ اور اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر کے نعروں سے کہانی انجام پذیر ہوتے ہوئے قاری کو جذبات کی رو میں بہا کر لے جاتی ہے۔

”شکر خدا کا“ کے عنوان سے لکھی دوسری کہانی میں ایک طالبہ کی داستاں بیان ہوئی ہے جو دھماکے کی صورت میں حواس باختہ ہو جاتی ہے، اور دیوانہ وار آگ میں جھلستی اپنی ساتھی طالبات کو نکالنے میں جت جاتی ہے۔ اس اثنا میں اسے گھر سے فون آتا ہے۔ اس کی خیریت دریافت کرنے پر اس کے والدین جس انداز میں شکر بجا لاتے ہیں، اور اسے ہجوم سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے جو اپنے اصل موضوع کے ساتھ مربوط ہو کر کہانی کو یادگار بنا دیتا ہے۔ والدین کی زبان سے اس بے حسی کا برملا اظہار اس کے ضمیر کو مجروح کر دیتا ہے، اور وہ باؤلی ہو کر چیخنے چلانے لگتی ہے۔

اسی دھماکے کے پس منظر میں لکھی گئی، ”پوسٹ لائک، شیئر، ٹیگ، کومنٹس“ نامی کہانی بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ ترتیب دیتی ہے کہ کہانی پڑھتے ہوئے انسان ہل کر رہ جاتا ہے۔ یہ کہانی یوں تو ایک شاعرہ کی نظم بعنوان،”برزخ کی آگ کا منظرنامہ“ پر ہونے والے کومنٹس پر منتج ہوتی ہے، مگر اس کے متن سے انسان کی سنگدلی کا ایسا منظر نامہ تشکیل پاتا ہے کہ انسانیت شرما جاتی ہے۔

”چرواہے کا گم شدہ گیت“ نامی کہانی اپنے عنوان سے ہی اچھوتی بن گئی ہے۔ گیت کی گم شدگی کا قصہ ایک ایسے واقعے کی نشاندہی کرتا ہے، جو کہانی میں ڈھل کر امن کی دھرتی کو انگاروں میں بدلنے والے ماجرے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ واردات ہی کچھ اس طرح آناً فاناً ہوتی ہے کہ امن اور چین کی زندگی جینے والے چرواہے کا گیت کہیں گم ہو جاتا ہے۔ کہانی کے بیانیے کی کیفیت میں رہ کر تو دیکھیے؛ وہ حسین رات کا قصہ، اس کی مہ جبیں کا دوستیں وڈھ جیسا چوڑا سفید سینہ، مضبوط بازؤں کے حلقے، شہد آفریں لب، پھر ہفتہ بھر کی جدائی اور بہت کچھ؛ ہوتا یہ ہے کہ دوستیں وڈھ کا دامن خوف ناک دھماکوں سے لرز اٹھتا ہے، اور چرواہے کی زندگی میں اپنی محبوبہ سے ملن کا وہ ہفتہ پھر نہیں آتا۔

یہ اپنی نوع کی انوکھی کہانیاں ہیں، جن میں دہشت کے ماحول میں بھی محبت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ شاید اس لیے کہ یہی محبت ہی انسانی زندگی کی بقا کی ضامن ہے۔ دو سطروں کی ”شرپسند“ نام کی کہانی بھی کیا کمال ہے کہ لفظ ’شر‘ سے بھی کہانی کار اچھائی کے حسین معنی کشید کر لیتا ہے۔

اسی حصے کی دیگر کہانیوں میں ”منظورِخدا،‘‘ ”خبر“،”شہر کی آنکھ میں اٹکا آنسو“،”کامریڈ کا انقلاب“، ایسی کہانیاں ہیں، جو اپنا بھرپور تاثر اور احساس لیے شروع سے آخر تک قاری کو اپنی گرفت میں لیے رہتی ہیں۔ اور وہ آخری کہانی جو ”اقوام متحدہ اور امریکہ“ کے عنوان سے لکھی گئی ہے، سچ پوچھیے تو امریکی سامراج کی چیرہ دستیوں اور اقوام متحدہ کے دوغلے کردار کو یکسر بے لباس کر دیتی ہے۔

دوسرے حصے کی کہانیوں میں ”ملٹی نیشنل کمپنی کے مینجر کی ڈائری“ میں ان کمپنیوں کی اصل حقیقت اور کمپنی مالکان کی اصلیت آشکار ہوتی ہے۔ یہ کہانی قاری کے سامنےمعلومات کے ایسے دریچے وا کرتی ہے کہ پڑھنے والا حیرتوں کی نئی دنیا سے روشناس ہوتا ہے۔

”سیلاب کی دعا“ نامی کہانی میں غربت زدہ بچے کو پہلی بار جب عالمی معیار کی خوراک میں بسکٹ اور جوس کے ڈبے میسر آتے ہیں تو بچہ معصومیت سے پوچھتا ہے،”ماں پھر سیلاب کب آئے گا؟“ ماں پہلے تو اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے، لیکن پھر فوراً اپنا ہاتھ ہٹا دیتی ہے کہ اسے بھی شاید یہی گوارا ہے۔ ایک بھوکی اور غربت کی ماری ماں کو بھلا اور کیا چاہیے کہ اسے مردہ عالمی ضمیر کے زیر سایہ پھلتی پھولتی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس جال اور استحصال سے کیا لینا دینا۔

علاوہ ازیں ”خبر اور ردعمل“، ”سیلابی جوتوں کا مکالمہ“، ”سیلابی عشق“ فنی اور فکری لحاظ سے بہترین اور متاثر کن کہانیاں ہیں۔

تیسرے حصے کی پہلی کہانی،”خدا ترس“ میں پہلے مزدور کا استحصال کرنے اور پھر اسی ساہوکار کی طرف سے کفن دفن کا بندوبست کر کے ’خدا ترس‘ کہلانے کا دوغلا پن بڑی خوب صورتی سے بے نقاب ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ”سنت“، ”استادِ محترم“ اور ”محبت کی کہانی کا مرکزی کردار“ عمدہ کہانیاں لگیں، جنھیں نہ پڑھنا شاید فکشن کی بھیدوں بھری دنیا سے بے خبر رہ جانا ہے۔

بعض کہانیاں مگر میری رائے میں اپنے موضوع، مواد اور فنی ترتیب کے لحاظ سے بھرپور تاثر قائم کرنے میں کچھ حد تک کمزور دکھائی دیں، جن کے ذکر سے مضمون کی طوالت دامن گیر ہونے کے سبب صرفِ نظر کیا گیا ہے۔

کتاب کے بیک ٹائٹل پر عابدمیر کا لکھا ہوا فلیپ میں یہاں لکھنا اس لیے بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس فلیپ کا تعلق کسی حد تک اس مضمون کی تمہید میں شامل حوالہ جات سے بھی جڑا ہے۔ یہ بھی کہ اس سے ان کہانیوں کی فنی اہمیت نہ صرف دو چند ہو جاتی ہے، بلکہ ان کہانیوں کو مزید سمجھنے میں آسانی بھی ہو جاتی ہے، لکھتے ہیں؛ ”اردو کے ادیب کیونکہ اب تک کہانی اور افسانے کے مابین فرق کی بحث سے نہیں نکل پائے، سو ان کے ہاں ان سرخ حاشیوں کی صنف کا تعین مشکل ہی ہو گا۔ باقی دنیا بھر میں انھیں کہانیاں کہا جاتا ہے؛ مختصر ترین کہانیاں۔ دو صفحات سے، دو پیراگراف اور اب دو سطروں تک سمٹ آنے والی کہانیاں۔ ایسی کہانیاں جو ہیں تو اس معاشرے کے ہر فرد سے متعلق۔۔۔ مگر اپنے قاری کی تلاش میں سرگرداں ہیں!!“

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ آئیے ان کہانیوں کو پڑھیں کہ یہ میری اور آپ کی کہانیاں ہیں۔ یہ ایسے سماج اور اس میں شامل فرد کی کہانیاں ہیں، جو اِنھیں پڑھتے ہوئے اپنے لوکیل سے، اپنی دھرتی سے، زندگی کے نشیب و فراز سے نہ صرف آشنا ہو گا بلکہ ان کہانیوں سے ایسی قوت کشید کرے گا جو اسے حق کہنے پر اکساتی رہے گی۔ یہ کہانیاں حق کی خاطر لڑنے، ایک دوسرے سے جڑنے اور اپنے مرکز سے جوڑے رکھنے میں بھی معاون ہو سکتی ہیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply