ایک طرحی غزل۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 ( کینیڈا میں یوم ِ غالب پر اطہر رضوی صاحب کے سالانہ جلسے میں دس بر س پہلے، یعنی 2012 میں پڑھی گئی)
مصرع طرح:
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا
ہے یہ بے فیض انساں کا جنم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا
(ق)
جو کچھ بھی لکھ چکا ہوں، لکھ چکا ہوں
یہ رزق ِ شعر ہے اب بیش و کم کیا
اٹھتّر سال کا تو ہو گیا ہوں
کروں سود و زیاں اب میں رقم کیا
(ق)
میں خود سے پوچھتا رہتا ہوں اکثر
نہیں ہے نطق میں اب کوئی دم کیا؟
کئی برسوں سے ہوں میں خالی الذہن
مری گفتار کیا میرا قلم کیا
(ق)
اشارے اور کنائے چھپ گئے ہیں
لکھوں میں اس سے بڑھ کر اور کم کیا
کہ وصل القدر ہے ایطائے جلّی
علیحٰدہ کیا، دِگر کیا، اور بہم کیا
(ق)
فقیری میں بھی ہے صبر ِ ِایوبی
لُٹا گھر بار تو اس کا الم کیا
کہ  ٭مرِگ چھالا   ہی تھا میرا اثاثہ
اگر لُٹ بھی گیا تو اس کا غم کیا
(ق)
پیاسی کھیتیاں ، بنجر زمینیں
مرے سائے میں آئیں، خشک و نم کیا
میں ابر ِ بے ریا تھا، کھُل کے برسا
سبھی سیراب کر دیں، بیش و کم کیا

سوا نیزے پہ آتا ہی نہیں ہے
یہ سورج لے گا اور لاکھوں جنم کیا

Advertisements
julia rana solicitors

نہ ہو  ٭  آندھی کی وسطی آنکھ آنندؔ
ہوا ہے اشک کا طوفان کم کیا؟
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
( ٭ ہرن کی کھال کا آسن)
ؑEye of the hurricane. *

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply