• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ‪ایک نازک موضوع پر چند مزید محتاط خیالات‬۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

‪ایک نازک موضوع پر چند مزید محتاط خیالات‬۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

جناب وجاہت مسعود کی “ایک نازک موضوع پر کچھ محتاط خیالات” کے عنوان سے جو تحریر شائع ہوئی ہے میری درخواست ہے کہ میری اس گزارش کو اس تحریر کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔ وجاہت صاحب کی تمہید کو من و عن اس تحریر کی تمہید بھی سمجھا جائے تاکہ تکرار سے بچا جا سکے اور میں مختصراً چند گزارشات اسی موضوع پر آپ کی خدمت میں عرض کر سکوں جس پر وجاہت صاحب کی تحریر آپ پہلے ہی پڑھ اور سراہ چکے ہیں۔

سن 2002 کے حوالے میں جب میں آئرلینڈ پہنچا تو میڈیا میں ایک آئرش پریسٹ شون فورچون Sean Fortune اور اس کی خودکشی کا تذکرہ روزانہ کسی نہ کسی حوالے سے میڈیا پر جاری بحثوں کا حصہ تھا۔ موصوف کیتھولک آئرلینڈ میں ایک پریسٹ تھے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں ان پر نوعمر لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے پر 60 سے زیادہ مقدمات درج ہوئے۔ 1999 میں جب یہ مقدمات اپنے فیصلوں کا انتظار کر رہے تھے تو پینتالیس سالہ فادر فورچون نے ادویات کی ایک بہت زیادہ مقدار لے کر خود کشی کرلی۔ ان کی خود کشی نے ان کو سزا اور معاشرتی لعن طعن سے تو بچا لیا مگر مذہبی رہنماؤں کی جنسی زیادتیوں کا معاملہ اس کے بعد پھر دبایا نہ جا سکا۔ چرچ سے منسلک متعدد مذہبی رہنماؤں کی جنسی سرگرمیوں کا شکار بننے والے لڑکے اور لڑکیاں آئے روز سامنے آنے لگے۔ ایسے میں آئرش حکومت کے لئے ان واقعات کو دبانا اور نظر انداز کرنا مشکل ہوگیا۔ مقدمات پر مقدمات درج ہوئے لیکن دو ہزار دس تک کئی تفتیشی رپورٹس کے شائع ہونے کے باوجود بھی صرف چند ہی لوگوں پر فرد جرم عائد کی جا سکی۔

میں آئرلینڈ میں ایک آرگنائزیشن کے لیے کام کرتا ہوں جو کیتھولک چرچ کی ایک ذیلی تنظیم کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ آرگنائزیشن ذہنی معذور افراد کی نگہداشت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی تک اس آرگنائزیشن کو مذہبی رہنما چلاتے تھے مگر جب ان مذہبی رہنماؤں کے بارے میں آئے روز ذہنی معذور افراد کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آنے شروع ہوئے تو یکلخت مذہبی رہنماؤں کو ہٹا کر اس کا انتظام و انصرام پروفیشنلز کو دے دیا گیا۔ یہاں اپنے بیس سالہ قیام کے دوران میں کئی ایسے ذہنی معذور افراد کو میں نے پیشہ ورانہ مدد فراہم کی جو مذہبی رہنماؤں کی زیادتی کا نشانہ بن چکے تھے۔ جنسی زیادتیوں کے واقعات کا اس طرح تسلسل سے سامنے آنے کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ مذہبی رہنما اب سماجی بہبود کے مختلف منصوبوں کی سربراہی سے سے اس طرح فارغ کر دیے گئے کہ اب وہ براہ راست بچوں اور ذہنی معذور افراد کے ساتھ رابطے میں نہیں رہے۔ تاہم ہمارے جیسی آرگنائزیشن کی حتمی قیادت آج تک ان ہی مذہبی رہنماؤں کے پاس ہے۔۔۔۔ کیا ان مذہبی رہنماؤں کو سزا ملی؟ جواب ہے، جیسی ملنی چاہیے تھی ویسی نہیں۔۔۔ ان مذہبی رہنماؤں کی اکثریت کو چرچ کی مذہبی سرگرمیوں سے الگ کر کے چرچ ہی کی فراہم کردہ محفوظ رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا گیا۔ ان میں سے بعض ایک آسودہ مگر الگ تھلگ زندگی گزارنے کے بعد اس دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔۔۔۔ ہاں پہلے پوپ جان پال اور پھر پوپ بینیڈکٹ نے ان متاثرہ افراد سے معافی ضرور مانگی۔ آئرلینڈ کے بشپ نے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ انہیں ان واقعات کی جس طرح چھان بین کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کر سکے۔ اور یہ بھی ہوا کہ کیتھولک چرچ نے اپنے اثاثے فروخت کر کے متاثرہ افراد کو وہ رقوم ادا کیں جن کا تعین آئرش حکومت کی قائم کردہ ایک کمیٹی نے کیا تھا۔ ایک اہم نتیجہ یہ بھی نکلا کہ معاشرے پر چرچ کا کنٹرول اور تسلط پہلے جیسا نہیں رہا۔ لوگ آج بھی چرچ جاتے ہیں۔ ہر سرکاری اسکول کے بورڈ آف گورنرز کا سربراہ آج بھی پریسٹ ہوتا ہے لیکن اب یہ ایک نمائشی عہدہ رہ گیا ہے۔۔ بچوں کے ساتھ ان کے تعلق اور رابطہ پر سکول کی انتظامیہ نظر رکھتی ہے۔ غرض یہ کہ آئرش معاشرے میں چرچ اور پریسٹ کی سابقہ حیثیت بری طرح متاثر ہوئی۔ بعض دوستوں کی رائے میں چرچ کی حیثیت پر نشاۃ ثانیہ کے بعد لگنے والی شاید یہ سب سے کاری ضرب تھی۔ معاشرے اور حکومت پر چرچ کا تسلط اور تصرف اب بھی موجود ہے مگر نہ ہونے کے برابر۔۔۔ جس کا ثبوت حال ہی میں یہاں ہم جنس پرستوں کی شادی پر ہونے والا ریفرنڈم تھا جس میں قدامت پسندوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال دوسرے یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی رہی۔
یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جانے والے بچے اور بچیاں بھی اسی طرح مذہبی رہنماؤں کی جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ یہودی عبادت گاہوں میں رونما ہونے والے اسی نوعیت کے واقعات بھی کثرت اور تواتر سے رپورٹ ہوئے ہیں اور کئی مفصل تحریریں آج ہر خاص و عام کے مطالعے کے لئے موجود ہیں۔

آئرلینڈ میں چونکہ کیتھولک آبادی کی اکثریت ہے اس لیے یہ واقعات بھی عمومی طور پر کیتھولک چرچ سے منسلک مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے سامنے آئے۔ چرچ آف آئرلینڈ (پروٹسٹنٹ) کے حوالے سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ میرے حافظے میں محفوظ نہیں ہے اس لیے اس پر تبصرہ کرنا شاید زیادتی ہو۔ پاکستان میں مگر اس طرح کے واقعات کا ہر مذہب اور ہر مسلک کے مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے سامنے آتے رہنا اب ایک معمول کا حصہ بن چکا ہے۔
ان واقعات کے تواتر اور تسلسل سے سامنے آنے کے بعد مذہبی رہنماؤں کے جنسی رویے اس بات کا تقاضا بہرطور کرتے ہیں کہ ان کو تفصیل اور غور سے دیکھا اور سمجھا جائے اور اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے کہ کیا ان جنسی رویوں کے پیچھے مذہب یا مذہبی تعلیم کے اثرات کھڑے ہیں یا مذہبی رہنما اپنی مذہبی شخصیت کی وجہ سے کسی اور نفسیاتی پیچیدگی یا جنسی گھٹن کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے جنسی رویوں کا سبب بنتی ہیں۔

مذہبی رہنماؤں کے ان جنسی رویوں کو جب بھی موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے تو ایک دلیل بالعموم دی جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا اسی طرح کے جنسی رویے اور اسی طرح کے واقعات ان افراد کے حوالے سے سامنے نہیں آتے جو مذہب یا مذہبی تعلیم و تبلیغ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ اور مثال کے طور پر فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔۔۔ سیاستدانوں، فوج کے جرنیلوں، اور دیگر دولتمند افراد کی بابت بات کی جاتی ہے۔ پاکستان میں تو معاملہ اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے جب مالی طور پر نچلے طبقے کے افراد بھی اسی طرح کے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ایسے افراد نہ تو زیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں نہ دولت مند اور نہ صاحبان اقتدار۔۔۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو کسی بھی طور پر جنسی محرومی کا شکار نہیں ہوتا۔۔۔۔ اب سوچئے کہ ان مذموم جنسی رویوں کا مذہب سے تعلق جوڑنے اور جنسی گھٹن جیسے دلائل کا کیا بنے گا۔۔۔۔

جنسی زیادتی اور اس سے متعلق دیگر رویوں کے ذیل میں ایک مشکل یہ درپیش رہتی ہے کہ اس میں موجود جنسی عمل ہمیں جنس Sex کے علاوہ کسی اور محرک کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتا۔ میں اس موضوع پر اپنی گزشتہ تین گزارشات میں یہ عرض کرنے کی کوشش کر چکا ہوں کہ جنسی زیادتی سے منسلک رویوں کو سمجھنے کے لئے ذرا اس میں سے جنس کو نکال کر دیکھیں پھر شاید آپ ہر اس شخص کے جنسی رویے اور اس کے محرکات کو سمجھنے میں کامیاب ہو سکیں جو جنسی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جنسی زیادتی یا ریپ کے محرکات میں سے ماہرین نے جنسی کشش اور تسکین جیسے محرکات کو باہر نکال دیا ہے ان کو اب جنسی زیادتی کے بارے میں معاشرے میں موجود غلط فہمیوں Myths میں شمار کیا جاتا ہے۔

اپنی ایک گزشتہ تحریر میں ڈاکٹر نکولس گروتھ کی کتاب کا ذکر کر چکا ہوں۔ یہ کتاب جنسی زیادتی اور اس کا ارتکاب کرنے والے افراد کی درجہ بندی پیش کرتی ہے۔ یہ درجہ بندی جن تین محرکات کا ذکر کرتی ہے ان میں غصہ، طاقت کا اظہار اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بے قابو خواہشات شامل ہیں۔ اگر آپ ان تین محرکات کو ذہن میں رکھیں تو ریپ یا جنسی زیادتی کا ہر واقعہ سمجھ میں آ سکتا ہے۔
واپس چلیے مذہبی رہنماؤں کے حوالے سے سامنے آنے والے جنسی زیادتی کے واقعات کی طرف۔۔۔۔جب عیسائی پادری اس طرح کے واقعات میں ملوث پائے گئے تو “جنسی گھٹن” کو ایک محرک کے طور پر پیش کیا گیا. تجرد کی زندگی گزارنے والوں پر جنسی گھٹن کا نظریہ خوب پھبتا تھا۔ مگر جب ہندو، بدھ، یہودی اور مسلمان سب ہی ایک طرح کے جرائم میں ملوث پائے گئے تو اب ضرورت اس امر کی تھی کہ معاملے کو از سر نو دیکھا جائے۔ ایک متبادل بات یہ بھی کی گئی کہ کیا ضروری ہے سارے مذہبی لوگوں کے جنسی رویوں کا محرک بھی ایک ہو۔۔۔ مسلمان اور یہودی مذہبی رہنما ہو سکتا ہے کسی اور محرک کے زیر اثر جنسی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہو جبکہ عیسائی پادری جنسی گھٹن کے زیر اثر یہی کام کرتے ہوں۔ اگر معاملہ یہ ہوتا تو عیسائی پادری آج بھی اسی طرح لوگوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہوتے جیسا وہ نوے کی دہائی تک کرتے رہے یا پھر جنسی گھٹن جیسے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیتھولک چرچ پادریوں پر سے مجرد زندگی گزارنے کی پابندی اٹھانے پر غور کر رہا ہوتا۔ مگر پادریوں کے لیے مجرد رہنا آج بھی ضروری ہے اور یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

غصہ، طاقت کا اظہار اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی بے قابو اور مریضانہ خواہشات۔۔۔ یہ وہ تین محرکات تھے جو میری رائے میں جنسی زیادتی کے واقعات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتے اور کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے مذاہب اور ان کی تعلیم و تبلیغ سے وابستہ افراد کے بارے میں یہ بات ایک بچہ کی جانتا ہے کہ دنیا کے معاملات پر تسلط قائم کرنے کی ایک شدید خواہش اس طبقے میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ مذہبی طبقہ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس نے کبھی اور کہیں بھی اپنا تسلط آسانی سے کم نہیں ہونے دیا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی تک مذہبی طبقات بادشاہوں کے ساتھ ایسے مراسم رکھتے رہے ہیں جو باہمی مفادات کی تکمیل کا سامان کرتے تھے۔ مذہبی لوگ بادشاہ کی بادشاہی اور بادشاہ مذہبی طبقات کے تقدس کو استحکام فراہم کرتے رہے ہیں۔ مذہبی لوگوں نے عوام کے اذہان میں بادشاہ کو زمین پر خدا کا نائب اور اس کی اطاعت کو خدا کی اطاعت قرار دے کر عوام سے سوال اور بادشاہ کی حکم عدولی کرنے کی سکت سلب کر لی تھی۔ جب کہ بادشاہ نے اپنے دسترخوان پر مذہبی رہنماؤں کو جگہ دے کر قانون سازی کے منصب پر سرفراز کیا۔۔ وقت نے تبدیل ہونا تھا۔۔ ہو کر رہا۔۔ لیکن غلبہ اور تسلط کی خواہش کا کیا کیجیے۔۔۔ وہ تاحال موجود ہے۔ مغرب میں تسلط کی یہ خواہش پس پردہ متحرک رہتی ہے۔ آئرش حکومت ہم جنس پرستوں کی شادی کی باقی مغربی ممالک کی طرح آسانی سے اجازت نہیں دے سکی۔ اس سے پہلے اسقاط حمل کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ اس کی اجازت کے لیے آئرش حکومت کو ریفرنڈم کروانا پڑا جو قدامت پسندوں نے جیت لیا تھا۔ آئرلینڈ میں آج بھی طبی ماہرین کی تجویز کے بغیر اسقاط حمل ممکن نہیں ہے۔ ہم جنس پرستوں کی شادی کے معاملے میں لیکن قدامت پسند ریفرنڈم ہار گئے اور حکومت مذہبی طبقہ کے سامنے یہ کہنے کے قابل ہو گئی کہ یہ اجازت ووٹ کے بل بوتے پر دی گئی ہے۔

مغرب میں مذہبی رہنماؤں کے حکومتوں اور کار حکومت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا اندازہ اب قدرے مشکل ہو گیا ہے۔ مگر ماضی میں ہٹلر اور مسولینی جیسے لوگوں کی کارگزاریوں کی جس طرح چرچ نے حمایت اور پشت پناہی کی تھی آج اس پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ گو چرچ نے عراق کی جنگ روکنے کی اپیل کی تھی مگر صدر بش کے منصوبے کی حمایت کرنے والے بھی مذہبی لوگ ہی تھے۔
آج ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کے لئے مذہب کو کس طرح استعمال کیا گیا۔ مذہبی عقائد کس طرح تبدیل کیے گئے گئے۔ جہاد کی نئی تعریف کس طرح یونیورسٹی آف نبراسکا میں تیار ہونے والے جہادی مینوئل میں شامل کی گئی۔ افغان جنگ کے چالیس سال بعد وہ مذہبی رہنما جنہوں نے عوام کو جہاد کی نئی تعریف فروخت کی تھی اب حکومتوں کے اشارے اور ایما پر امن کے نغمے گا رہے ہیں اور قتل اور خونریزی کے خلاف خطبے دے رہے ہیں۔ سعودی حکومت اور اس سے منسلک مذہبی لوگوں نے انسانی جانوں کے ایک بڑے زیاں اور نسلوں کو انتہا پسندی کی آگ میں دھکیلنے پر ذرا سی بھی شرمندگی اور ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان میں حکومت کے ذریعے تبدیلی کا خواب دیکھنے اور دکھانے والے آج بھی معاملات پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کھلے عام اور درپردہ دونوں طریقوں سے متحرک ہیں۔ اور جو تبلیغ اور نفاذ اسلام کے لیے حکومتی اہتمام کو درمیان میں نہیں لاتے تھے آج وہ طبقات بھی پاور سنٹرز کے تنخواہ دار ہیں۔ مختصراً یہ کہ اسلامی دنیا میں مذہبی لوگ طاقت کے کھیل میں آج بھی برابر کے حصہ دار اور شریک ہیں اور بدستور رہنا چاہتے ہیں چاہے پاور سنٹرز انہیں کسی بھی وقت کسی بھی طرح شرمندہ اور خوار کرتے رہیں۔۔ غلبہ دین کے لیے طاقت کے استعمال کو روا اور جائز سمجھنے والے تعلیم اور تبلیغِ دین کی ہر کوشش میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب رہ گئے وہ طبقات کے جو حکومت اور حکومتی ایوانوں کو صرف دور سے دیکھ سکتے ہیں اور جہاں داخلہ ان کے لیے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ حکومتی غلبہ نہ سہی مگر اپنے مریدین پر موجود اپنے تقدس کی گرفت کو استعمال کرنے کا ہنر اس طبقے کو خوب آتا ہے۔ حکومتی ایوانوں اور سرگرمیوں سے کہیں دور خانقاہوں اور مذہبی گروہوں میں مریدوں کا استحصال ان مذہبی رہنماؤں کی قوت ہے۔
گفتگو کے اختتام پر جنسی زیادتی یا ریپ کی اس تعریف کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتا چلوں جو ایک گزشتہ تحریر میں پیش کر چکا ہوں۔ “ریپ اصل میں کسی بھی جسم پر اس کی مرضی کے بغیر اس کو استعمال کرنے کا نام ہے”۔ ریپ کی یہ تعریف اور مذہبی طبقے کی غلبہ کی خواہش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی حالت ذہن میں رکھی جائے تو بآسانی یہ بات واضح ہوگی کہ مذہبی طبقے کی غلبہ حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کی مریضانہ کوشش کی ایک علامت اس طبقے کی ذہنی حالت اور جنسی رویے ہیں۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply