جنت دوزخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فکشن) ۔ قسط3

جنت دوزخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (فکشن) ۔ قسط3

Advertisements
julia rana solicitors

میں مرچکا تھا۔ میری روح عالمِ برزخ میں محوِ پرواز تھی۔ ایک شام جب میں جنت دوزخ کی درمیانی سرحد کی فضاؤں میں تیر رہا تھا تو اچانک میری نظر نیچے ایک ہجوم پر پڑی۔ ان میں ایک شخص کچھ جانا پہچانا سا لگا.”ارے یہ تو مارک ذکر برگ ہے” میں نے اپنا رخ اسی جانب موڑ لیا۔
“ہاۓ سر! ہاؤ آر یو ؟ میں پاکستانی ہوں اور آپ کا پرانا صارف بھی”۔ میں نے اپنا تعارف کرایا. آپ واقعی مارک صاحب ہیں نا فیس بک والے؟
“ارے ہاں بھئی ہاں، میں مارک ہی ہوں، ظاہر ہے میں نے بھی تو آخر مرنا تھا نا ! یار ایک تو تم پاکستانی کسی کی بات کا یقین ہی نہیں کرتے”
میں: جناب یقین تو کرتے ہیں مگر صرف اس کا جو جھوٹ کو خوبصورت لبادے میں پیش کرے. ہم جھوٹ سنتے،جھوٹ بولتے، خریدتے اور بیچتے ہیں. دوسروں کی ماؤں بہنوں پر انگلی اٹھاتے ہیں. قیمے والے نان اور بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض ہم اپنے بچوں کا مستقبل کمینے لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ان کمینوں کی کمینی نسلیں ہماری نسلوں کو نسل در نسل نوچ نوچ کر کھاتی ہیں مگر ان کا کمینہ پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بذات خود ہم کبھی کوئی حدیث، فقہ یا قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے مگر اپنے من پسند مذہبی اکابر کی ہر بات پر مِن وعن لبیک کہتے ہیں، اب چاہے وہ بات کتنی ہی احمقانہ کیوں نہ ہو، ہم اس کے دفاع کے لئے نئی نئی گالیاں تک ایجاد کر لیتے ہیں”۔
مارک: ہاں ہاں یہ سب تو میری نظر سے گزرتا رہتا تھا. البتہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔
وہ کیا ؟
مارک: تم جب بازار دودھ خریدنے جاتے ہو، وہ دودھ کہ جس میں آدھا پانی ملا ہوتا ہے۔ اگرچہ تم اور دوکاندار دونوں بخوبی جانتے ہو کہ دودھ میں ملاوٹ ہے پھر بھی سودا طے پا جاتا ہے اور تم ہنسی خوشی ملاوٹ والا دودھ گھر لے آتے ہو۔ یہ کیا ماجرا ہے؟
“جناب بات دراصل یہ ہے کہ نفسیاتی طور پر ہم ایک ہپناٹائزڈ قوم ہیں، بھوک اور طمع نے ہماری بُدھی بھرشٹ کر رکھی ہے. ہم ذہنی توازن کھو چکے ہیں. ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیےگئے ہیں۔
مارک: او کے، لیکن یار تم پاکستانیوں نے میری فیس بک ٹیم کو بڑا پریشان کیا ہے۔ جسے دیکھو اپنے مسلمان ہونے کی گارنٹی میری فیس بک پر دے رہا ہوتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا آپ نے کبھی کسی ہندو، عیسائی یا یہودی کو کہیں یہ یقین دلاتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ واقعی یہودی ہے یا فلاں فلاں ہے؟ بلکہ ان کو چھوڑیے کسی اسلامی ملک میں ہی دکھا دیں کہ مسلمان ایک دوسرے کو اعلان کر کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہوں کہ وہ واقعی مسلمان ہیں۔ مجھے بھی ایک مرتبہ کسی نے کالا یہودی کہا تھا لیکن میں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔
میں : کالا یہودی ؟ لیکن جناب آپ تو ماشاءاللہ کافی گورے ہیں۔
مارک: بھئ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی چند انتہا پسند یہودی اکابرین موجود ہیں جن کا مطالبہ تھا کہ دوسرے مذاہب خصوصاً مسلمانوں کو سوشل میڈیا تک رسائی نہ دی جائے لیکن میں نے ان کی بات رد کر دی اور دنیا میں ہر قوم اور مذہب کو اپنا پیغام پہنچانے کا پورا موقع فراہم کیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ ناراض ہو گئے اور مجھے کالا یہودی کہنے لگے لیکن یہ صرف چند ایک لوگ ہیں جن کی مجھے کوئی پرواہ نہیں. البتہ جس طرح آپ کے ہاں دن رات فتوؤں کا بازار گرم رہتا ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے. دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ وہ مسلمان ہے تو کیا یہ اس کا اور اس کے خدا کے بیچ معاملہ نہیں؟ سوشل میڈیا پر اپنے مسلمان ہونے کا حلف لینے سے کیا وہ واقعی حقیقی مسلمان بن جاتا ہے؟ اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے کیا اسے یہودیوں کی ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑے گا؟ کیا محشر کے دن فیس بکی ٹیم گواہی دے گی کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون نہیں؟ کیا اس کا خدا اسے نہیں دیکھ رہا ؟
منیجر: مسٔلہ یہ ہے کہ کچھ بد بخت کافروں نے ہمارے دین کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا شروع کررکھا تھا۔
مارک: جی مجھے معلوم ہے وہ چند شر پسند تھے اور نہایت بزدل بھی تھے جو چھپ کر اس طرح کی مذموم حرکتیں کیا کرتے تھے۔ لیکن کیا اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور ایک ارب مسلمانوں کے منہ میں زبان اور قلم میں اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ گنتی کے ان چند جاہلوں کا علمی لحاظ سے مقابلہ کر سکتے؟ کیا مومن کی فراست کا یہی تقاضا تھا جو چند جھوٹوں سے ڈر کر سوشل میڈیا ہی بند کرنے کا سوچنے لگتے تھے؟ کیا آپ کو اپنی لیاقت اور صداقت پر یقین نہیں؟ آپ کےعلما کو ان کذابوں کے بے دلیل اعتراضات کا حکمت، دانائی اور سچے علم کی روشنی میں جواب نہیں دینا چاہیے؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ایک سچے اور لائق طالبِ علم اور جید علمأ کے لئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ایک نعمتِ خداوندی سے کم نہیں ؟
ارے بھائی یہ ٹیکنالوجی تو خدا کی جانب سے آپ کے لیے ایک قسم کی غیبی مدد ہے جس کے ذریعے آپ مزید مؤثر اور بڑے پیمانے پر اپنا سچا اور اعلی” پیغام “پھیلا سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس ایسا کیا ہے جس سے انسانیت متاثر ہو کر آپ کی طرف ملتفت ہو؟ کیا آپ کے اندر ایسی صلاحیت ہے کہ آپ بنی نوع انسان کی زندگیوں پر اثر انداز ہو کر انہیں اس ڈھنگ سے بہتر بنائیں کہ لوگ نہ صرف آپ کے احسان مند ہوں بلکہ آپ کی بات سننا اور اس پہ عمل پیرا ہونا ہی زندگی کا اصل مقصد اور نجات کا حقیقی ذریعہ سمجھیں؟ اور فرض کریں سنجیدہ سوال کرنے کی بجائے اگر کوئی شخص بد تہذیبی اوراہانت پر اتر آۓ تو وہ بذاتِ خود اخلاقی جرم کا مرتکب ہو گا اور قانون کے تحت سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ آپ دنیا کو کس طرح اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور خدا کی عنائیت شدہ سہولیات کو کیسے مثبت انداز سے استعمال میں لاتے ہیں. لیکن آپ کا تو لگتا ہے کہ باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آخر یہ سب پاکستان میں ہی کیوں ہوتا ہے؟
میں: جی خوب تبصرہ فرمایا آپ نے، بلا شبہ میڈیا ایک ایسا نسخہ کیمیا تھا جس کی بدولت پوری دنیا پر حکمرانی کی جا سکتی تھی. لیکن افسوس کہ ہمارے نالائق حکمران اور کم ظرف علماء ایک دوسرے سے ہی نبرد آزما رہے. وہ کسی ٹیکنالوجی کو مثبت پیرائے میں کیا بروئے کار لاتے الٹا اپنے ہی لوگوں کو گمراہ اور دین سے بد ظن کرتے رہے۔
در اصل پاکستان معرض وجود میں آتے ہی جاگیرداروں، وڈیروں، آمروں اور سرمایہ داروں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ جو کسر باقی تھی وہ ملاؤں نے پوری کر دی۔ ملاؤں نے مذہب کو بڑے بھیانک طریقے سے استعمال کیا۔ لوگوں کے دماغوں پر نفسیاتی غلبہ کر کے ان کو جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں اتار دیا. رب کی عظیم راہنما کتاب کو ثواب کے حصول تک محدود کر دیا. ان دیکھی سازشوں کا پرچار کر کے جذباتیت بیچی گئی۔ بجائے یہ کہ ہرسمت امن و آشتی کا پیغام پہنچایا جاتا الٹا آپس میں ہی دست و گریباں رہے اور مستزاد یہ کہ باقی دنیا کو بھی اپنے مخالف کر لیا۔
آپ نے جو دودھ والی مثال دی اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہمارے لوگ ذہنی طور پر اتنے پست ہو چکے ہیں کہ ایک انتہائی سادہ اور کھری بات سمجھانے کے لئے بھی انہیں کسی اعلیٰ درجے کے دانشور کی حاجت محسوس ہوتی ہے. یعنی جب کسی کو سوچنے کا ڈھنگ ہی نہ آتا ہو تو وہ کیا کرے ؟
آج میرے وطن کا انگ انگ شکستہ ہے۔ اس کی حیات بخش چھاتیوں کے سوتے سوکھ گئے ہیں۔ بے عقلی اور اندھی تقلید بامِ عروج پر ہے۔ مناظروں اور مباہلوں کا بازار سجاۓ مذہب کا عفریت پھن پھیلائے تہذیب کی رگوں میں زہر سرایت کر رہا ہے۔ ہر موڑ پہ ایسی مساجد اور درس گاہیں ہیں جہاں فقط نفرتوں کی فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ مذہبی پیشوا حکمت و دانائی سے نابلد منہ زور گھوڑے کی مانند ہنہنا رہے ہیں۔ فرزندانِ وطن کے ذہنوں میں زہر بھر کے انہی کے ہاتھوں اپنے ہی ہم وطنوں کے لیے موت کے پروانے بانٹتے پھرتے ہیں۔ جب بھی ہم اپنی سر سبز دھرتی پر سرخ خون بہتا دیکھتے ہیں تو ہماری انگلیاں بے ساختہ سرحد پار دشمنوں کی جانب اٹھ جاتی ہیں، یہ غور و فکر کیے بغیر کہ قاتل تو ہماری ہی آستینوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ مگرہم تو ٹھہرے خوگرِ مسلک، اپنی صفوں میں موجود چھپے دشمنوں کو پہچاننے کی بجائے قدیم عراقیوں کی طرح بحث و تکرار میں جُت جاتے ہیں۔ یہ حقیقت طشت از بام ہے کہ کئی مساجدِ ضرار ہمارے مدینے کے قلب میں واقع ہیں مگر ہمارا ردِ عمل اندھی سازشوں کو ڈھونڈنے لگتا ہے-
ہمارے دینی ادارے اتحاد و یگانگت کے داعی پیدا کرنے کی بجائے فرقوں کے علمبردار پیدا کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ اپنی اپنی مروجہ تعلیمات کی بنیاد پرجتھے بناتا ہوا تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے۔ سماعتیں مغلظات سن سن کر تھک چکی ہیں مگر افسوس کہ کوئی چارہ گر نہیں ملتا ۔ ہائے ! کیا کریں ہم ۔۔۔۔ کس سے کہیں ہم ؟؟
مارک: اوئے کون لوگ او تسی؟؟
جناب ہم پھٹیچر ہیں !!
میں نے کرب سے جواب دیا
اس سے پہلے کہ مارک کچھ کہتا، مفتی صاحب کے ایک جانثار نے ننگی تلوار ہوا میں لہرائی اور ایک دلخراش نعرا مارتے ہوئے ہماری جانب دوڑ پڑا
(جاری ہے)

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply