سیلوٹ حاضر ہے

سہیل زندانی پاکستان کے معروف موٹیویشنل سپیکر ہیں۔ ذہین اور حاضر جواب۔ بجا طور پر معروف ہیں۔ ایک بار بتانے لگے کہ ہوائی جہاز کا سفر زیادہ تر سو کر گذارنا پسند کرتے ہیں۔سیٹ پر بیٹھتے ہی نیم دراز ہو کر، آنکھوں پر خوابی غلاف چڑھا لیتے ہیں۔ ایک بار اسی روٹین کو دہرا نے کے بعد ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ شانے پر ایک بھاری بھرکم ہاتھ نے شائستگی سے چھو کر، بغل کی سیٹ کا رستہ دینے کی درخواست کی۔
کپڑے کی اندھیری عینک اتار کر دیکھا تو سامنے جہانگیر خان کھڑے تھے! دنیا کے all time بہترین ایتھلیٹ۔ فلمی کہانیوں جیسا دیومالائی کردار! سہیل ایک سکول کے طالبعلم جیسی excitement سے بتاتے ہیں کہ کیسے تمام سفر جہانگیر خان سے باتیں کر کے گزرا۔ ہم جب بھی سہیل صاحب سے ملیں، یہ قصہ سنتے ہیں کہ کیسے کم گو، کم آمیز لیکن حلیم طبیعت جہانگیر خان نے سہیل کی زیادہ تر باتوں کا جواب سہیل کے گھٹنے کو مخاطب کر کے دیا۔ سہیل سکوائش نہیں کھیلتے اور اس کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ جہانگیر خان بھی کب کے ریٹائر ہو چکے۔ لیکن یقیناً سہیل کی جگہ آپ یا میں ہوں تو ہم بھی جہانگیر خان سے مل کر اچھا محسوس کریں اور انکی عزت افزائی کو اپنا فخر سمجھیں۔
ایسے ہیروز میں کوئی بات تو ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھیں۔ یہ آپ کو motivate کرتے ہیں۔Motivation عجیب چیز ہے۔ ان لوگوں سے مل کر خون بڑھ جاتا ہے، چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے اور آپ ان سے فیض حاصل کرتے ہیں۔اگر آپ کبھی ایدھی صاحب سے ملیں ہیں تو یقینا ًمیری بات سمجھ چکے ہوں گے۔ مشتاق احمد یوسفی نے فرمایا کچھ لو گ ایسے گلے لگاتے ہیں کہ اس کے بعد آپ وہ نہیں رہتے جو آپ پہلے تھے۔ ایدھی صاحب کا تو مصافحہ ہی کرشماتی تھا۔
امید ہے آپ کو ان تمام معصوم اور بے ضرر سی باتوں میں کوئی انہونی یا عجیب بات دکھائی نہ دی ہو۔ شاید عجیب باتیں کچھ اور قسم کی ہوتیں ہیں۔مثلاً آزادی سے قبل، ایک مسجد میں ہند وستان کا وائسرائے جوتے سمیت ٹہلتا ہوا آنکلتا ہے۔ حاضرین میں سے کسی کی جرات نہیں کہ ٹوک سکے۔ ایسے میں ایک پہرے دار یہ فریضہ انجام دیتا ہے اور مولوی عبدالحق کے ’چند ہم عصر‘ میں ہمیشگی پاتا ہے۔ مرعوب نہ ہونابہت کٹھن کام ہے۔ پطرس بخاری کایہ قصہ کہ آ پ اپنے دفتر میں مصروف ہیں کہ ایک ملاقاتی آجاتا ہے۔ آپ کرسی پر تشریف رکھنے کی درخواست کر کے کام نمٹانے میں لگ جاتے ہیں۔ ملاقاتی پروٹوکول کی غیر موجودگی پربرہم ہوتا ہے۔ مزید تعارف کرواتاہے کہ وہ ممبر قومی اسمبلی ہے تو اپنے اعصاب پر قادر پطرس جواب دیتے ہیں کہ اچھا! تو پھر آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیں!
کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
فارسی کی مثل بتاتی ہے کہ کچھ ایسا کرو کہ جہاں میں قابلِ عزت جانے جاؤ۔ ہمارے جہانگیر خان ہمارے تمغے ہیں۔ ایدھی ہمارا اجتماعی ضمیر ہیں۔ یوسفی صاحب یہ ثبوت ہیں کہ یہاں صرف بالشتیے نہیں رہتے۔ ہمارے سیلوٹ حاضر، لیکن پہلے کچھ کریں تو سہی۔ اپنا تعارف تو کروائیں۔ یا محض اتناکافی ہے کہ ’میں نے آپ کو ٹی۔وی پر دیکھا ہے‘۔

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply