کشمیر: تحقیقاتی کمیشنوں و کمیٹیوں کا انجام(2)۔۔افتخار گیلانی

وہ 2013میں ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور فوراً ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوکر قومی سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی سے متعلق پہلی رٹ پٹیشن انہوں نے ہی کورٹ میں دائر کی تھی۔ جسٹس پانڈین کمیشن کی تقرری ہی چھٹی سنگھ پورہ اور اسکے بعد رونما پذیر واقعات کی تفتیش کیلئے کی گئی تھی۔ چارچ سنبھالنے کے بعد جب جج صاحب نے ان علاقوں کا دورہ مکمل کیا، توحیرت انگیز طور پر ان کو بتایا گیا کہ اپنی تحقیق و تفتیش صرف براک پورہ میں ہجوم پر ہوئی فائرنگ تک ہی محدود رکھیں۔

اکتوبر 2000میں وہ نئی دہلی کے کشمیر ہاوس میں اپنی رپورٹ مکمل کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک دن میں ان سے ملنے پہنچا ، تو ایک ہی کمرے میں ایک طرف ان کے اہل خانہ مقیم تھے اور دوسرے کونے میں وہ اسٹینو اور سیکرٹری کو رپورٹ ڈکٹیٹ کر رہے تھے۔ وہ اب بھی مصر تھے کہ چونکہ چھٹی سنگھ پورہ ، پتھری بل اور براک پورہ کے واقعات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، اس لئے انکو سکھوں کے قتل عام کی تفتیش کی بھی اجازت دی جائے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید کوئی کڑی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔

اکتوبر کے اواخر میں جب انہوں نے سرینگر میں وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو رپورٹ پیش کی، تو اسوقت بھی انہوں نے چھٹی سنگھ پورہ کے واقعے  کی تحقیق کی اجازت طلب کی۔ کابینہ کی میٹنگ میں پانڈین کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کے بعد پریس کانفرنس میں فاروق عبداللہ نے ا علان کیا کہ جوڈیشل کمیشن سکھوں کے قتل عام کی بھی تحقیقات کرے گا اور کابینہ نے اس سفارش کو منظوری دی ہے۔ خیر رپورٹ پیش کرنے کے بعد جسٹس پانڈین واپس دہلی آکر نئے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے، کہ میں ان سے ملنے کیلئے کشمیر ہاؤس پہنچا۔ دیکھا کہ جسٹس صاحب اور انکی فیملی مہاجروں کی طرح ریسپشن کے پاس کھڑے ہیں۔ لابی میں ان کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ ان کا سیکرٹری کشمیر ہاؤس کے ذمہ داروں کو قائل کروانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کمیشن کو اگر توسیع نہیں ملتی ہے تو بھی یہ ابھی تحلیل نہیں ہوا ہے، اور کئی انتظامی امور کے مرحلے ابھی باقی ہیں۔

آخر وہ کیسے سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس جس کی خدمات ریاستی حکومت نے مستعار لی ہیں، کمرے سے اس طرح بے دخل کرسکتے ہیں۔ مگر افسران کا کہنا تھا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ جسٹس صاحب سے کمرہ خالی کروانا ہے اور کسی وزیر کو اس میں قیام کرنا ہے۔ بعد میں قریب میں ہی تامل ناڈو ہاؤس نے جسٹس پانڈین اور ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا اور اسکے چند روز بعد وہ مدراس (چنئی) روانہ ہوگئے۔ روانہ ہونے سے قبل انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ چھٹی سنگھ پورہ اور بعد میں جولائی2000 میں پہلگام میں ہندو یاتریوں کے قتل عام کی تحقیقات کرنے والی لیفٹیننٹ جنرل جے آر مکرجی کمیٹی کی رپورٹ کے مندرجات اور ان کی سفارشوں پر کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ کور کماندڑ جنرل مکرجی کی رپورٹ نے پہلگام میں ہندو زائرین کی ہلاکتوں کیلئے نیم فوجی تنظیم سی آر پی ایف اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

حیران کن بات یہ تھی، کہ آخر حکومت ان سانحوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی؟کس کو بچایا جا رہا تھا؟ پچھلے 30برسوں میں کشمیر میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے، جو عسکریت پسندوں کے کھاتے میں ڈالے گئے، مگر بعد میں معلوم ہواکہ یا تو ان میں بھارتی سکیورٹی اداروں کے اہلکار براہ راست ملوث تھے یا جانکاری ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ان واقعات کو طول دیکرپروپیگنڈہ کیلئے بخوبی استعمال کیا۔ اپنی معرکتہ الآرا تفتیشی کتاب The Meadowsمیں برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے بتایا ہے کہ 1995میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی، کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو بھارتی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔ مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھنچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گے، پاکستانی مندوبین کیلئے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائیگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے بھارت پر اقتصادی پابندیا ں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ واقعی کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔ اسی طرح جب معروف قانون دان اور حقوق انسانی کے کارکن جلیل اندارابی کے قتل میں ملوث میجر اوتار سنگھ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے عدلیہ نے سکیورٹی ایجنسیوں پر دباؤ  ڈالا تو مذکورہ میجر کو راتوں رات پاسپورٹ اور ٹکٹ دیکر کینیڈاپہنچایا گیا ۔ بعد میں وہ وہاں سے امریکہ منتقل ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ 2012 میں وہ خود ہی مکافات عمل کا شکار ہوگیا۔جب امریکہ میں اسکی موجودگی کا پتہ چلا تو اس نے دھمکی دی کہ اگر اسکوبھارت ڈیپورٹ کیا گیا تو وہ کئی راز طشت از بام کریگا، جس کی لپیٹ میں سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ ذمہ داران آئیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ فروری 1996رمضان کا مہینہ تھا۔ دہلی میں ایک سفارت کار کے یہاں میں ایک افطار پارٹی میں مدعو تھا ۔ وہاں اندرابی صاحب سے ملاقات ہوئی۔سکیورٹی فورسز کے خلاف کئی کیسوں کی پیروی کرنے کی وجہ سے و ہ خاصا نام کما چکے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کو کشمیر میں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply