سینکڑوں ہزاروں سال تک انسان فکرِ خوراک کی خاطر برج باشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور رہا لیکن زراعت کے انقلاب نے اسے زمین کے ساتھ نتھی کیا اور اس نے دریائی وادیوں میں کم و بیش دو سو افراد پر مشتمل چھوٹی چھوٹی بستیاں بسائیں جو آگے چل کر قبائل اور پھر شہروں کا روپ اختیار کر گئیں۔ خانہ بدوشی سے شروع ہونے والا ارتقاء کثیرالجہتی معاشرے میں تبدیل ہو گیا جس نے نئے اور قدرِ پیچیدہ طرزِ زندگی کو جنم دیا جسے ہم آج تہذیب کہتے ہیں اور یہ ہماری زندگی کی ناقابل تقسیم اکائی ہے۔
تہذیب وسیع مفہوم والی اصطلاح ہے، یہ کسی بھی معاشرے کے رہن سہن، رسم و رواج، آلات و اوزار، عقائد، فنون لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، سیاسی تنظیم اور اخلاقی روایات جیسے مظاہر کا مجموعہ ہے اور یہی عناصر مل کر کسی بھی نئی تہذیب کو متشکل کرتے ہیں۔ آج کی زیر بحث کتاب ایسی شخصیات کے متعلق ہےجنہوں نے اپنےمعاشرے میں فکری ارتعاش پیدا کر کے انہیں متحرک کیا اور اپنی تہذیب کی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس فہرست میں ایک عظیم قانون ساز ہے، تو ایک عظیم منصف بھی، اگر سچائی کا متلاشی فلسفی ہے تو وحشیوں کو مہذب بنانے والا استاد بھی، ایک عظیم جنگجو اور فاتح سپاہ سالار ہے، تو امن و امان قائم کرنے والا حکمران بھی، آفاقی احکامات کا درس دینے والا ہے تو شعور کے در کھولتا سائنسدان بھی، زندگی کی تلخیوں اور المیوں کو کینوس پر منعکس کرتا مصور ہےتو انہی المیوں کو الفاظ کی زبان عطا کرنے والا شاعر بھی۔
الغرض یہ کتاب انسانی تاریخ کا نچوڑ ہے جسے ول ڈیورانٹ جیسے عظیم فلسفی اور مؤرخ نے ” دی سٹوری آف سویلائزیش ” کے عنوان سے شائع کیا۔ جو گیارہ جلدوں اور 14 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈیورانٹ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس ضخیم مجموعے میں سے چند نمایاں اور عہد ساز شخصیات کی سوانح حیات پر مشتمل ایک کتاب لکھنے کا آغاز کیا لیکن وقت نے اسے مہلت نہ دی اور وہ بیماری کے باعث انتقال کر گیا۔ ول ڈیورانٹ کے اس ادھورے کام کو اگر کوئی پورا کر سکتا تھا تو وہ اس کی اہلیہ اور معاون مصنفہ ایرئیل تھی، لیکن جب ایرئیل کو ڈیورانٹ کے انتقال کی خبر موصول ہوئی تو وہ جدائی کے غم سے نڈھال ہو گئی اور ڈیورانٹ کی وفات کے چند دن بعد ہی انتقال کر گئی۔
سالوں تک ول ڈیورانٹ کا یہ ادھورا کام کسی مردِ حُر کا منتظر رہا لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہ دی کیونکہ یہ نہایت محنت طلب کام تھا۔ گیارہ جلدوں کا مطالعہ کرنا اور پھر ان شخصیات کا انتخاب کرنا جو سب سے نمایاں اور عہد ساز ہوں نہایت مشکل کام تھا لیکن یاسر جواد جیسے عظیم اور مستند مترجم نے اس کام کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یاسر صاحب نے گیارہ جلدوں پر مشتمل ” سٹوری آف سویلائزیشن” کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اس کو سمجھا اور پھر عرق ریزی سے اس کا ترجمہ و تلخیص کر کے قارئین کے سامنے پیش کیا۔ اس سے قبل بھی کہا ہے کہ یاسر جواد کی خاصیت ہے کہ وہ اصل متن کو حذف یا ترمیم و اضافہ کیے بنا مکمل ایمانداری سے کسی بھی کتاب کا ترجمہ کرتے ہیں گو کہ اس خاصیت کے باعث بسا اوقات پڑھتے ہوئے مشکل ہوتی ہے لیکن اطمینان بھی ہوتا ہے کہ جو کتاب زیر مطالعہ ہے وہ مصنف کا انداز اور تحریر ہے نہ کہ مترجم کی اور یہی خوبی آپ کو اس کتاب کے مطالعہ میں دکھائی دے گی۔
یاسر صاحب نے اس کتاب میں شخصیات کی فہرست کو ان کے سن پیدائش کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے جبکہ ول ڈیورانٹ نےاسے مختلف ادوار میں تقسیم کیا تھا۔ کتاب کے اختتام پر اس کی اصل فہرست اور چند اصلاحات کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ اس کی اشاعت بک کارنر جہلم نے کی ہے۔ کتاب کی زیبائش اور سر ورق اس قدر عمدہ ہے کہ کتاب کو دیکھ کر ہی انسان اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس خوبصورت اشاعت پر بک کارنر جہلم ، امر اور گگن شاہد کو ڈھیروں داد کہ قارئین کیلئے اس قدر محنت اور لگن سے کام کیا ہے۔اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں کہ یہ ایک کتاب آپ کو علم کے ایسے سمندر سے روشناس کرواتی ہے جو بے شمار کتب کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے اور اگر آپ ول ڈیورانٹ کے کام یا تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یاسر صاحب کی حالیہ کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
یاسر صاحب نے “سٹوری آف سویلائزیشن” کے پہلے حصے “آوور اورینٹل ہیریٹیج” کا ترجمہ” ہمارا مشرقی ورثہ” کے عنوان سے کیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔ یاسر صاحب داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے تن تنہا اس کام کو سر انجام دیا جو کام ایک ادارہ کرتا ہے۔ اس سے قبل یاسر صاحب لاکھوں الفاظ پر مشتمل سو سے زائد کتب کے تراجم کر چکے ہیں۔ جن میں مذاہبِ عالم کا انسائکلوپیڈیا ، انسائیکلوپیڈیا ادبیاتِ عالم،نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ کی تزئین و نظرثانی کے علاوہ سیگان، ول ڈیورانٹ، ڈی لیسی، سیمون دی بووا، پال کیرس، سٹیفن ہاکنگ، سلویا براؤن، ہیروڈوٹس سعدی شیرازی، کیرن آرمسٹرانگ اور ایڈورڈ سعید جیسے مصنفین کی تخلیقات کے تراجم شامل ہیں اور یہ اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ یاسر صاحب اپنے آپ میں ایک ادارہ ہیں جو ان گنت افراد کا کام خود ہی سر انجام دیتے ہیں، مذکورہ بالا کتاب اس کی واضح مثال ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں