اوّل تو اس نام سے ہی تنقید کے چشمے پھوٹنے کا خدشہ ہے حالانکہ ساتھی بھائیوں کا نظریاتی مخالفین کو نونی، جماعتی اور یوتھیا حتٰی کہ پپلا کہنے میں بھی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس میں ویسے برائی ہی کیا ہے؟ عوامی جماعت بننے کے لیے جہاں بہت سے قواعد و ضوابط کا اطلاق ضروری ہے وہیں عوامی زبان یا دوسرے الفاظ میں بازار کی زبان بولنا یا سہنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
اب بازار کی زبان کا ذکر کیا ہے تو بھی تنقید کے بادل منڈلاتا دیکھ رہا ہوں۔ میاں اسلم صاحب کی بات یاد آرہی ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا چرسی بھنگی حضرات کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ جمہوریت میں وہ بھی اثاثوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تہذیب اور شائستگی ایک حد تک بالکل ضروری ہے لیکن کسی چیز کی زیادتی بہت سے ناشائستہ اور بد تہذیبوں کو آپ سے دور کر دیتی ہے۔
ایک بات ہمارے ذہنوں میں پختہ رہے کہ جہاں بے انتہا شائستگی زہر ہے وہیں حدوں کو چھونے والی بد تہذیبی بھی صحت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ رہی بات مخالفین کی تو وہ گالم گلوچ پہ بھی اتر آئیں تو ہماری بلا سے۔ ان کے معاملے میں برداشت سے بھی اگلے نقش پہ قدم جمانے کی ضرورت ہے کیونکہ بقول غامدی صاحب برداشت وہ چیز کی جاتی ہے جو آپ کو بُری لگتی ہو۔ گالیاں کھا ہی رہے ہیں تو کیوں نہ ان کے ذائقے سے لطف اٹھائیں!
اصل معاملہ یہ ہے کہ انسان جس کاز، نظریے، انسان، جانور، پرندوں اور دنیا و مافیہا سے وفاداری کا حلف لے تو غلامی کی حد تک نبھانا منافقت سے افضل ہے۔ وفاداری ایک کانٹریکٹ ہے اور تب تک جچتی بھی ہے جب تک ‘سمعنا و اطعنا’ کی ٹھوس وجوہات علم میں ہیں اور کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق جناب یار غار رض کا ماننا ہے کہ جب تک وہ حق پہ ہیں تب تک ان کی اطاعت لازم ہے اور اگر وہ حق سے درگزر فرما رہے ہیں تو عوام کو بھی حق ہے کہ تحقیق کے بعد وفاداری کا کانٹریکٹ توڑ دیں۔ یہ ان کا آنے والی نسلوں کو سمجھانے کی غرض سے تھا۔
وفاداری کیا ہوتی ہے حضرت ابوبکر صدیق رض سے بہتر کون جانتا ہے؟ رسول ص کے سب سے اچھے دوست کی ان سے وفا سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک شخص دریافت کر رہا تھا کہ امیر صاحب اگر غلط راستے کی طرف دعوت دیں تو بھی ان کی اطاعت فرض ہے تو جواب ملا کہ کنویں کی طرف بلائے نہیں جانا چاہیے کیونکہ سامنے نظر آرہا ہے کہ گناہ و معصیت کی طرف دعوت ہے۔
نیم جماعتی سے مراد یہ ہے کہ یہ بہت غلط موو ہے کہ ایک انسان کسی جماعت سے وفاداری کا حلف لے لیکن سفر کرنے کے لیے دو کشتیاں ساحل پہ بلائے رکھے اور وقت و مفاد کی مناسبت سے ایک اور کبھی دوسری کشتی پہ بیٹھ جائے۔ ایک وقت میں دو کشتیوں کے مسافر کے لیے تو مذمت کا لفظ ہی چھوٹا ہے۔ اگر لگتا ہے کہ ایک جماعت اپنے کاز سے مخلص نہیں ہے تو برملا اس سے برات کا اعلان کر کے وجہ بتائے دینی چاہیے کہ آخر کیا ہوا کہ یہ قدم اٹھانا ضروری سمجھا لیکن مفادات سمیٹنے کے لیے کبھی ایک اور کبھی دوسرے جوتے کی چمک کی ذمہ داری نبھانے سے بہتر ہے اخلاص و محبت سے کاز کے لیے ایک ہی جماعت سے وابستگی ثابت کرنی چاہیے۔ نیم حکیم ہو، ملا ہو یا جماعتی ہمیشہ جان، مذہب اور جماعت کے لیے خطرہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حضرات جو بظاہر وفادار جبکہ اصلا ڈبل شاہی کے مرتکب ہیں کا قلعہ قمع کیا جائے۔ درخت کی بڑھوتری اور افزائش کے لیے اضافوں کی کٹوتیاں تاریخ سے ثابت ہیں۔ ن لیگ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے کارکنان کی آپسی محبت یا ایک دوسرے کے ساتھ اچھائی پہ تعاون ڈبل شاہی یا غداری نہیں ہے بلکہ مفادات کا کاز یا مقصد سے زیادہ عزیز ہونا غدر کے زمرے میں آتا ہے۔
ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ مرکزی قائدین بھی مفادات کو زیادہ عزیز سمجھتے ہیں۔ عوام کو رنگ، نسل، مذہب، ووٹ کی عزت، دعوت، اور زبانوں میں الجھا کر خود زندگیاں سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ عوامی جماعت بننے کے لیے عوامی رنگ، لباس، زبان، اور طور طریقوں کو لینا ضروری ہے۔ دعوت کے لیے پہلی چیز یہ ہے کہ سامنے والا خوشی سے دعوت سنے۔ اس کا قبول کرنا کسی کا درد سر نہیں ہونا چاہیے۔ وہ تب ضرور قبول کرے گا جب ہمارے رویوں میں بدلاؤ آئے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں