اسلام آباد میں دو دن ۔۔۔۔جاویدخان

اسلام آباد،آب پارہ کے سامنے ذرا سا دائیں جانب،”یاسمین اینڈ روز“گارڈن ہے۔یہ ایک وسیع اَور خوب صورت پارک ہے۔یہاں اَپریل سے یاسمین اَور گلاب کے پھول کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔اِسی پارک سے لگ کر دائیں جانب ”پاک چائنہ سنٹر“کی عمارت ہے۔ہر سال ۹۱،۰۲،۱۲ اَپریل کو پاک چائنہ سنٹر میں قومی کتاب میلہ ہوتا ہے۔نیشنل بک فاؤنڈیشن ملک کے بڑے شہروں میں کتاب میلوں کا اِنعقا دکرواتی ہے۔ملک کے تمام پبلشرز اِن میں شرکت کرتے ہیں۔۹۱،۰۲،۱۲ اَپریل کو پاک چائنہ سنٹر میں خوب رونق ہوتی ہے۔ہمارے دوست طاہر سلطان اَور میں،۰۲ اَپریل کی صبح اسلام آباد کو روانہ ہوئے۔بارہ بجے کے قریب پاک چائنہ سنٹر پہنچے تو وہ گہما گہمی نہ تھی۔جو گزشتہ سالوں میں دیکھنے کو ملتی رہی۔فکشن ہاؤس کے ڈائریکٹر جناب ظہور صاحب کاکہنا تھا کہ آج پندرہویں شعبان ہے اَور اِس رات لوگ گھروں میں رہ کرعبادت کرتے ہیں۔لِہٰذا پرانی گہماگہمی نظر نہیں آئے گی۔منتظمین کی غلطی تھی کہ انھوں نے اِس دن کا انتخاب کیا۔ایک اَور چیز جو دیکھنے میں آئی وہ اِنتظامی فقدان تھا۔پبلشر ز اَپنی بہت سی نئی اِشاعت شدہ کتابیں نمائش کے لیے نہ رکھ سکے۔ہم اِس عالی شان عمارت کے سیکنڈ فلور پر گھوم رہے تھے۔دن کا ایک بج چکا تھا لیکن بہت سا مواد پیٹیوں میں بند پڑا تھا۔طاہر سلطان کو برٹرینڈ رسل کی معروف کتاب ”تاریخ فلسفہ مغرب “کی تلاش تھی۔کافی تلاش کے بعد یہ کتاب مل سکی۔بہت سی کتابیں جن کانام ہماری فہرست میں تھا،پبلشرز کے پاس نہ تھیں۔اِس کی دو وجوہات تھیں۔ایک تو اِس دفعہ اسلام آباد کتا ب میلے کے لیے حکومت نے فنڈ جاری نہیں کیے۔چنانچہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اَپنی مدد آپ کے تحت،اِس کتاب میلے کا اِنعقاد کروایا۔بہت سی کتابیں پبلشرز اِس لیے بھی نہیں نکال پائے کہ انھیں جگہ کم دی گئی۔علاوہ وہ بینچ جن پر کتابیں سجائی جاتی ہیں،دستیاب نہ تھے۔دوسری وجہ کاغذ کامہنگا ہوجانا ہے۔جو کاغذ پہلے آٹھ یا دس ہزار میں آتا تھااَب وہ بیس ہزار سے پچیس ہزار تک چلا گیا ہے۔مجھے اِبن بطوطہ کا سفرنامہ ملا،مگر اِس میں ترجمہ کرتے وقت کافی مواد حذف کرلیا گیاہے۔انٹرنیٹ سے ڈان لوڈ کیے ہوئے سفرنامے اَور اِس میں کافی فرق ہے۔کتابیں کافی تھیں،لِہٰذا ہم نے اِنھیں ظہور صاحب کے پاس رکھا اَور بری امام کو نکل گئے۔جب بری امام پہنچے تو اَذان مغرب ہورہی تھی۔میں تقریباًسترہ سال بعد یہاں آیا تھا۔دکانیں ویسی ہی تھیں۔کباب،شیرینی،خوشبوئیں،سگریٹ،پھولوں کے ہار،مٹھائیاں اَور پکی ہوئی دیگیں۔مگر اَندرون مزار پہلے سے مکمل بدل گیا ہے۔پہلے مزار سڑک سے اَندر نشیب میں، ایک درخت تلے واقع تھا۔امام بری کا یہ پرانا مقبرہ اَورنگزیب عالمگیر نے بنوایا تھا۔اِس کے دائیں کافی دُور پرانا قبرستان تھا۔ایک چار دیواری کے اَندر وسیع رقبہ خالی پڑا ہوتا تھا۔مگر اَب مرکزی دروازے سے اَندر داخل ہوتے ہی تاکیدی بورڈ سے آگے،سنگ مرمر کااَحاطہ شروع ہو جاتا ہے۔ قدیم گنبد گرا کر ایک بلند اَور عالی شان گنبد اُس کی جگہ تعمیر کیا گیا ہے۔مزار کا تعویذ بھی پہلے کے مقابلے میں بلند ہے اَور شیشے کی گول دیوار میں بند ہے۔صرف ایک مجاور اَندر ہے جو چادریں اَور پھول رکھتا اَور تبدیل کرتاہے۔شب برات کو مزار پر خاصی رونق تھی۔ایک طرف مسجد نما اَحاطے میں لوگ نوافل اَداکررہے تھے۔خواتین پردوں کے پیچھے قرب مزار میں بیٹھی تھیں۔زائرین آجا رہے تھے اَور دعائیں مانگ رہے تھے۔مزار کے بیرونی اَحاطے میں لنگر خانے سے لنگر تقسیم ہو رہا تھا۔ہم کافی دیر قرب مزار بیٹھے رہے۔سفید روشنیوں میں جگ مگ کرتے اِس روحانی ماحول میں رہنے کے بعد،واپس رہائش گاہ کی طرف چل دئیے۔اَگلی صبح اَتوار تھا۔ہم سویرے  جاگے ،مگر شہر اَبھی سویا ہوا تھا۔رات بھر کے شب بیدار اَور کام کرنے والے اَبھی تک سوئے ہوئے تھے۔ایک پُرتکلف ناشتا آ ب پارہ میں،ایک چائے خانے پر کیااَور یاسمین گارڈن میں داخل ہوگئے۔ پھولوں میں تازگی تھی۔گلابوں کی کیاریوں سے مہک آرہی تھی۔اِس کے علاوہ جنگلی پھولوں کی باس تھی۔ یہاں کا ماحول قدرتی ہے۔درختوں سے پرندے چہک رہے تھے۔لوکاٹ پکے ہوئے تھے۔یہ رسیلے َاور میٹھے تھے۔ہم اِنھیں درختوں سے چن چن کر کھاتے رہے۔ایک موٹر سائیکل والے سے راول جھیل کاپتا پوچھا تو اس نے کہا وہ اُدھر ہی جارہا ہے۔پاک چائنہ سنٹر میں اَبھی خاموشی تھی سو اُدھر چل دئیے۔راول جھیل کے گرد بھی وہی سناٹا تھا۔یہاں لوکاٹ تو نہیں اَلبتہ مرکزی رستے کے اِردگرد جنگلی بیر اَور شہتوت پکے ہوئے تھے۔پیلے پیلے بیر اَور کالے کالے رس دار شہتوت کھاتے رہے۔دن بارہ بجے گاڑی میں بیٹھے،رہا ئش گاہ سے کتابیں اُٹھائیں اَور راولاکوٹ کی گاڑی میں سوار ہو گئے۔اسلام آباد گرم تھا راولاکوٹ خنک۔ہاں یہاں شہتوت اَب پکنے والے ہیں۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply