ہم بحیثیت مسلمان تعلیمات دین کو بھول چکے ہیں، کیا آج کے مسلمان کو دیکھ کر کوئی کافر مسلمان ہونا پسند کرے گا؟ ہمارے دلوں میں عقیدت بھی ہے، محبت بھی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ابھی تک بے شعور ہیں۔ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ اسلام نے ہمیں کیا کچھ کرنے اور کیا کچھ ترک کرنے کا درس دیا ہے۔ ہم اسلام کو حقیقی معنوں میں adopt کرنے کی بجائے رسم و رواج اپنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کوئی بھی تہوار ہو ہم اس کی نوعیت کو سمجھنے کی بجائے اس میں خرافات کو شامل کرنا اپنا فرض اولِ سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ کسی تہوار کو مناتے وقت سڑکوں پر نکل آؤ اور عام آدمی کا جینا محال کردو۔ ہمیں کہیں بھی یہ سبق نہیں ملتا کہ اگر قاضی کوئی فیصلہ کرے جو آپ کی طبیعت پر گراں گزرے تو ہتھیار اٹھا لو۔ اور واللہ اس رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی کہیں نہیں ملتا کہ جلاؤ گھراؤ کرو، مریضوں کا رستہ روک لو، بسیں جلاؤ اور لبیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے غریبوں کی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرتے جاؤ۔
یقین مانو دین اسلام امن کا درس دیتا ہے، محبت کا درس دیتا ہے اور اپنے پیروکاروں کیلئے سب سے زیادہ زور حقوق العباد پورا کرنے پر دیتا ہے۔ اگر آپ نے تہوار منانے بھی ہیں تو ان کے منانے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ مسجد میں بیٹھ جائیں ذکر و اذکار کریں، نعتیں پڑھیں، غم منائیں سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن برائے مہربانی مسجد میں بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ سپیکر کی آواز ذرا دھیمی ہو، پاس والے گھر میں کوئی بیمار بھی ہو سکتا ہے، دن بھرا کا تھکا ہارا مزدور بھی ہو سکتا ہے، جو ہو سکتا آپ کی وجہ سے کل کام پر نہ جا سکے اور اس کے بچوں کو بھوک پیاس برداشت کرنی پڑے۔
اپنے اندر ڈسپلن لے کر آئیں ایک امت بنیں ہجوم بن کر دین کیلئے بدنامی کا باعث نہ بنیں آپ کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے آج اس دور جدید میں داڑھی والے شخص کو دیکھ کر لوگ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں