حافظ صفوان کے ساتھ گزرے لمحات کی روداد۔۔۔۔عمیر ارشد بٹ

“حافظ صفوان”  پچاس سالہ نوجوان کے نام سے سوشل میڈیا پر  معروف ہیں۔ یہ جب بات کرتے ہیں تو عمر کے ہر مرحلے میں موجود ان کی بات سمجھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ بالکل میری عمر کے حصے میں ہے۔ یہ احساس صرف ان کی تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ک گزارے گئے وقت میں بھی با ر بار ہوتا  ہے ۔ میرا ان سے تعارف فیسبک جیسے مبارک واسطے سے ہوا۔ میں نے اس ہوشربا شخصیت کی تحریروں پر تب غور کرنا شروع کیا جب انعام رانا صاحب مکالمہ کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اگر ان کی سوچ، نظریے اور شخصیت پر بات کی جاۓ تو تحریر بہت پھیل جاۓ گی۔ میں یہاں صرف ان سے ملاقات کی مختصر تفصیل پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔
حافظ صفوان صاحب اس جمعہ کو آفس میں تھے۔ ان سے لاہور میں نکاح پڑھانے کی درخواست کی جاتی ہے، آپ  آفس سے ہی گھر کے بجاۓ لاہور کی راہ لیتے ہیں۔ نکاح پڑھاکر رات لاہور میں ہی قیام کیا۔ ہفتہ کی صبح ہماری ملاقات فیصل آباد میں ادبی میلہ “ٖفیصل آباد لٹریری فیسٹیول” میں ہوتی ہے۔ یہ ہماری بالمشافہ پہلی ملاقات تھی۔ مختصر تعارف کے بعد ہی حافظ صاحب نے ہمیں اپنے تجربات کی روشنی میں نصیحتیں کیں۔ اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں زندگی کے اس حصے میں کچھ کرکے  دکھانا چاہیے، اور سب سے زیادہ توجہ اپنے اوپر دینی چاہیے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ اپنے عمل کو دعوت کا مرکز بنانا چاہیے، آپ جس میدان میں بھی جائیں اس میدان میں موجود ہر شخص آپ کی دعوت کا مرکز ہو اور آپ کی دعوت سے اثر قبول کرے۔(ہم نے حافظ صاحب کو بالکل ایسا ہی پایا)۔آپ علما کے خود ساختہ پیدا کیے ہوۓ معیارات کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ اپنی راۓ کو دوسروں تک محبت کے ذریعے پہنچائیں نہ کہ نفرت کی دلدل میں کھڑے ہو کر۔ انھوں نے اپنی زندگی سے ایک مثال بھی بتائی۔ ابھی حال میں ہی تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب صاحب کی وفات ہوئی تواہلِ تشیع کے ایک قومی ادارے کے سربراہ نے حافظ صاحب سے فون پر تعزیت کی اور ان کے ہمراہ جنازے میں شرکت کی۔ ان دونوں نے ایک امام کے پیچھے اپنے اپنے فقہ کے مطابق نمازِجنازہ ادا فرمائی۔ اگر حافظ صاحب کی جگہ کوئی روایتی علمی شخصیت ہوتی تو ایسے دو مسلمانوں کا اجتماعی عمل کرنا ممکن نہ ہوتا(آپ نے اس عمل کا سہرا تبلیغی جماعت کے نام کیا) ۔ لیکن ایسا حافظ صاحب کے کردار اور عمل کی وجہ سے ہوا۔ آج امت کو اس فکر کی اشد ضرورت ہے۔
اقلیتوں کے تحفظ پر بات ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ان کے ساتھ رویے پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ حافظ صاحب کا کہنا عین اسلام اور عقل کے مطابق تھا۔ انھوں نے کہا کہ  اگر ہم اپنے روایتی علما کے کہنے پر اقلیتوں سے میل جول ختم کر دیں گے تو دعوت کی عظیم ذمہ داری کو کیسے انجام دیں گے؟ ہمیں ان کے ساتھ صرف ملنے کی تک ہی محدود نہیں رہنا بلکہ ان کے ساتھ کھانے کی میزوں تک بیٹھنا ہے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کو استوار کرنا ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ایک اچھے داعی کی ذمہ داری ادا کر سکیں گے۔ قرآن میں دعوت کے غیر مسلموں تک پہنچانے کی ذمہ داری ان سے میل جول کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی۔

“مکالمہ” پراجیکٹ پر بات کرتے ہوۓ معلوم پڑا کہ انعام رانا صاحب صرف اس کے بانی ہی نہیں بلکہ اپنی تمام تر صلاحتیں اس کے نام قربان چکے ہیں۔ صرف قربان ہی نہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں بھی بہت کچھ سوچ چکے ہیں۔ جب انعام رانا صاحب پاکستان آئیں گے تو کچھ اور معاملات کو طے کیا جاۓ گا۔ انعام رانا(چیف ایڈیٹر)، حافظ صفوان(ایڈیٹر) اور رانا اظہر کمال(ایڈیٹر) مکالمہ کی بنیاد یعنی فاؤنڈیشن ممبر ہیں اور اب ان ایڈیٹرز میں احمد رضوان، معاذ بن محمود اور مریم مجید ڈار جیسے فعال تر لوگ بھی شامل ہیں۔ بنیادی طور پر انعام رانا ہی تمام اخراجات کر رہے ہیں۔ آپ نے اس سارے عمل میں رانا انعام صاحب کی خدمات کو بہت فراخ دلی سے سراہا اور امید ظاہر کی کہ عنقریب پاکستان میں ایک قومی سطح کی کانفرنس کی جاۓ گی۔ اس کے بعد حافظ صاحب کو کسی ضروری کام کے سلسلے میں میں جانا تھا۔ پھر ہم ڈاکٹر شیبا عالم،وسعت اللہ خان اور نور الحسن سے ملے اور    فوٹو سیشن بھی کیا۔پھر ہم آپ کو گاڑی تک چھوڑنے آۓ اور ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمیں وقت دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر حافظ صفوان صاحب کی شخصیت  کو ایک فقرے میں سمونا پڑے تو میں کہوں گا کہ “آپ علم کا سمندر ہونے کے علاوہ اپنے اندر ایک بے باک اور مردِقلندر کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔”

Facebook Comments

عمیر ارشد بٹ
مرد قلندر،حق کا متلاشی، علاوہ ازیں سچ سوچنے اور بولنے کا عادی ہوں۔ حق بات کہتے ہوۓ ڈرنے کا قائل نہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حافظ صفوان کے ساتھ گزرے لمحات کی روداد۔۔۔۔عمیر ارشد بٹ

  1. یہ وہی شخص ہے جو پینٹ کوٹ کو غیر مسلموں کا لباس اور سر سے ٹوپی اُتارنے کو گناہ کہتا رہا ہے۔۔۔ اب کس قدر ڈھیٹائی سے ننگے سر پینٹ کوٹ پہن مسکرا رہا ہے۔۔۔۔ نمود کا انتہائی دلدادہ اور شہرت کا بھوکا۔۔۔ اس کی پی ایچ ڈی بھی فراڈ ہے۔۔۔ قرآن پر حلف دے کہ اس نے باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ہے تو میں اس کے قدموں میں بیٹھ جاؤں گا۔۔۔ مکار اور فراڈیا شخص

Leave a Reply