بحیثیت وکیل مجھ سے عموماً لوگ مختلف نوعیت کے سوالات کرتےہیں۔
ایک سوال جو مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے:
کیا میں اپنے باپ کی زندگی میں انکی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگ سکتا ہوں؟
کیا میں اپنی ماں کی زندگی میں انکی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگ سکتا ہوں؟
کیا میں اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو وراثت منتقل کر سکتا ہوں؟
جواب: ایک بات سمجھ لیجیے کہ وراثت کا عمل شروع ہی صاحب جائیداد کے انتقال کے بعد ہوتا ہے۔ صاحب جائیداد کی زندگی میں وراثت کی منتقلی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وراثت ہمیشہ صاحب جائیداد کے انتقال کے بعد ہی ہوتی ہے جس کیلئے واضح قوانین اور وارثان کے حصے متعین کر دئیے گئے ہیں۔ زمین جائیداد کی وراثت کے انتقال کیلئے متوفی(صاحب جائیداد) کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور ضروری دستاویزات کیساتھ وارثان کی طرف سے محکمہ مال میں ایک درخواست گزاری جاتی ہے۔ انتقال کی معمولی سی فیس جمع کروانے کے بعد ایک پورے ضابطہ سے فائل گزاری جاتی ہے۔
پروسیجر مکمل ہونے کے بعد تمام شرعی وارثان کے حصے نکالے جاتے ہیں اور تمام شرعی وارثان کو بقدر حصہ تقسیم کر دئیے جاتے ہیں اور انتقال پاس ہو جاتا ہے۔ البتہ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے جس کو چاہے جس قدر چاہے اپنی ملکیتی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد قانونی طریقے سے بیع و ہبہ وغیرہ کر سکتا ہے جس سے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ لیکن اسے وراثت قطعاً نہیں کہا جائے گا۔
رزق دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میں ایک بہت تلخ اور مخلصانہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ پلیز اولاد کے درمیان انصاف کریں اور مساوات کا معاملہ کیجیے ۔ اپنے پیشہ ورانہ تجربات کو سامنے رکھ کر میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اولاد کے درمیان جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ والدین کی طرف سے جائیداد میں کی گئی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اگر آج صرف والدین اولاد کے درمیان انصاف کرنا شروع کر دیں تو عدالتوں میں آدھے سے زیادہ کیسز ویسے ہی ختم ہو جائیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں جائیداد اپنے رشتہ داروں کے نام لگوانا ہی چاہتے ہیں تو انصاف اور مساوات کا معاملہ کیجیے۔ بیٹیوں کو جب انکے شرعی حصے سے محروم کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے وہ اپنا حصہ لینے کیلئے عدالت کی طرف رجوع کریں گی۔ جب آپ وقتی جذبات میں آکر اپنی زندگی میں ایک بچے کے نام جائیداد کا بڑ ا حصہ یا تمام جائیداد لگا دیں گے تو لامحالہ دوسرے وارثان کو تکلیف تو بہت ہو گی۔ خاندان میں لڑائیاں جھگڑے بڑھیں گے، رشتہ دار آپس میں دست و گریبان ہوں گے اور قتل و غارت گری ہو گی جس سے عدالتی کیسز کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ عدم مساوات اور ناانصافی کرنے والے والدین اولاد میں منافرت، قتنہ فساد کا بیج بوتے ہیں۔ ایسے والدین کو میں نے اکثر عدالت کچہری میں خوار ہوتے دیکھا ہے۔ میں مکرر عرض کروں گا کہ اس سے پہلے کہ آپ اپنے گناہوں، غلطیوں اور ناانصافیوں کا ملبہ وکیل پر ڈالیں پلیز اولاد کے درمیان انصاف اور مساوات کا معاملہ کیجیے ، تاکہ بعدازاں وکیل کے دفتر اور عدالت کچہری جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ پیسے کی ہوس میں اس قدر مت کھو جائیں کہ جب آپ قریب المرگ ہوں تو آپ کے قریبی رشتہ دار ڈاکٹر کو بلانے کے بجائے وکیل کو ڈھونڈنے لگ جائیں۔ امید ہے کہ تھوڑا لکھے کو زیادہ سمجھیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں