کرتوت(حصّہ سوم)سامنا کرنا سیکھیے جناب/عارف خٹک

نوٹ: میرے سلسلہ وار مضامین کے چھوٹے چھوٹے حوالے میری آنیوالی انگریزی کتاب “Beyond the border” سے لئے گئے ہیں۔ سن 1980 سے لیکر 2020تک افغانستان اور پشتون قبائلی پٹی میں جن بین الاقوامی قوتوں نے گُل کھلائے ہیں  یا پاکستان کی وہ مذہبی سیاسی و عسکری قوتیں تھیں یا پاکستانی خفیہ اداروں نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں ان میں سب کا ذکر ہے لیکن فی الحال ہم عوامی نیشنل پارٹی کے کردار کو موضوع سخن بنا رہے ہیں کیونکہ اس خطے میں پشتونوں کی سب سے بڑی آواز یہی سیاسی جماعت ہے جن کا منشور پشتونوں کا تحفظ ہے لہذا پشتونوں پر مسلط کی گئی خودساختہ جنگ میں نبھائے گئے کردار میں سب کی انگلیاں بھی اس پارٹی پر زیادہ اُٹھ رہی ہیں۔ میں کسی پر ذاتی حملوں کا مرتکب نہیں ہوں بلکہ یہ وہ ڈاکیومنٹڈ جرائم ہیں جو اس پارٹی کے پرچم تلے ہوئے ہیں اور آج بھی سرکاری دفاتر کے فائلوں میں گرد آلود ہیں۔

اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبر پختونخو احیدر ہوتی کے بھائی غزن ہوتی اور آئی جی پی خیبر پختونخوا  ملک نوید کا اسلحہ اسکینڈل جیسے کل کی بات لگتی ہے۔ نیشنل اکاؤنٹبیلٹی بیورو (نیب) نے جب اس کیس کے حوالے سے معصوم شاہ کے گھر چھاپہ مارا تو وہاں سے اتنا سونا برآمد ہوا کہ سرکاری ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ پلی بارگینگ کرکے غزن ہوتی کا جرمانہ جو کروڑوں بن رہا تھا، باچا خان مرکز کے ان چندوں سے ادا کیا گیا جو ان کے غریب کارکنان نے جمع کرائے تھے۔ اس طرح ملک نوید کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔

وزیر اعلی ٰ حیدر ہوتی نے ایک شولڈر ڈی ایس پی رینک پولیس آفیسر کو، جو ان کے کلاس فیلو تھے ان سے چھ کروڑ لیکر آؤٹ آف ٹرن پروموٹ کیا، بعد ازاں مردان کا ڈی آئی جی لگا دیا گیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سوموٹو ایکشن لیکر یہ کہہ کر ان کو ڈی موٹ کردیا کہ اس “کرائے کے قاتل” کو کس نے ڈی آئی جی پرموٹ کیا ہے؟۔ اس کے بعد حیدر ہوتی نے ان کو یہ کہہ کر اینٹی کرپشن کا ڈائریکٹر بنا دیا کہ آپ کو پیسے واپس نہیں کرسکتا۔اور تاریخ گواہ ہے کہ ایک شولڈر آفیسر کو سول ادارے کا سربراہ تعنیات کیا گیا۔

میاں افتخار حسین، جو اس وقت صوبائی وزیر داخلہ تھے۔ موصوف کی نیک نامی اور باچا خان کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ پارٹی وفاداری میں اپنے اکلوتے بیٹے تک کھو چکے ہیں مگر جس اجتماعی ظلم کا ارتکاب موصوف نے کیا ہے اس پر اگر بات نہ کی جائے تو یہ لامحالہ تاریخ کیساتھ زیادتی ہوگی۔

آئیں آپ کو واپس ماضی میں لیکر چلتے ہیں۔
کوہستان، روایات اور خودساختہ ثقافت کا وہ گڑھ ہے جس کے بارے میں بات کرنا بھی کبھی کبھار مشکل ہوجاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن کا یہ علاقہ چٹیل پہاڑوں پر مشتمل وہ دشوار گزار علاقہ ہے جس کی اپنی ایک دنیا ہے۔ جہاں کسی خارجی کو اجازت نہیں ہوتی کہ ان کی اقدار اور ثقافت پر بات کی جائے۔ وہاں کے  گھٹن زدہ معاشرے میں دو کم عمر بہنیں اپنے بھائی کی شادی میں دوسری  لڑکیوں کی طرح ناچتی  ہیں۔ موبائل فون سے ریکارڈ کی ہوئی ویڈیو سوشل میڈیا تک پہنچ جاتی ہے اور دونوں بیگناہ بہنوں کو کلہاڑیوں کے وار کرکے بیدردی سے قتل کردیاجاتا ہے، اور بغیر کسی قانونی کارروائی کے یہ دونوں بہنیں دفن کر دی جاتی ہیں۔ ایک دن اس علاقے کا ایک پڑھا لکھا نوجوان یہ خبر میڈیا تک لیکر آجاتا ہے اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان اس خبر پر سوموٹو ایکشن لیکر صوبائی حکومت کو باخبر کردیتا ہے کہ دونوں بہنوں کو قبر سے نکال کر پوسٹ مارٹم کیا جائے اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان براہ راست یہ حکم خیبر پختونخوا  کے عوامی نیشنل پارٹی کے ذمہ داران کو دے دیتا ہے۔ ظلم کی انتہا  یہ دیکھیے  کہ صوبائی وزیر داخلہ عدالتی کمیشن کو دھوکہ دیکر کوہستان کے بڑوں کیساتھ جرگہ کرتا ہے، اور ووٹ کے بدلے ان کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ دونوں مقتول بہنوں کی  قبروں کو ہموار کر کے بے نشاں کیا جائے۔ اور یہی ہُوا، عدالتی کمیشن کو گمراہ کرکے کیس کو داخل دفتر کردیا گیا اور بعد میں جس نوجوان نے اس خبر کو بریک کیا تھا اس کو دن دیہاڑے مار دیا گیا اور بعد ازاں  ان کے مزید دو بھائیوں کو ایبٹ آباد میں مار دیا گیا۔ تینوں مقتولین کے معصوم بچوں کو آج بھی ایبٹ آباد میں ان کی ستر سالہ بوڑھی ماں پال رہی ہے اور کوہستان میں ان کی  جائیداد پر قبضہ کیا گیا ہے۔ جس پر حالیہ بی بی سی اردو کی مفصل رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے۔

بات جرم کی نہیں ہے، کیونکہ جرائم انسانوں سے سرزد ہوتے ہیں۔ مگر جو اجتماعی جرم اس وقت کے وزیرداخلہ میاں افتخار حسین نے کیا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کیلئے کوئی انسانی توجیح پیش کی جا سکتی ہے؟۔ یقیناً نہیں!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply