• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخ، وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔۔حسن رضا/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخ، وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔۔حسن رضا/مقابلہ مضمون نویسی

گو کہ موضوع طویل ہے مگر نوعیت کے اعتبار سے اہم اور حساس بھی۔ ٹیم مکالمہ کی یہ کاوش نہایت ہی ستائش کی مستحق ہے جو ایک بنیادی فالٹ لائن پر مکالمہ کرنے کے لئے دعوت فکر کا اہتمام کیا۔ بغیر کسی تمحید کے عدم برداشت روئے کی مختصر تعریف اور اسکے اثرات، پاکستان کے معاشرے میں سرائیت کرجانے والے اس زہر کی تاریخ، وجوہات اور مضمرات پر سرسری نظر ڈال کر کچھ تجاویز زیرقلم لانے کی کوشش کرتا ہوں۔

عدم برداشت: عدم برداشت، شدت پسندی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے، ہر دور/تہذیب کے معاشرے میں چند ایسے عناصر ہمیشہ پائے جاتے ہیں جو کہ شدت پسندی کی پہلی سیڑھی (یعنی عدم برداشت) پر براجمان رہ کر شدت پسندی تک پہنچنے کے لیے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ تعداد میں کم، مگر مقتدر قوتوں کے حلقہ بگوش رہنے کی تگ و دومیں رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر عدم برداشت ایک دماغی/نفسیاتی کیفیت ہے، جو کہ احساس برتری / یا احساس کمتری کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ (فرد/افراد/گروہ) ہر اس تجویز/عمل کی پوری قوت سے مخالفت کرتے ہیں جو ان کے نظریات سے متصادم ہوں۔ وہ اس کیفیت کے اثر میں مکالمہ سے گریز کر کے مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ شدت پسندی کے رستے وا   وتے چلے جاتے ہیں۔ یہ قائل کرنے سے ذیادہ بہ زورطاقت اپنا بیانیہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے بیانیہ کو تقویت دینے کے لیے یہ بے دریغ قوم/ نسل یا مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ جس کے اثر کی وجہ سے ناخواندہ / کم فہم افراد / قبائل یا گروہ ان کے ہم خیال ہو کر شدت پسند عناصر کو تقویت فراہم کر کے ریاستی مشنری اور اہم فیصلوں پر اثر انداز ہو کر صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخ
بحیثیت قوم پاکستان کی تاریخ گو کہ صدیوں پرانی تو نہیں مگرعدم برداشت کلچر قیام سے قبل ہی قیام پاکستان کی مخالفت میں کمر بستہ نظر آیا۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح کی کرشماتی شخصیت اور پرعزم قیادت کی بدولت برصغیرکے لاکھوں مسلمانوں نے ان قوتوں کے ناپاک ارادوں کی تکمیل تو نہ ہونے دی، مگر وہ قوتیں اپنے نفرت انگیز بیانیے کو تشکیل دینے میں ضرور کامیاب ہوگئیں جوبروقت جوابی بیانیہ (کاونٹر) نہ ہونے کے سبب مسلسل نا صرف پنپتا رہا بلکہ تقریبا 3 دہائیوں کے بعد حالات و واقعات کا بروقت فائدہ اٹھا کر استحکام پاکستان کے لیے ایک عفریت بن گیا۔ اور کم و بیش 40 سال سے پاکستان کے لیے ناسور بن چکی اس شدت پسندی سے وہی طبقہ/گروہ پروان چڑھا اور فوائد حاصل کیے جن کے اجداد نے قیام پاکستان کی کھلے عام نہ صرف مخالفت کی۔۔ بلکہ فخریہ اس “گناہ عظیم” میں شامل نہ ہونے کا اعلان بھی کرتے رہے۔
قائداعظم کو اس بات کا ادراک تھا جس کی اظھار وہ اہم مواقع پر برملا کرتے تھے۔
فرمان قائداعظم : 11 اگست 1947 بمقام: مجلس قانون ساز
“ہم آج اس اصول کے ساتھ شروعات کر رہے ہیں کہ ہم تمام مذاہب کے لوگ ایک ہی ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ اس اصول کو اپناے بغیر ہم عدم برداشت اور شدت پسندی سے نجات حاصل نہیں کر سکتے”

مگر اس “اصول” کو شاید قائداعظم کے ساتھ ہی منوں مٹی میں سپردخاک کر دیا گیا۔ پاکستان کے ابتدائی ادوار میں تو یہ رویہ ایک مخصوص طبقہ فکر کی میراث رہا اور ان کو مذہب کے نام پر کبھی قادیانیت کے وجود سے آکسیجن ملی تو کبھی مشرقی پاکستان کے حالات و واقعات کی وجہ سے، یہ طبقہ اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہا، اور آھستہ آھستہ مقتدر حلقوں کے اندر جڑیں گہری کرتا گیا۔ انہوں نے سیکولرازم کی خودساختہ تشریح کے باعث (جس کو “لادینیت” کا نام دیا گیا)، کو بنیاد بنا کر یا تو ہماری مانو ورنہ تم کافر ہو کی بنیاد رکھ دی گئی۔ جو آھستہ آھستہ ایک خطرناک ہتھیار کا روپ دھار کر مخالف نظریہ کو آزادیء اظہار سے بھی معذور کرتی گئی۔ مذہب کا لبادہ اوڑھے ان پارساؤں کے خلاف توایوب خان، یحیٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو بھی بے بس ہی نظر آئے۔ اور 1977 میں جنرل ضیاءالحق نے مسند پر قابض ہونے کے بعد اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے بھی ان عناصر کا ہی سہارا لیا۔ جنرل ضیاء کے دست و بازو بن جانے والے ان عناصر نے موقع کافائدہ اٹھا کر اپنے نظریات کس طرح سے قوم پر مسلط کئے ۔۔۔ یہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

1979 میں خطے(ایشیا) میں رونما ہونے والے 2 واقعات جنہوں نے تاریخ کا رخ تبدیل کردیا۔ کم از کم پاکستان کی تاریخ کا رخ۔
ایک طرف روس نے افغانستان پر فوج کشی کی اور کابل پر قبضہ کرلیا،دوسری طرف امام خمینی نےامریکہ نواز حکومت کو ایک طویل اور قربانیوں سے بھری تحریک کے نتیجے میں ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ انقلاب ایران سے سب سے زیادہ متاثر امریکہ نے اپنی خجالت دور کرنے کیلئے ایک سال بعد ہی ایران کی نومولود حکومت پر عراق کے ذریعے جنگ مسلط کردی۔عالمی قوتیں ہمیشہ سے ایسے نامساعد حالات کا فائدہ اٹھانے کے لئے مواقع کی تلاش میں رہا کرتی ہیں۔ اور 70 کی دہائ کے آخری حصے میں ان کو تمام Ingredients ایک ہی خطے میں مل گئے۔ عراق ، ایران، افغانستان اور پہلو میں سیاسی عدم استحکام کا شکار پاکستان، رہی سہی کسر جنرل ضیاء نے پوری کردی۔

تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ، یورپ یا سعودی عرب کا افغان جہاد کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ کچھ جرنیلوں نےایک پلان ترتیب دیا اور اسکی مارکیٹنگ کے لئے امریکہ کویقین دلایا کہ وہ اپنا ویتنام کا بدلا لے سکتا ہے۔امیر عرب ریاستوں کو خاص برانڈ کا اسلام آسان شرائط پر برآمد کرنے کے لئے راغب کیا گیا۔افغان بھائیوں کو غیرت اور حریت کے نغمے سنائے گئے۔اور ہم پاکستانی عوام کولالی پاپ ملا کے “کیونکہ روس گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے، اسلئے ہماری بقاء اسی میں ہے کہ ہم برادر اسلامی ملک افغانستان کی عوام کا بھرپور ساتھ دیں”اور اس طرح حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے اور طول دینے کے لیے ملک کے مستقبل سے نظریں چرا کرامریکہ بہادر کے لئے میدان جنگ سجادیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے چین، یورپ، امریکہ اور اسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹریاں آباد ہو گئیں اور پوری دنیا سے مجاہدین جوق در جوق پاکستان درآمد ہوکر افغانستان میں مصروف جہاد ہونے لگے۔ ۔
امریکہ بہادر($$) کی مقدس افغان جہاد کی سرپرستی حاصل ہونے کا نشہ مقتدر حلقوں پر ایسا چڑھا کے وہ دل و جان سے صرف اسی کام میں جٹ گئے۔ افغانستان کے بعد کشمیر ان کا نیا محاذ ٹھہرا۔ قائداعظم کی اولاذکرتقاریر واحد سرکاری ٹی وی چینل اور ریڈیو سے غائب کردی گئیں۔ جہاد کی اہمیت و افادیت کے بیان جمعہ کے خطبات کے علاوہ روزانہ کے درس کا لازم حصہ قرار پانے لگ گئے۔ کچھ ہی برسوں میں مذہب کے نام پر شدت پسند گروہوں کی حکومتی شراکت داری اس قدر مضبوط ہو گئی کہ قائداعظم کی تقاریر اور فرمودات بھی سرکاری ٹی وی پر فقط “کشمیر ہماری شہ رگ ہے” تک ہی رہ گئے۔ غم روزگار کے مارے اخبارورسائل نے بھی سرکاری آشیرباد قائم رکھنے کے لئے مجاہدین کی جوانمردی کی باقائدہ سلسلہ وار کہانیاں چھاپ کر عشاق کے حوصلوں کو جلا بخشی اور “عظیم کارخیر” میں حصہ ڈالا۔

عزیز ہم وطنوں کویہ باور کرایا گیا کہ صرف پاکستان ہی “مسلم امہ” کے مسائل حل کرسکتا ہے، اور حل ہے جہاد۔۔۔ جہاد اور صرف جہاد۔۔۔
روس کی افواج کا مقابلہ کرنے کے لئے مجاہد کم پڑنے لگے تو پورے پاکستان میں مسلم ممالک کی مالی امداد سے مدارس کا تعاون لیا گیا۔ “اور دیا گیا” ۔جو یبچارے لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے ان کے لئے مدارس/مساجد کا پلیٹ فارم نہایت معتبر تھا، امت کو یاد دلایا کہ ایک شھید 40 افراد کو بلا چوں چرا جنت میں لے جائے گا۔ ہم ٹھہرے گناہگار لوگ- کثیرالعیال، غریب ، بےروزگار، نہ تعلیم، نہ گھر، نہ بجلی، نہ پانی، نہ گیس، نا ٹرانسپورٹ، ہسپتال کے نام پر 4 گھنٹے پیدل سفر کے بعد ایک دو کمروں کی ڈسپنسری۔ بس شہر سے آئے کسی بابو نے ان سہولتوں کا ذکر کردیا تو گھنٹوں اس کی باتیں سن کر خواب بنا کرتے تھے۔ ہماری تو دنیا بھی جہنم جیسی ہی تھی۔

آخرت کا ایسا پیکج سن کر تو سمجھو لاٹری ہی لگ گئی، لوگوں نے اپنے پیاروں کا نام مدارس اور مساجد میں جاری بھرتی مہم میں لائنوں میں لگ کر درج کروایا۔۔۔ جو بعد از ٹریننگ جہاد میں شرکت کرنے گئے بھی۔۔۔ان میں سے کچھ واپس آئے۔ اور واپس آکردوسروں کو بتایا کہ کس طرح روسی / بھارتی فوجیوں کی لاشیں گلیوں میں سڑ رہی ہیں۔۔۔ اس طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا ۔۔ دو واپس آتے تو 4 ان سے متاثر ہو کرجہاد کے لئے چلےجاتے۔ پھر ان میں سے کچھ واپس آجاتے ۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ بہت سے کبھی لوٹ کرنہیں آئے ۔
بعد از جہاد:
مہینوں کی ٹریننگ اور سالوں کے جہاد کے بعد بالاخر روس پسپا ہوگیا۔ امریکہ نے ہاتھ اٹھا لیا، شومئی قسمت کہ روس کے انخلا سے پہلے ہی مرد مومن اپنے امریکی دوستوں کے ہمراہ فضاء میں تحلیل ہوگئے ۔ادھر دیگر ممالک کے زیراثر گروہ/تنظیمیں جن کا محورومقصد بظاہر روس کی نابودی تھا، اب آپس میں برسرپیکار ہونے لگیں۔ مگر اب میدان جنگ پاکستان کی سرزمین تھا۔
(وقفہ)
اس جگہ رک کر تاریخ کے 2 واقعات کے عکس میں اپنی غلطیوں کا احساس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

(1) 1982 میں امریکہ میں مشہورومعروف فلم “فرسٹ بلڈ”First Blood
بنائی گئی، اس فلم میں دکھایا گیا کہ ایک اعلٰیٰ تربیت یافتہ کمانڈو محاذجنگ سے واپس اپنے وطن آیا مگر اپنے ہی “عزیز ہم وطنوں” سےجنگ چھیڑ بیٹھا، ۔۔۔۔ فلم کے آخر میں دکھایا گیا کہ اسکے سابق افسر نے آکر اس کو سنبھالا مگر تب تک فلم کا ہیرو”جان ریمبو” آدھا شہر تہس نہس کر چکا تھا۔ (یعنی اس بات کا ادراک ایک فلم میکر نے کر لیا تھا کہ “مناسب تربیت کے ساتھ مناسب اقدامات بھی ایک ذمہ داری ہے ورنہ “ایسا ” بھی ہو سکتا ہے”)۔۔

(2) حضرت عمر(خلیفہ دوم)کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل سے ذیادہ پھیل چکی تھی۔ پرانے وقتوں میں جب نیا علاقہ فتح ہوتا تھا تو آگے بڑھتے وقت زخمی، بیمار یا تھکے ہوئے سپاہی واپس اپنے علاقوں میں لوٹ جاتے تھے اور نئے مفتوحا علاقے سے تازہ دم فوج بھرتی کرکے لشکر میں شامل ہوکر مزید لڑائی / فتوحات کے لئے آگے روانہ ہوجاتی تھی۔ (عام طور پر وہی واپس لوٹے سپاہی کسی نہ کسی معاشی یا معاشرتی مسائل کی وجہ سے بغاوتوں کا حصہ بنتے اور ہمیشہ حکومتوں کے لیے خطرہ کا اندیشہ بنے رہتے۔)

حضرت عمرنے جہاں اپنی بڑھتی سلطنت کے مسائل کے لئے انتظامی اصطلاحات متعارف کرائیں اس میں پولیس کے محکمہ کی تشکیل ان کی حالات اور مسائل پرگرفت اوربہترین انتظامی حکمت عملی کی واضع مثال ہے۔ پرانے فوجیوں کو پولیس میں بھرتی کرکے ایک طرف تو ان کے مستقل رورگار کا بندوبست کرنا تو دوسری طرف ان مجاہدین کے عسکری تجربے کو ضائع نہ کرکے حکومتی سرپرستی میں لینا شامل تھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ تجربہ کار عسکری صلاحیت کے حامل افراد نچلی سطح کی انتظامیہ کو بغیرکسی اضافی محنت کے دستیاب ہو گئے۔ شہروں، قصبوں اور صوبوں میں پولیس نے جرائم کنٹرول کئے اور حکومتی رٹ کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔۔ تو دوسری طرف مرکز نے اپنی اسلامی ریاست کی سرحدوں کی حفاظت اور نئی فتوحات اپنی فوج کے تعاون سے باآسانی جاری رکھی۔
(وقفہ ختم)
آئیے سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے روکا تھا۔۔۔
نوجوان کسی بھی معاشرے کے مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں ان کے رویے قوم کی سمت کا پتا دیتے ہیں۔۔۔ ہمارے عام پرجوش، مذہب سے لگاؤ رکھنے والے مستقبل کے معماروں کو درسگاہوں سے نکال کر محاذ جنگ میں جھونکنے والوں نے یا تو ان کی واپسی کے بارے میں کوئی پلان ترتیب ہی نہیں دیا تھا، یا تو ان کے واپس آنے یا نا آنے سے منصوبہ سازوں کو کوئی دلچسپی تھی۔
عام نوجوانوں کو مذہب کے نام پرجہاد کےلئے بھیجنے والوں کو دلچسپی صرف اپنا سکور پورا کرنے میں تھی، تب ہی کسی نامی گرامی جہادی سربراہ نے اپنے بیٹے اس مقدس جہاد میں قربان نہیں کروائے۔۔۔ شہادت صرف غریب کی میراث رہی، اور نام نہاد جہاد کے سرپرت مذہبی شدت پسندوں کے بانی اور سربراہوں کے بچے امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں میں پڑھ لکھ کر کاروبار چمکاتے رہے۔

عدم برداشت کلچر اور متشدد رویئے کا بیانیہ پوری قوم پر مسلط ہوگیا۔ یہ نوجوان جس کو کوئی ہنر سیکھ کر اپنے گھر کی ذمہ داری سنبھالنی تھی، اسکے ہاتھ میں بندوق پکڑا دی، اس کو میدان عمل سے دور کرکے میدان جنگ میں دھکیل دیا، جس ٹیلنٹ کو ملک و قوم کی تعمیر کرنی تھی اس ٹیلنٹڈ (ایک عسکری تربیت یافتہ اور جنگی تجربہ کے حامل) نوجوان سے آپ درزی کی دکان، بیکری یا ڈرایوری کی امید تو نہیں کرسکتے۔ اگر امید تھی تو یہی کرلیتے۔۔۔ حضرت عمر ماڈل کو سامنے رکھتے تو یہ نوجوان پولیس میں بھرتی کرتے جو معاشرے میں جرائم کی روک تھام میں بہت مددگار ہوتے، کیونکہ یہ نوجوان اپنے دین کے نام پر ہی تو خلوس نیت سے جہاد کرنے گئے تھے، جذبہ جوش اور حوصلے سے بھرپور ایک سپاہی کی موجودگی میں کسی کی مجال نہ ہوتی کہ کوئی چوری بھی کرلے۔ سنگین جرائم تو بہت دور کی بات ہے۔

اس صورتحال میں مثبت سوچ اور رویے کا حامل طبقہ اپنی بقاء کے لئے متحرک تو رہا مگر منفی/متشدد قوتوں کو بھرپور سرکاری اور بین الاقوامی غیرمشروط سرپرستی کے آگے نقارخانہ پر بھی مکڑی نے جالے بن دئے۔ ادب آداب اور شائستگی سے گفتگو کرنے والوں سے ذیادہ مجمع ہیجان انگیز مقررین کی محافل میں ملنے لگا۔
نصاب:جنرل ضیاء کے دور میں خاموشی سے ایک مخصوص بیانیے کی نصاب اورذرایع ابلاغ کے زریعے بھرپورترویج کی گئی، مسلم فاتحین جنہوں نے یقیناً  اسلامی سلطنت کو قابل ذکر حد تک توسیع دی ان کو نصاب کا حصہ بنایا گیا، ان کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔
جس عمر میں بچے کو محبت / ادب / انسانیت / امن یا طلب علم کی باتیں سیکھنی چاھیے وہ حجاج بن یوسف کو پڑھتا ہے۔ محمودغزنوی اور محمد بن قاسم کو اپنے رول ماڈل کے طور پر سامنے پاتا ہے،
تو اگر وہ بڑا ہو کررمزی یوسف یا ایمن الظواھری بنتا ہے تو شکوہ کیسا؟ ہم نے اسلام کے نام پر شروع سے یہی تو سکھایا تھا۔ کہ (“سندھ کی بیٹی کی فریاد” پر حجاج نے محمد بن قاسم کو اس کی دادرسی کے لئے بھیجا)۔ہم نے اس کو علم کے حصول کے لئے سرگرداں ابن بطوطہ، البیرونی یا بوعلی سینا کا احوال نہیں سنایا۔ تعلیمات اسلامی میں علم حاصل کرنے پر زور ہے، آپ کے بچے علم حاصل کریں گے، تحقیق کریں گے تو البیرونی، نصریا جابر بن حیان نہ سہی معاشرے میں مثبت مقام ضرور بنا سکیں گے۔
معیارتعلیم:
پاکستان میں کسی بھی کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان جب روزگار کی تلاش کرتا ہے تو یقین مانیئے کہ اس کی اولین ترجیح کسی بھی صورت میں یہ ” 2 اہم شعبے” نہیں ہوتے۔ اور جن کی اہمیت احادیث اور خلفہ راشدین کے ادوار کا جائزہ لینے سے بآسانی واضع ہوتی ہے،
استاد : جو معاشرت/علم و ادب/ کلچر/ صحیح غلط یا اچھے برے کی پہچان کروائے۔
پولیس: جو معاشرے کے اصول، کلچر اور رہن سہن کے مطابق قوانین پر عملدرامد کروائے۔
تمام اداروں/ محکموں یا شعبوں میں یاوری نہ ہونے کے سبب جو لوگ کہیں نہیں “کھپتے” ان کے پاس آخری آپشن محکمہ تعلیم یا پولیس ہی ہوتا ہے،(واضع رہے کہ یہ تجزیہ بنیادی /نچلی سطح کی بھرتیوں کے متعلق ہے) جو کہ ذیادہ بھیانک نتائج کا حامل ہے۔ مثلا پرائمری ٹیچر (عموما میٹرک پاس) کا اپنا کیا معیار ہے جس کے ہاتھ میں ہمارے مستقبل کی مہار دی جاتی ہے۔
اسی طرح پولیس کا سپاہی (عموما میٹرک پاس) جو سفارش یا رشوت کے بل پر بھرتی ہوا ہو اس سے جرائم کی بیخ کنی کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟؟؟

اعلیٰ تعلیم یافتہ / بہترین دماغ یا بہتر صلاحیتوں کے حامل افراد “اچھی آمدنی” والے محکموں میں جاکر اپنی صلاحیتوں اور آمدنی میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہیں اور کند زہن یا رعائتی نمبروں سے پاس ہونے والے افراد کسی اور محکمے میں مواقع نہ ملنے کے سبب آخری آپشن کے طور پر پولیس یا محکمہ تعلیم میں بھرتی ہو جاتے ہیں۔ جو بےچارہ خود معاشرے کا مارا ہوا، سسٹم سے دھکے کھا کرکسی سفارش/رشوت یا جعلی ڈگری کے بل پرنوکری کر رہا ہو، وہ ذہنی فکر کی تعمیر کیا کرے گا؟؟ معاشرت/اخلاقیات یا قوانین کی پاسداری کیا سکھائے گا۔؟؟ یا کیا عمل کرؤائے گا؟؟؟

محترمہ بےنظیر بھٹو:محترمہ کوضیاءالحق کے بعد حکومت تو ملی مگر اندرونی ریشہ دوانیوں اور ملکی و غیرملکی دباؤ کی وجہ سے وہ ان حالات کا مقابلہ تو کیا کرتیں ان کے اپنے دور حکومت میں یہ عناصر وفاق کے کلیدی عہدوں پر براجمان رہے۔ اور بالاخر 2007 میں یہی متشدد عناصر ان کی موت کی وجہ بنے۔
میری رائے ہے کہ 2 ڈکٹیٹروں کے درمیانی عرصے کی حکومتوں کو اس بات کا ادراک ہی نہ ہوا کہ جس ANGRY CULTURE کو جنرل ضیاءالحق کے دور میں پروان چڑھایا گیا ہے۔اس کی پرورش کے بجائے اس کی سرکوبی کرنی چاہیے۔( 1994 میں طالبان کی افغانستان میں حکومت کی تشکیل ، پاکستان کی حمایت اور سرپرستی سے ہی قائم ہوئی تھی جب محترمہ وزیراعظم تھیں۔)

نوازشریف:جنرل ضیاءالحق کے وارث ہونے کے دعویدارہونے کی حیثیت سے محترم سے امید تو تھی بھی نہیں مگر جناب نے بھی اسیANGRY CULTURE کو پروان چڑھایا اور تمام عناصر نے نہ صرف انکا بھرپور ساتھ دیا، بلکہ لیا بھی۔ در پردہ متشدد رویے کی حامل قوتوں اور جناب کے تعلقات پر پہلے ہی بہت روشنی ہے۔

جنرل پرویز مشرف:جنرل مشرف کے ابتدائی دور میں ان سے کچھ امید بندھی تھی کہ شائد اب ہماری قومی اور معاشرتی اصلاح کی سمت متعین ہو پاے گی مگر آنے والے وقت میں وہ بھی مصلحت اور سیاست کا شکار بن گئے، 8 سال پوری قوت کے باوجود اینگری کلچر کا جواب انہوں نے اس ہی کلچر سے دینے کی سنگین غلطی لال مسجد آپریشن کی صورت میں کی اورآستین میں پلتا سانپ بل کھا کر پھنکارے مارتا ہوا باہر آگیا، جس نے نا صرف غیروں کو بلکہ اپنوں تک کو نہ بخشا۔
جنرل مشرف کی ادھوری پالیسیوں کا نتیجہ نکلا کہ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آگیا جو وردی میں ہو تو رشوت بھی لے گا مگر اذان کی آواز سن کر مسجد بھی لپک کر جائے گا۔
یا محلے میں مذہبی محافل میں بھرپور شرکت بھی کرے اور بابرکت محفل سے اٹھ کر گھر جا کر معصوم زینب کو  قتل کرکے کچرے کے ڈھیر میں دبا کر دوبارہ مسجد میں جا بیٹھے۔۔۔

یہ دو مثالیں فقط استعارے ہیں۔۔۔ اشارے ہیں، آپ کو معاشرے میں ایسے افراد ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، اطراف میں نظر دوڑایئں تو (1)سود کا کام کرنے والا شخص کم از کم حاجی صاحب نہیں تو باریش یا مذہبی حلیے کا ضرور ملے گا۔ (2) محلے کی مسجد میں سب سے ذیادہ چندہ دینے والا شخص علاقے سے بھتہ وصول کرتا بھی ملے گا۔ (3) قبضہ گروپ اپنے قبضہ کی ابتداء مسجد و مدرسے کی چاردیواری بنا کر کرتے ہیں۔ (4) اشیاءخوردونوش میں ملاوٹ سے لے کر اسمگلنگ۔۔۔ ہر 2 نمبری کے پیچھے کھڑا شخص ایک ہی جیسا حلیہ ایک ہی جیسا لقب اور ایک ہی جیسا شیلٹر یعنی مذہب کا لبادہ اور سارے کام حلال، سارے گناہ معاف۔
حکمت عملی:
سب سے پہلی چیزجو بحیثیت قوم ہمیں کرنی چاہیے وہ ہے اپنی غلطیوں کا احساس اور پھر اعتراف۔ اور یہ سب کھلے دل اور نیک نیتی سے حکومتی سطح پر ہونی چاہیے ورنہ عدم برداشت کلچر/شدت پسندی/ دہشت گردی کا مقابلہ جس طریقے سے کر رہے ہیں یہ مزید 5/10 سال بغیر نتائج ایسے ہی چلے گا۔ یہ کام کچھ ماہ و سال کا نہیں۔۔ کیونکہ جس آیئڈیولوجی پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور ذہن سازی پر ہم نے 40 سال صرف کئے ہیں، اس تیز رفتار گاڑی کو بغیر بریک دبائے ریورس گئیر لگانا کتنا مہلک ہو سکتا ہے؟ یہ تجربہ آپ اپنی ذمہ داری پہ کسی بھی گاڑی میں بیٹھ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔

اس کارخیر کے لئے عوام کے گلے میں گھنٹی باندھنے سے گریز کریں، یہ کام سرکاری سرپرستی اور ریاستی مشنری کی بھرپورطاقت اور نیک نیتی سے شروع ہوا تھا ریورس گیئر بھی سرکار آپ نے ہی لگانا ہے۔ یہ کسی تنظیم/ادارہ کے بس کی بات نہیں، البتہ کارسرکار میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں، سمت کا تعین کریں اور بسم اللہ کریں۔ علماءکرام کا تعاون لیں ، اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔

تجاویز:
1- یکساں نظام تعلیم: تمام نجی وسرکاری درسگاہوں میں کم ازکم میٹرک تک ایک ہی نصاب رائج کیا جائے۔
2- جہادوقتال کے بجائے اسلام کی روشن اور مثبت تعلیمات کو اجاگر کیا جائے۔
3- ہر طرح کی مذہبی، لسانی یا گروہی منافرت کو نصاب سے نکالا جائے
4- محبت، امن، عفودرگزر ،بھائی چارگی ہی اسلام کی اساس ہیں اسی سمت میں نصاب کو ڈیزاین کیا جائے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ان خطوط پر چل کر اپنے معاشرے کو خوبصورت بنا سکیں۔
5- اساتذہ کے لیے واجبی نہیں بلکہ مناسب مشاہرہ دیا جائے، اسی طرح ان کا انتخاب بھی تعلیم اور صلاحیت سے مشروط کیا جائے، تاکہ کامیاب اور باصلاحیت لوگ اس ذمہ داری کو نبھا سکیں۔ کیونکہ یہی ہمارے مستقبل کی تعمیر کریں گے۔
6- نماز، روزہ، حج، زکوٰتہ کے علاوہ حقوق العباد پر بھی بھرپور توجہ دی جائے کیونکہ معاشرہ ان ہی افکار پر عملدرآمد سے دوسروں کے لیے بھی قابل تقلید بن سکتا ہے۔
7- جن صحابہ کرام کا ذکرنصاب میں بہادر/ شمشیرزن/ مجاہد (سخت گیر) کے طور پر درج ہے، ان کی زندگی کے لطیف پہلوؤں، ان کے اخلاق اور حسن سلوک پر بھی ایک پیراگراف کا اضافہ کردیجئے۔ تاکہ ناپختہ اذہان جان سکیں کہ قربانی دینا اور معاشرے کو باعث رحمت بنانا بھی سنت ہے۔ٴ
8- جدید علوم و فن کی فروغ کے اقدامات کریں تاکہ کسی کو چین نا جانا پڑے۔
9- حجاج بن یوسف، محمود غزنوی یا اورنگزیب عالمگیر کے ادوارکے سرکاری مورخین کی تاریخ کو نصاب کا حصہ بنانے کے بجائے اپنی آنے والی نسلوں کو پیارے نبی کا اسوہ حسنہ پڑھائیں، تاکہ رول ماڈل کے طور پر ہمیشہ حضورپاک کی نرم گوئی، آپ کا اخلاق، عفودرگزر، دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہی ان کے لیے اولین مقصد قرار پائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کام مہینوں یا کچھ سالوں میں مکمل نا بھی ہو توبھی جلد بازی سے گریز کیجئے، حضورپاک کی تعلیمات کو رول ماڈل بنا کر حق اور سچ کی پہچان دلیل اور منطق پر پرکھئے انشاءاللہ کبھی گمراہ نا ہونگے اور نا کوئی کر سکے گا۔
تحمل اور بردباری ہی عدم برداشت کا “رد” ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply