محبت اہل بیت ،ایمان کی معراج

ارشادباری تعالیٰ ہے۔فرمادیجیے اے لوگو!میں تم سے اس (ہدایت وتبلیغ)کے بدلے کچھ اجرت وغیرہ نہیں مانگتاسوائے قرابت کی محبت کے ۔(سورة الشورٰی پارہ ۵۲آیت۳۲)۔
جگرگوشہ رسول مقبولﷺسیدالسادات امام المسلمین امام عاشقاں شہیددشت کربلاسیدناومولاناامامناحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل ومناقب محاسن ومحامدبے شمارہیں اورکیوں نہ ہوں جبکہ فضائل وکمالات برکات وحسنات کامخزن ومعدن انہی کاگھرانہ ہے جس کسی کوبھی کوئی نعمت ملی ان ہی کاصدقہ اوران ہی کی بدولت ہے
جس کوملاجوملاان سے مِلا

بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول ﷺکی!

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آقاﷺنے ارشادفرمایا”لوگومیں تم سے اس (ہدایت وتبلیغ)کے بدلے کچھ اجرت نہیں مانگتاسوائے قرابت کی محبت کے اوریہ کہ تم میری حفاظت کرومیرے اہل بیت کے معاملے میں اورمیری وجہ سے ان سے محبت کرو۔(درمنثور)انہی سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ قُل لاَ اَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجرًََا اِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربٰی نازل ہوئی توصحابہ کرامؓ نے عرض کیایارسول اللہﷺوہ آپ کے قرابت دارکون ہیں جن کی محبت ہم پرواجب کی گئی ہے ؟

قَالَ عَلی’‘ وفَاطِمَہُ وولداھُمَا،علی وفاطمہ اوران کے دونوں بیٹے (یعنی سیدناحضرت امام حسنؓ وسیدناحضرت امام حسینؓ)۔( بحوالہ زرقانی علی المواہب ص۰۲جلد۷صواعق محرقہ ص۸۶۱)

حضرت امام حسن ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشادفرمایا۔”جومجھے پہچانتاہے تووہ مجھے پہچانتاہی ہے اورجونہیں پہچانتاوہ جان لے کہ میں حسین ؑ ہوں فرزندرسول ﷺپھریہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی” وَاتَّبَعتُ مِلَّةَ اٰبَایءاِبرَاھِیمَ الی الاخرتک پھرفرمایامیں بشیرونذیرکا،فرزندہوں اورمیں اہل بیت نبوت سے ہوں جن کی محبت ودوستی اللہ عزوجل نے تم پرفرض فرمائی ہے اوراس بارے میں اس نے اپنے نبی محمدﷺپریہ آیت نازل فرمائی قُل لاَ اَسئَلُکُم  عَلَیہِ اَجرًََا اِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربٰی۔(الصواعق المحرقہ،المستدرک)۔

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی توحضرت سعیدبن جبیرؓ نے فرمایااِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربٰیسے مراد اہل بیت نبوت ہیں یہ سن کرحضرت ابن عباسؓ نے فرمایاکہ تم نے عجلت سے کام لیاہے سنوقریش میں کوئی قبیلہ ایسانہ تھاجس میں رسول اللہﷺ کی قرابت نہ ہوتومطلب یہ ہے کہ مجھ میں اورتم میں قرابت ہے اس کالحاظ رکھواورظلم واذیت سے بازرہو۔دونوں جلیل القدرحضرات کے اقوال ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں عموم خصوص میں فرق ہے۔ ابن عباسؓ نے عموم مرادلیاہے اور ابن جبیرؓ نے خصوص یعنی ابن عباس نے فی القربیٰ سے مرادحضورﷺاورقریش کے درمیان جوقرابت تھی اس کولیاکہ اس کاحق پہچانو اورمجھ سے محبت کرو نہ کہ عداوت اورابن جُبیرؓ نے فی القربیٰ سے مرادقرابت رسولﷺلی ہے ۔مطلب یہ ہواکہ میرے اورتمہارے درمیان جو قرابت ہے اس کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھواور میرے اورمیری اولادکے درمیان جوقرابت ہے اس کی وجہ سے میری اولادسے محبت رکھویہ بھی میری محبت ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ مفہوم مرادلیا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت رکھواورحق قرابت کوپہچانو۔حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰؓ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ آقاﷺ نے ارشادفرمایا”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب ترنہ ہوجاؤں اورمیرے اہل بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب ترنہ ہوجائیں اورمیری اولاداسے اپنی اولادسے بڑھ کرمحبوب نہ ہوجائے اورمیری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب ترنہ ہوجائے “۔(طبرانی فی المعجم الکبیر)۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اوروہ باہم گفتگوکررہے ہوتے توگفتگوروک دیتے ہم نے حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امرکی شکایت کی توآپﷺ نے فرمایالوگوں کوکیاہوگیاہے جب میرے اہل بیت سے کسی کودیکھتے ہیں توگفتگوروک دیتے ہیں ؟اللہ رب العزت کی قسم ! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگاجب تک ان (یعنی میرے اہل بیت)سے اللہ تعالیٰ کے لیے اورمیری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے“۔(ابن ماجہ)۔

آقاﷺ نے ارشاد فرمایا”اپنی اولادکوتین خصلتیں سکھاؤاپنے نبیﷺ کی محبت اوراپنے نبیﷺ کے اہل بیت کی محبت اورقرآن کی قرات۔(سراج منیرشرح جامع صغیر)۔

حضرت عمروبن شعیب ؓ سے جب اس آیت کریمہ کی تفسیرپوچھی گئی توفرمایا کہ “اِلاَّ المَوَدَّةَ فِی القُربٰی “سے مرادرسول اللہﷺکے قرابتی  ہیں خصوصاََ حضرت امام حسینؓ فرمان رسول ﷺحُسَینُ مِنِّی وَاَنامِن حُسَین کے مطابق آپ کے لخت جگربھی ہیں اورآپ کے کمالات ومحاسن کے مظہربھی ہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔اِنَّمَا یُریدُا للَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُُ الرِّجسَ اَھلَ البَیتِ وَیُطَہِّرَکُم تَطھِیرًََا۔(سورةالاحزاب پارہ ۲۲آیت۳۳) اللہ تویہی چاہتاہے اے (نبی کریمﷺ کے)گھروالوتم سے ہرناپاکی کودوررکھے اورتمہیں خوب پاک کرکے صاف ستھرارکھے۔

ان کی پاکی خدائے پاک کرتاہے بیاں آیہ ءتطہیرسے ظاہرہے شان اہل بیت۔۔یہ آیت کریمہ منبع فضائل اہل بیت نبوت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل بیت نبوت کوہرقسم کی اعتقادی عملی اخلاقی ناپاکیوں اوربرائیوں سے پاک اورمنزّہ فرماکرقلبی صفائی اخلاقی ستھرائی اورتزکیہ ظاہروباطن کاوہ اعلیٰ درجہ اورمقام عطافرمایاجس کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتازاورفائق ہیں اس طہارت کامل کے حصول کے بعدوہ انبیاءکرام علہیم السّلام کی طرح معصوم تونہیں ہاں محفوظ ضرورہوگئے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ(میرے حبیب ان نجران کے پادریوں سے )کہہ دیجیے کہ ہم اورتم بلائیں اپنے اپنے بیٹوں کواور اپنی اپنی عورتوں کواوراپنی اپنی جانوں کوپھر مباہلہ کریں توجھوٹوں پراللہ کی لعنت ڈالیں۔(آل عمران ۱۶)یہ آیت کریمہ مباہلہ کے نام سے مشہورہے۔

حضوﷺاپنی نورِنظرلخت جگرسیّدة النساءفاطمة الزہرا سلام اللہ علھیاحضرت علی المرتضیٰؓ حضرت سیدناامام حسنؓ اورحضرت امام حسین ؓ کوساتھ لے کر نصارٰی نجران کے مقابلہ میں مباہلہ کے لیے تشریف لائے اس وقت بھی آپ نے فرمایااَلّلٰھم ھٰوئُ لاَئِ اَھلُ بَیتی(کذٰفی مسلم)اے اللہ!یہ میرے اہل بیت ہیں چنانچہ نصارٰی کے لاٹ پادری نے جب ان نورانی چہروں کودیکھاتوپکاراٹھااے ساتھیو!بے شک میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں کہ اگریہ لوگ اللہ پاک سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کواپنی جگہ سے ہٹادے تواللہ پاک ان کی دعاسے پہاڑوں کوان کی جگہ سے ہٹادے گا،پس ان سے مباہلہ نہ کروورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اورروئے زمین پرقیامت تک کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔(بحوالہ تفسیرخازن۲۴۲)۔

اس آیت کریمہ سے ثابت ہواکہ سیدناحضرت امام حسین ؑ بمصداق اَبنَائَ نَاحضورﷺکے بیٹے ہیں ۔حضرت سعدبن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت ِ مباہلہ نازل ہوئی ”آپ فرمادیں کہ آجاؤہم (مل کر)اپنے بیٹوں کواورتمہارے بیٹوں کواوراپنی عورتوں کواورتمہاری عورتوں کواوراپنے آپ کوبھی اورتمہیں بھی (ایک جگہ پر)بلالیتے ہیں “۔توحضورنبی اکرمﷺنے حضرت علی،حضرت فاطمہ،حضرت حسن اورحضرت حسین علہیم السلام کوبلایااورپھرفرمایا:یااللہ !یہ میرے اہل بیت ہیں “۔(مسلم شریف،ترمذی شریف)۔

حضرت عائشة الصدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ صبح کے وقت ایک اونی منقش چادراوڑھے ہوئے باہرتشریف لائے توآپﷺ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہاآئے توآپﷺ نے انہیں اُس چادرمیں داخل کرلیا،پھرحضرت حسین ؓ آئے اوروہ بھی ان کے ہمراہ چادرمیں داخل ہوگئے ،پھرسیدہ فاطمة الزہراؓآئیں اورآپﷺ نے انہیں بھی اس چادرمیں داخل کرلیاپھرحضرت علی المرتضیٰ ؓ آئے توآپﷺ نے انہیں بھی چادرمیں لے لیا۔پھرآپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ پڑھی:” اللہ تویہی چاہتاہے اے (نبی کریمﷺ کے)گھروالوتم سے ہرناپاکی کودوررکھے اورتمہیں خوب پاک کرکے صاف ستھرارکھے“(مسلم )۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکودیکھا کہ سیدناحضرت امام حسنؓ ا     ورسیدناحضرت امام حسین ؓدونوں کولے کرفرمارہے تھے “یہ دونوں میرے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ !میں ان کومحبوب رکھتاہوں توبھی ا ن کومحبوب رکھ اوراُس کو بھی محبوب رکھ جوان کومحبوب رکھے ۔(ترمذی شریف) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا”میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح ؑ کی کشتی کی طرح ہے جواس میں سوارہوگیاوہ نجات پاگیااورجواس سے پیچھے رہ گیاوہ غرق ہوگیا“۔ایک اورروایت میں ح

ضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے کہ فرمایاجواس میں سوارہواوہ سلامتی پاگیااورجس نے اسے چھوڑدیاوہ غرق ہوگیا“۔(طبرانی فی المعجم الکبیر)۔

حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں”اورجب میں نے لوگوں کودیکھاکہ بیشک وہ ان لوگوں کی روش پرچل رہے ہیں جوہلاکت اورجہالت کے سمندروں میں غرق ہیں ۔تومیں  اللہ کانام لے کرنجات کے سفینوں میں سوارہوگیااوروہ نجات کے سفینے نبی کریمﷺکے اہل بیت ہیں اورمیں نے اللہ کی رسی کوتھام لیااوروہ ان کی محبت ہے جیساکہ ہمیں اس رسی کومضبوطی سے تھامنے کا(قرآن میں)حکم دیاگیاہے۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا “جس نے سیدناامام حسنؓ وسیدناامام حسینؓ کومحبوب رکھا اس نے درحقیت مجھے محبوب رکھاجس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے درحقیت مجھ سے بغض رکھا۔(المستدرک حاکم،البدایہ والنہایہ)۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے سیدناامام حسن ؓ وسیدناامام حسینؓ کاہاتھ پکڑکرفرمایا”جس نے مجھ کومحبوب رکھااوران دونوں (سیدناامام حسنؓ وسیدناامام حسینؓ)اوران کے باپ(علی المرتضیٰؓ)اوران کی ماں(حضرت فاطمة الزہراؓ)کومحبوب رکھاتووہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا”(ترمذی شریف)یہ وہ بشارت ہے جودنیاومافیہاسے اعظم وانفع ہے۔حضرت اب

وہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺہمارے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ ایک کاندھے پرحضرت سیدنا امام حسنؓ اورایک کاندھے پرحضرت امام حسین ؓ تھے آپﷺکبھی حضرت امام حسن ؓ کوچومتے تھے اورکبھی حضرت امام حسینؓ کو۔۔ایک شخص نے آپﷺسے عرض کیایارسول اللہﷺ”آپ ان دونوں کوبہت محبوب رکھتے ہیں؟آپﷺنے فرمایاجس نے ان دونوں کومحبوب رکھابیشک اس نے مجھے محبوب رکھااور جس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔(البدایہ والنہایہ)۔

حضرت سعدبن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں آقاﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوااس وقت امام حسنؓ وامام حسینؓ آپ کی پشت مبارک پرکھیل رہے تھے “میں نے عرض کیایارسول اللہﷺکیاآپ ان دونوں سے بہت محبت ر کھتے ہیں ؟فرمایاکیوں نہ محبت رکھوں جبکہ یہ دونوں دنیامیں میرے پھول ہیں۔(کنزالعمال)حضرت زیدبن ابی زیادؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺسیدہ فاطمة الزہراؓ کے گھرکے دروازے کے پاس سے گزرے اورحضرت امام حسینؓ کے رونے کی آوازسنی توآپﷺنے فرمایا!بیٹی اس کورونے نہ دیاکروکیاتمہیں معلوم نہیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ (نورالابصار)۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام کے سلسلے میں آقاﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہواآپﷺاس حالت میں باہرآئے کہ آپﷺکے پاس کوئی چیزکپڑے میں لپیٹی ہوئی تھی میں نے عرض کیااے اللہ کے نبی ﷺیہ کیاہے ؟پس آپﷺنے کپڑااٹھایاوہ سیدنا حضرت امام حسنؓ وامام حسین ؓ تھے فرمایایہ دونوں میرے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ میں ان کومحبوب رکھتاہوں توبھی ان کومحبوب رکھ اورجو ان کو محبوب رکھے تواس کوبھی محبوب رکھ۔(کنزالعمال)۔

 

حضرت جابربن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حجة الوداع میں عرفہ کے دن آقاﷺکوقصواءاونٹنی پر خطبہ ارشادفرماتے ہوئے دیکھاتومیں نے سناآپﷺفرمارہے تھے اے لوگو!بے شک میں نے تم میں وہ چیزچھوڑی ہے کہ اگراس کومضبوطی سے پکڑے رہوگے توگمراہ نہیں ہو گے وہ کتاب اللہ(قرآن مجید)اورمیری عترت ،میرے اہل بیت ہیں۔(ترمذی باب المناقب)۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آقاﷺنے فرمایالوگواللہ تعالیٰ سے محبت رکھوکیونکہ وہ (تمہارارب ہے اور)تمہیں نعمتیں عطافرماتاہے اورمجھے محبوب رکھواللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے اورمیرے اہل بیت کومحبوب رکھومیری محبت کی وجہ سے۔(ترمذی ،مشکوٰة)۔

 

حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺسے سناکہ آپﷺفرماتے تھے کہ سیدناحضرت امام حسنؓ وسیدناحضرت امام حسینؓ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں کومحبوب رکھااس نے مجھ کومحبوب رکھااورجس نے مجھ کومحبوب رکھااس نے اللہ پاک کومحبوب رکھا اورجس نے اللہ پاک کومحبوب رکھااللہ پاک نے اس کوجنت میں داخل کیااورجس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے مجھ سے بغض رکھااور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ پاک سے بغض رکھااورجس نے اللہ پاک سے بغض رکھااللہ پاک نے اس کودوزخ میں داخل کیا۔

حضرت ابوسعیدخدری ؓ فرماتے ہیں کہ آقاﷺنے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس کسی نے بھی ہمارے اہل بیت سے بغض رکھااللہ پاک نے اس کوجہنم میں داخل کیا۔(زرقانی علی المواہب)۔حضرت زیدبن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ آقاﷺنے فرمایابے شک میں تم  میں دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہاہوں کہ اگرتم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھاتومیرے بعدہرگزگمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب(قرآن مجید)آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اورمیری عترت یعنی اہل بیت اوریہ دونوں ہرگز جدانہیں ہوں گے یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پرمیرے پاس آئیں گے پس دیکھوکہ میرے بعدان سے کیاسلوک کرتے ہو؟(ترمذی،مشکوٰة)۔

حضرت براءؓ فرماتے ہیں “کہ حضورﷺنے سیدناامام حسنؓ اورسیدناامام حسینؓ کودیکھاتوکہااے اللہ!میں ان دونوں کومحبوب رکھتاہوںسوتوبھی ان کومحبوب رکھ۔(ترمذی شریف باب المناقب)۔حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنمازپڑھ رہے تھے توسیدناحضرت امام حسنؓ وسیدناحضرت امام حسینؓ آئے اورجب آپﷺ سجدہ میں گئے تووہ دونوں آپ کی پشت پرسوارہوگئے ،لوگوں نے چاہاکہ ان کومنع کریں جب آپﷺنے سلام پھیراتولوگوں سے فرمایاکہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں کومحبوب رکھااس نے مجھے محبوب رکھا۔(البدایہ والنہایہ)۔

بہرآں شہزادہ خیرالملل دوش ختم المرسلین نعم الجمل
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں آقاﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہواآپ نے حضرت امام حسنؓ وحضرت امام حسینؓ کواپنی پشت پربٹھایاہوا تھااورآپ دونوں ہاتھوں دونوں گھٹنوں پرچل رہے تھے تومیں نے کہا(اے شہزادو)تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟توآپﷺنے فرمایاسوار بھی بہت اچھے ہیں۔(کنزالعمال،البدایہ والنہایہ)
پھول کی طرح سے ان کوسونگھتے تھے مصطفےٰ

جب کبھی ہوتے تھے ناناسے بہم حضرت حسینؓ!

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺسے پوچھاگیا”آپ کے اہل بیت میں سے کون آپ کوزیادہ محبوب ہے؟آپﷺنے فرمایاسیدناامام حسنؓ وسیدنا امام حسینؓ اورآپ ﷺحضرت فاطمة الزہراسے فرماتے میرے دونوں بیٹوںکوبلاؤ تو آپﷺدونوں کوسونگھتے اوراپنے سینہ مبارکہ سے چمٹالیتے۔ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے کہاکہ میں مغرب کی نمازآقاﷺکے ساتھ پڑھوں گا۔اپنے اورتمہارے لیے بخشش کاسوال کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ پس میں نبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورآپﷺکے ساتھ مغرب کی نمازپڑھی یہاں تک کہ عشاءکی نمازبھی پڑھی پھر آپﷺمسجدسے نکلے میں بھی آپﷺکے پیچھے چل پڑاآپﷺنے میرے چلنے کی آوازسنی توآپﷺنے فرمایاکیاتوحذیفہ ؓ ہے؟میں نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہﷺ،آپﷺ نے فرمایاتجھے کیاحاجت ہے ؟اللہ پاک تجھ کواورتیری والدہ کوبخشے (پھر)فرمایایہ ایک فرشتہ ہے جواس رات سے پہلے کبھی زمین پرنازل نہیں ہوااس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اورمجھے یہ بشارت دینے کے لیے اجازت مانگی ہے کہ حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاجنت کی عورتوں کی سردارہے اورسیدناامام حسنؓ وسیدناامام حسین ؓ جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔(ترمذی شریف،مشکوٰة شریف)۔

حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے حضرت فاطمة الزہراسلام اللہ علیھاسے فرمایاکیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم جنت کی عورتوں کی سردارہو اور تمہارے بیٹے جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔(کنزالعمال)۔حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایاکہ حضرت امام حسنؓ و حضرت امام حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردارہیں۔(البدایہ والنہایہ)۔حضرت جابربن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایاجس کے لیے باعث مسرت ہو کہ وہ کسی جنتی مردکودیکھے اورایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جنت کے نوجوانوں کے سردارکودیکھے تواس کوچاہیے کہ وہ حسین ابن علیؓ کودیکھے ۔(ابن حبان، ابویعلیٰ،ابن عساکر)۔

حضرت سیدناابوبکرصدیقؓ فرماتے ہیں کہ “خداکی قسم !جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھ کواپنے اقرباءسے رسول اللہ کے اقرباءمحبوب ترہیں۔ انہی کاایک اورارشادمبارک ہے “محافظت کرومحمدﷺکی انکے اہل بیت میں یعنی عزت وحرمت محمدی اس میں ہے کہ ان کے اہل بیت کی عزت وتعظیم کرو۔(بخاری شریف)حضرت یعلیٰ بن مرُّہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا”(سیدناامام) حسینؓ مجھ سے ہے اورمیں (سیدناامام)حسینؓ سے ہوں جو(سیدناامام)حسینؓ کومحبوب رکھتاہے وہ اللہ کومحبوب رکھتاہے حسینؓ فرزندوں میں سے ایک فرزندہے۔ (ترمذی،مشکوٰة) ۔

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرمﷺنے ارشادفرمایا”یقینا اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کی اولاداس کی صلب میں رکھی اوربیشک اللہ تعالیٰ نے میری اولاد علی بن ابی طالب کی صلب میں رکھی ہے “۔(طبرانی)حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضورنبی اکرمﷺسے یہ سناآپﷺفرماتے ہیں:ہرعورت کی اولادکانسب اپنے باپ کی طرف ہوتاہے سوائے اولادفاطمہ کے کیونکہ میں ہی ان کانسب اورمیں ہی ان کاباپ ہوں“۔(الدیلمی فی مسندالفردوس ،بیہقی فی مجمع الزوائد)۔حضرت عمربن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرمﷺسے سناکہ آپﷺفرماتے ہیں ”قیامت کے دن میرے حسب ونسب کے سواءہرسلسلہ نسب منقطع ہوجائے گا“۔(الحاکم فی المستدرک ،طبرانی فی المعجم الکبیر)۔

حضرت حذیفہ ؓروایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرمﷺنے ارشادفرمایا”ایک فرشتہ جواس رات سے پہلے کبھی زمین پرنہ اتراتھااس نے اپنے پروردگارسے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرے اورمجھے یہ خوشخبری دے کہ حضرت فاطمة الزہراؓ اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردارہیں اورحسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنھماجنت کے تمام جوانوں کے سردارہیں “۔(ترمذی،نسائی،احمدبن حنبل )۔حضرت زیدبن ارقم ؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے حضرت علی ؓ،حضرت فاطمہؓ،حضرت حسن ؓاورحضرت حسین ؓسے فرمایا”تم جس سے لڑوگے میں اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اورجس سے تم صلح کرنے والے ہومیں بھی اس سے صلح کرنیوالاہوں “۔(ترمذی،ابن ماجہ)۔

حضرت ابومسعودانصاریؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے فرمایا ”جس نے نمازپڑھی اورمجھ پراورمیرے اہل بیت پردرودنہ پڑھااس کی نمازقبول نہ ہوگی“۔حضرت ابومسعودانصاریؓ فرماتے ہیں اگرمیں نمازپڑھوں اوراس میں حضورنبی اکرمﷺپردرودپاک نہ پڑھوں تومیں نہیں سمجھتاکہ میری نمازکامل ہوگی“۔(بیہقی ،دارقطنی)۔اہل عراق نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے حالت احرام میں مکھی یامچھرمارنے کامسئلہ پوچھاتوآپؓ نے فرمایا”ان اہل عراق کودیکھومجھ سے مکھی مارنے کامسئلہ پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے فرزندرسولﷺکوقتل کیاہے اوررسول ﷺنے فرمایاتھاکہ(حضرت امام حسن ؓ وامام حسینؓ )دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔(بخاری شریف)۔

اللہ پاک اور اس کے محبوب علیہ الصلوٰة والسلام کے ان ارشادات سے یہ ثابت ہواکہ حضرت امام حسینؓ کی ذات بابرکات پاک ہے آپﷺکے فرزندآپﷺکے پھول اورآپﷺکے محبوب ہیں جنت کے جونوانوں کے سردارہیں آپ ؓ کی محبت ہرمسلما ن پرواجب سرمایہ ایمان اور ذریعہ نجات ہے درج بالااحادیث مبارکہ سے ثابت ہواکہ سیدناحضرت امام حسنؓ وسیدناحضرت امام حسینؓ کی محبت درحقیت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی محبت ہے اوراللہ کامحبوب بننے کاذریعہ ہے جوکہ جنت میں لے جانے کاباعث ہے آپؓ کے ساتھ بغض رکھناحقیقت میں اللہ پاک اوراس کے رسولﷺکے ساتھ بغض رکھنا ہے جوکہ جہنم میں لے جانے کاباعث ہے ۔حضورﷺنے قرآن اوران کے تمسک کوہدایت پرقائم رہنے کاسبب فرمایااوران کے چھوڑنے کوگمراہی کاباعث قراردیا۔

جماعت اہلسنت حنفی بریلوی کاعقیدہ بھی یہی ہے کہ اہل بیت کی محبت سرمایہ ایمان ذریعہ قرب خداتعالیٰ اوررسول مقبول ﷺاوروسیلہ نجات ہے اکابرین اہلسنت والجماعت حنفی بریلوی نے بلحاظ ان کے اسمائے مبارکہ خطبہ جمعہ میں داخل فرمائے تاکہ ہرجمعہ کوبرسرمنبراس عقیدہ کااظہاربیان ہوتارہے تاکہ مومنین ومسلمین کے دلوں میں ان کی محبت قائم رہے ۔جوبھی اہل بیت کرام کی ذات اقدس پرنکتہ چینی کرتاہے ان کے ساتھ بغض وحسد حب جاہ اورہوس اقتدارکی نسبت کرے حقیت میں وہ شخص باغی ،فسادی اورفتنہ پرورہے ۔چراغ گولڑہ پیرسیدغلام نصیرالدین نصیرگولڑویؒ فرماتے ہیں۔
گرجمعِ روافض است نزدِتومرَید ہم خارجیاں رَاشَمرُازبطنِ پلید
ایمانِ من است حُبِّ آل واصحاب رضی اللہ عنہم لعنت بہ سَرِیزیدواَتباعِ یزید
ترجمہ:اگرتیرے نزدیک سارے رافضی مردودہیں اورخارجیوںکوبھی توشمارکرے یزیدپلیدکے بطن سے ۔میراایمان آل واصحابؓ کی محبت ہے یزیدکے سراوریزیدکے پیروکاروںپرلعنت ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جماعت اہلسنت کاعقیدہ قرآن اوراحادیث مبارکہ کے مطابق ہے ہمیشہ عقیدہ بنتابھی قرآن اورحدیث سے ہے نہ کہ تاریخ سے کیونکہ تاریخ میں توگڑبڑہوسکتی ہے اللہ پاک اوراس کے نبی کریمﷺکے ارشادات غلط نہیں ہوسکتے مسلمانوں کوچاہیے کہ اپناعقیدہ تاریخ کے تابع نہیں بلکہ تاریخ کوعقیدہ کے تابع رکھیں ۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاہے کہ اللہ پاک میری اس کاوش کواپنی بارگاہ لم یزل میں قبول فرمائے اور اہل بیت کرام ؓ کی بارگاہ میں عاجزانہ اپیل ہے کہ میری اس خدمت کوشرف قبولیت بخشیں اورحضورنبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس (یہ و ہ بارگاہ اقدس ہے جس بارگاہ میں سترہزارفرشتے صبح کو اورسترہزارفرشتے شام کوحاضرہوکردرودسلام پیش کرتے  ہیں جو فرشتہ ایک مرتبہ آجائے دوبارہ اسے قیامت تک موقع نہیں ملتا)میں میری سفارش فرمائیں تاکہ قیامت کے دن آقائے دوجہاں سرورکون و مکان سرورکائنات فخرموجودات محمدﷺمیرے شفیع ہوں۔آمین بجاہ النبی الامین!

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply