تجزیہ زبان و لسان۔۔۔۔ایم عثمان /قسط 5

زبان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ساخت ہے جو ایک علامتی نشان ہے جس کا مفہوم ثقافتی پیداوارہے۔یا زبان الفاظ و معانی کا مجوعہ ہے جس معانی ثقافت کا آزادانہ اختیار ہے۔
ان دونوں نظریات میں ایک امر مشترک ہےکہ ساخت و لفظ کے بطن میں معانی و مفہوم ثقافت کی پیداوار ہے۔ 2۔ ساخت اور علامتی مظہر میں۔ لفظ اور معانی میں لزوم نہیں ہے۔اس مقدمہ کے بعد جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ یوں ہیں۔
محض لفظ کو جان لینا زبان دانی نہیں ہے۔ یا ساخت بلا مظہر کوئی علامت نہیں ہے۔
زبان ثقافت کے رائج تصورات کی ابلاغی و تفہیمی صورت ہے۔
ثقافت کے تصورات کو جانے بغیر زبان دانی کرنا بلا فہم نقوش کا حصول ہے۔۔
کسی زبان کو جاننے کے لیے اس زبان کو اس کی ثقافت و تصورات کے ذریعے سیکھا جاسکتا ہے یا زبان کے تصورات کو اپنی زبان میں موجود تصورات کی ساختوں اور لفظوں کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر معاشرے میں سماجی ضرورتیں قریبا 90% ایک سی ہوتی ہیں۔ اس لیے تصورات قریب قریب موجود ہوتے ہیں۔
ان مشترکات کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ زبان قابل ترجمہ ہے۔

ترجمہ کی ضرورت۔
پہلی 4 اقساط میں یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے  کہ زبان الفاظ و معانی کا مجموعہ ہے یا علامتی ساخت ہے۔اور ان کے ظروف میں جو معانی ہیں ان میں لزوم نہیں ہے بلکہ یہ خالص ثقافتی پیداوار ہے۔جب لفظ و معانی میں لزوم نہ ہو تو محض لفظ سے معانی کا شعور حاصل نہیں ہوتا صرف نقش حاصل ہوتا ہے۔۔جس زبان کا لفظ ہے اس زبان کی شعریات سے کامل وافقیت نہ ہو تو زبان کے نقوش ذہن کو کوئی فہم نہیں دیتے۔جن تصورات و مفاہیم کے لیے لفظ بنائے گئے ہیں اگر وہ معلوم نہ ہو تو کوئی فہم حاصل نہیں ہوتا۔۔لہذا زبان فہمی کے لیے۔ سبب وضع لفظ جاننا ضروری مقدمہ ہے جس کے بغیر زبان فہمی کا دعوی تار عنکبوت ہے۔

2۔ اگر ایک زبان کو سمجھتا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں ہر زبان کو سمجھتا ہو۔ اور ہر ایک زبان کے لفظ و نقوش دوسری زبان سے منفرد ہوتے ہیں۔ ایک زبان کے لفظ دوسری زبان میں دخیل نہیں ہوتے اور نہ ایک زبان کے لفظ دوسری زبان میں ایک سا معانی و مفہوم رکھتے ہیں۔۔جب ہر زبان کے لفظ ایک دوسرے سے منفرد ہیں تو لفظ کے تصورات اور سبب وضع کو جاننا ضروری ہو گا۔۔ اور ان تصورات کو اجنبی زبان کے الفاظ سے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ ان کو سمجھنے کے لیے اپنی زبان کے ان الفاظ کو جانا جائے گا جو ان تصورات کا حامل ہے۔ جب یہ تصور اپنی زبان سے حاصل ہو جائے گا تو اس تصور کے حامل دیگر الفاظ کو سمجھ لیا جائے گا۔اب سبب ترجمانی کے بعد ضرورت کی بات کرنا ضروری ہے۔قوموں کا اتحاد باہم معاشرت ایک حقیقت ہے جو باہم ضرورتوں کا تبادلہ کرتی ہیں۔ اپنے کلام و الفاظ کو سمجھانے کے لیے ترجمانی کی بدیہی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ہر قوم دوسرے کے لیے صم بکم ہو گی۔

ان ضروری مقدمات کو جان لینے کے بعد منزل کتاب کی زبان کی ترجمانی کی ضرورت ہو گی یا نہیں؟

قرآن حکیم نے بیان کیا وہ عربی زبان میں نازل ہوا۔ زبان ہونے کے اعتبار سے تمام متعلقات و ملحقات اس کو بھی شامل ہوگئے جو زبانون کو حاصل ہوتے ہیں۔۔ اس کے الفاظ کی وضع اس وقت کے رائج تصورات ہی پر ہوئی ہے۔ جن کے مفاہیم ان الفاظ کی چار دیواری میں پیش کئے گے۔۔ بصورت دیگر اگر اس کو زبان نہ سمجھا جائے یا رائج تصورات سے الگ مفہومات کا ظرف قرار دیا جائے تو یہ قابل فہم نہیں رہے گی۔ ۔۔ جو منزل کے مقصود کے خلاف ہے۔۔
منزل کلام کے مفہوم کو جو دیگر زبانوں میں موجود ہیں ان کی زبانوں کے الفاظ کی نشاہدی کے ساتھ پیش کرنا۔ مفہوم کی ترجمانی ہے۔ جیسے منزل لفظ ایک مفہوم کی ایک عربی تعبیر ہے ایسے ہی اس مفہوم کو دوسری زبان میں بیان کرنا دوسری تعبیر ہے۔۔
کلام منزل کا مقصود مفہوم دینا ہے اور ذہن کا کام اس کو سمجھنا ہے۔ اگر کوئی عربی نہیں جانتا تو اس کو مفہوم سمجھانے کے لیے دوسری زبان کا سہارا لینا ضروری ہو گا جس کے ذریعے وہ حکم ربی کو جان سکے۔۔ حکم ربی کو جاننا اور اس پر عمل کرنا مقصد منزل ہے اس بنیادی مقصد کا حصول ہی غیر عربی کے لیے ترجمانی ضروری کر دیتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی اطاعت کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply