• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جنہیں ترک اپنا ہیرو مانتے ہیں ،وہ عبد الرحمن پشاوری کون ہیں؟۔۔۔:ڈاکٹر سہیل خان

جنہیں ترک اپنا ہیرو مانتے ہیں ،وہ عبد الرحمن پشاوری کون ہیں؟۔۔۔:ڈاکٹر سہیل خان

عبدالرحمان پشاوری 6 دسمبر 1886ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ پشاور کے میونسپل بورڈ سکول سے ساتویں کا امتحان پاس کیا۔ کرکٹ اور فٹ بال کے مایہ ناز کھلاڑی تھے۔ چھ گیندوں پر چھ کھلاڑی آؤٹ کرنے کا ان کا ریکارڈ آج بھی ہندوستان کے کوئلہ فیروز شاہ سٹیڈیم میں آویزاں ہے۔

وہ حافظ قرآن بھی تھے۔ مارچ 1906ء میں آٹھویں جماعت میں انہیں علی گڑھ بھیجا گیا۔ اپریل 1908ء میں حسرت موہانی کے رسالہ اردوئے معلی میں انگریز سامراج کے خلاف مضمون لکھنے کی پاداش میں عبدالرحمٰن اور فضل امین کو 3 سال کیلئے علیگڑھ سے خارج کیا گیا۔

اس وقت وہ میٹرک میں پڑھ رہے تھے۔ علیگڑھ سے نکالے جانے کے بعد فضل امین اور عبدالرحمان پشاوری نے شملہ کا رخ کیا اور وہاں ایک یورپین سکول میں داخلہ لیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے، جس کے خلاف مضمون لکھا انہوں نے ہی اپنے ادارے میں تعلیم دلوائی جبکہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے نے انگریز کے خوف کے مارے علیگڑھ سے نکالا۔

شملہ میں دوران تعلیم دل کی بیماری لاحق ہوگئی۔ دہلی، کلکتہ، لاہور کے مشہور ڈاکٹروں سے علاج کروایا مگر افاقہ نہ ہوا، قادیان کے حکیم نورالدین کے پاس بھی گئے مگر مایوس لوٹ آئے۔ آخر کار دہلی میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے ان کا علاج شروع کیا۔ دسمبر 1911ء میں ڈاکٹر انصاری نے جب ترکوں کے زخم پر مرہم پاشی کیلئے ترکی کا رخت سفر باندھا تو عبدالرحمان پشاوری کی طبیعت اچانک سنبھل گئی۔ 1912ء میں عبدالرحمان پشاوری واپس علیگڑھ چلے گئے۔

اس بار حالات بدل چکے تھے اور وہ مزاحمت کا استعارہ بن گئے۔ 1911ء میں اٹلی کا طرابلس العرب پر حملہ، ترکی کے خلیفہ پر دباؤ ڈال کر طرابلس کی خودمختاری کا اعلان کروالینا اور اس کے خلاف ردعمل کی صورت میں اکتوبر 1912ء میں بلقانی ریاستوں سے ترکی پر حملہ کرو الینا وہ واقعات ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مسلمانوں کا غم و غصہ نقطہ عروج پر پہنچ چکا تھا۔

جنگ طرابلس اور بلقان کے نتیجے میں ہندوستان مشتعل ہو رہا تھا ۔ عبدالرحمان پشاوری بھی متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر انصاری اور مولوی سیف الرحمان صدر مدارس فتح پوری دہلی، جو حضرت شیخ الہند کے شاگرد تھے، سے عبدالرحمان پشاوری کی پرانی واقفیت تھی۔

مولانا عبیداللہ سندھی دہلی منتقل ہو چکے تھے اور مدرسہ فتح پوری کو مرکز بناکر نظارۃ المعارف القرآنیہ قائم کرچکے تھے۔ عبدالرحمان پشاوری اپنے ہم وطن مولوی سیف الرحمان کے ذریعہ مولانا عبیداللہ سندھی و شیخ الہند سے متعارف اور وابستہ ہو چکے تھے۔ مولانا حضرت موہانی رہا ہو چکے تھے۔

اردو ئے معلی بند تھا مگر الہلال، کامریڈ اور زمیندار کالج آتے تھے۔ اکتوبر 1912ء میں بلقان کی عیسائی ریاستوں نے ترکی پر حملہ کردیا۔ اس ہیجانی کیفیت میں فیصلہ ہوا کہ ترک مسلمانوں کی امداد کیلئے ایک طبی وفد روانہ کیا جائے، طبی وفد کی سربراہی ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے سپرد ہوئی۔ اس مشن میں 22 افراد (5 ڈاکٹر، 17ہمکار) شامل تھے۔

ان میں یہ نام شامل تھے۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری، ڈاکٹر محمد نعیم انصاری، ڈاکٹر فیضی، ڈاکٹر باری، ڈاکٹر محموداللہ، ممبران: عبدالرحمان صدیقی، عبدالعزیز انصاری، منظور محمود، محمد یوسف ، عبدالرحمان پشاوری، توکل حسین، تفضل حسین، قاضی شیرالدین، وحیدالدین، نورالحسن، چراغ علی، غلام احمد، شعیب قریشی، خلیق الزمان، رضا حسین، اسماعیل شیرازی اور تونگر حسین۔

عبدالرحمان پشاوری نے اپنا سارا سامان بیچا اور والد صاحب کو مطلع کیے بغیر ترکی مشن پر روانہ ہوگئے، روانگی سے قبل اپنی ہمشیرہ کو ایک تفصیلی خط میں اپنی مالی تنگدستی اور والد صاحب کی طرف سے مذکورہ سفر پر جانے کی اجازت نہ ملنے کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر انصاری کا یہ طبی وفد دسمبر 1912ء کو ترکی پہنچا۔ سوا مہینہ استنبول میں قیام کے بعد 8 فروری 1913ء کو میدان جنگ کی طرف روانہ ہوا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اس ایثار کے جذبے کو ترکی میں آج بھی تاریخ کے جھروکوں میں درسی اسباق کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔

ترکی پہنچنے کے بعد وفد تین حصوں میں بٹ گیا۔ وفد کے چند افراد استنبول میں مقیم تھے۔ اس کے سیکرٹری عبدالرحمان صدیقی تھے۔ باقی ارکان تتلجہ کے محاذ پر بھیج دیئے گئے۔ ان کے انچارج چوہدری خلیق الزمان تھے، جبکہ ایک مشن کو گیلی پولی کے محاذ پر بھیجا گیا جہاں انہوں نے موبائل ہسپتال قائم کیا جس کی نگرانی شعیب قریشی کر رہے تھے۔ لیکن عبدالرحمان پشاوری واحد ہمکار تھے جو تینوں جگہوں جاتے تھے۔ انہیں جب موقع ملتا، جان کی پرواہ کئے بغیر میدان جنگ میں نکل جاتے اور توپ کے گولوں کی ہلاکت خیزی اور گولیوں کی بارش میں زخمیوں کو تلاش کرتے پھرتے اور زخمیوں کو پیٹھ پر لاد کر میدان جنگ سے نکالتے اور ہسپتال پہنچاتے۔

ترک سپاہی اور افسران عبدالرحمان پشاوری کے جذبہ انسانیت پر آفرین کہتے۔ ترکی میں ہندوستانی وفد کے اس مشن پر چوہدری خلیق الزمان لکھتے ہیں کہ ’’انجمن ہلال احمر کے تمام ڈاکٹر اور سٹاف ہمارے بڑے ثناخوان تھے اور ہر طرح سے ہمارے آرام و آسائش کیلئے کوشاں رہتے۔ نسیم عمر پاشا اور ان کے بھائی کمال عمر بھی یہاں اکثر آتے جاتے رہتے تھے اور تمام مسائل پر ان سے گفتگو ہوتی رہتی تھی۔

خالدہ ادیب خانم ترکی کی معروف خاتون تھیں۔ وہ بہت اچھی ادیب اور روشن خیال تھیں۔ جن سے ہم لوگ اکثر ملا کرتے تھے۔ (یاد رہے کہ یہ وہی خاتون ہیں جنہوں نے باچا خان پر سب سے پہلی کتاب 1940ء میں لکھی تھی) ترکی عوام میں بھی ہمارے وفد کی کافی شہرت تھی جس کے لئے یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا کہ ترکوں کی خدمت کیلئے ایک دور دراز ملک سے کوئی وفد آیا ہے اور وہ بھی ایسے زمانے میں جب عرب اور ترک اصلاحات ملک کی اندرونی سیاست پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ یہ وفد جون 1913ء میں کامیاب مشن کی تکمیل پر واپس ہندوستان پہنچا۔

سلطان محمد خامس خلیفہ ترکی نے وفد کو رخصت کیا مگر عبدالرحمان پشاوری کو اپنے ہاں رکوا لیا۔ عبدالرحمان پشاوری نے ترک فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ وہ قسطنطنیہ اور بیروت میں فوجی تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے۔ جب 14 اگست کو پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی تو عبدالرحمان پشاوری کو لیفٹیننٹ کا عہدہ دے کر بیروت سے بلوایاگیا اور خطرناک محاذ جنگ درہ دانیال بھیج دیا گیا۔ جنگ عظیم کے اختتام پر ان کو سفارتی مشن پر جرمنی اور بغداد بھیجا گیا۔ جب مصطفی کمال نے انگورہ (انقرہ) میں اپنی حکومت بنائی تو سب سے پہلے اس کو افغانستان نے تسلیم کیا۔

اس لئے انگورہ حکومت نے بھی سب سے پہلے افغانستان سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور عبدالرحمان پشاوری کو مارچ 1921ء میں سفیر بنا کر کابل بھیجا۔ وہ 1923ء تک افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے۔ عبدالرحمان پشاوری اپنے والد غلام حمدانی اور بھائیوں محمد حسین اور یحیٰ خان سے کابل میں دس سال بعد ملے گویا یہ ملاقات یوسف و یعقوب ؑ تھی۔3 نومبر 1923کو عبدالرحمان پشاوری نے کابل چھوڑا اور واپس ترکی چلے گئے۔

اس وقت قسطنطنیہ پر مصطفی کمال پاشا کی حکومت بن چکی تھی۔ مصطفی کمال اور وزیراعظم رؤف بے کے اختلافات کے باعث وزیراعظم نے استعفیٰ دیا۔ عبدالرحمان پشاوری رؤف بے کے ہم خیال تھے۔ حکومت سے علیحدگی پر دونوں قسطنطنیہ چلے گئے۔ وہاں دونوں کی ملاقات مولانا عبیداللہ سندھی سے ہوئی۔ 20 اور 21 مئی 1925ء کی درمیانی رات ان کو رؤف بے سمجھ کر (ان دونوں کی شکلیں ایک جیسی تھیں) ان پر حملہ کیا گیا اور شہید کیے گئے۔

ان کا قتل حسب روایت ایک معمہ ہے جو حل نہ ہو سکا۔ عبدالرحمان پشاوری کو ماچقہ کے قبرستان میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان کے ساتھ اتحاد عالم اسلام کے داعی جمال الدین افغانی کی قبر بھی تھی جو کہ 1937ء میں افغانستان منتقل کئی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کی قبر پر یہ کتبہ کندہ ہے۔ ’’عبدالرحمان غلام صمدانی بے کی روح پر جو جنگ بلقان کے زمانے میں ہلال احمر ہند کے ساتھ استنبول آئے اور جنگ بلقان اور جنگ آزادی ترکی میں ترکی کیلئے اپنا خون بہایا اور 1925ء میں ایک نامعلوم شخص کی طرف سے شہید کردئیے گئے اور افغانستان میں ترکی نمائندہ کی حیثیت سے رہ چکے ہیں۔‘‘

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply