ووٹ کی عزت کیسے ممکن ہے ؟؟۔۔۔۔عبدالغنی محمدی

ملک میں  انتخابی عمل کا تسلسل اور تیسری مرتبہ جیسے کیسے  انتخابات کا ہونا   جمہوری نظام کی چاہت رکھنے والوں کے لیے خوش آئند ہے ، لیکن  کامیاب جماعت کے سوا تقریبا تمام  چھوٹی بڑی   جماعتوں کا نتائج کو مسترد کردیناانتہائی پریشان کن اور ملک کے لیے  نقصان دہ صورتحال کا پیش خیمہ ہے ۔

میرے خیال میں پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں  الیکشن میں دھاندلی   کوئی انہونی   اور انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ یہاں جس جماعت کو بھی کسی بھی طرح حکومت میں آنے کا موقع ملا اس نے اس موقع کو سنہر ی چانس سمجھتے ہوئے کبھی بھی ضائع نہیں کیا ہے ، پاکستان کی ہر جماعت الیکشن کو جنگ سمجھتی ہے جس میں کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں نہ ہی کوئی حدود و قیود ، جس کو جیتنے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا عین عبادت سمجھا جاتاہے ۔جب جمہوری پارٹیاں اپنے مفادات کی  خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں تو انہیں کچھ بھی بھگتنے کو بھی  تیار رہنا چاہیے ، اور جب خود ان کے ہاں کوئی اخلاقی معیارنہیں ہے بلکہ ہر طرح حکومت میں آنا جائز ہے تو تیسری قوت اخلاقیات کی پابند کیسے ہو سکتی ہے ۔ اس الیکشن میں سابقہ الیکشنوں کی طرح نتائج  یاووٹ کاسٹنگ کے عمل پر اثر انداز ہونے کے واقعات ہو رہے ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر دھاندلی الیکشن سے قبل ہوئی جو کہ پریشان اور مایوس کن ہے جس کے نتائج بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور ہور ہے ہیں  ۔

الیکشن سے قبل  ہی امیدواروں اور ووٹروں  کو ہراس کرنے کی مہم ، وفاداریاں تبدیل کروانے کی تحریک  ، عدالت اور نیب کی لٹکتی تلوار اور دیگر اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال بالکل عام رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود جب الیکشن کے نتائج آچکے ہیں تو ان کو تسلیم نہ کرنے کے سوادوسرا راستہ کیا ہے ؟  ماضی میں اس حوالے سے ہمارے تاریخی تجربات کافی تلخ ہیں ۔ سب سے پہلے 71ء کے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کر کے جب ایک جماعت کو اس کا مینڈیٹ نہ دیا گیا تو نتیجہ ملک کی تقسیم کی صورت میں سامنے آیا ۔ اس کے بعد 77  ء میں بھٹو صاحب کی گرفتاری اور پھر پھانسی اور فوجی حکومت کا آجانا بھی الیکشن نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ۔ اگر چہ فوجی حکومتیں اپنی آمد میں کسی  خاص حالات کی محتاج نہیں رہی ہیں ، ان کا جب دل چاہا ہے انہوں نے آئین و قانون سے ماوراء حکومت پر قبضہ کر لیا  ہے ۔ موجودہ وقت میں تمام بڑی پارٹیاں اس تمام صورتحال  کااچھی طرح ادراک رکھتی ہیں  کیونکہ وہ ماضی میں ایسی صورتحال اور تلخ تجربات  کا سامنا کر چکی ہیں ۔ تو کیا وہ ملک کو اسی صورتحال کی طرف لے جانا پسند کریں گی یا الیکشن نتائج کو قبول کرلیں گی ۔

میر ے خیال میں اس الیکشن میں حقیقی معنوں میں اگر کسی جماعت کا نقصان ہو اہے تو وہ ن لیگ ہے ۔ اس کے علاوہ بڑی جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی ہے  جس نے اس الیکشن میں پچھلے الیکشن سے زیادہ نشستیں حاصل کی  ہیں ، زرداری دور کے بعد اس جماعت کا گراف جس قدر گر چکا تھا  اس کے لیے اپنے وجود کی بقاء کی جنگ  لڑنا مشکل ہو چکا تھا ، اس الیکشن میں بلاول کی کوششیں  ، جذبہ او ر جدوجہد قابل تحسین رہا  جس کی بدولت جماعت نے پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں  ۔ تو کیا پھر بھی یہ جماعت نتائج کو تسلیم نہیں کر ےگی ؟

اس جماعت کی موجودہ پوزیشن اور اس میں منجھے ہو ئے  سیاست دانوں کی موجودگی میں ایسا ہونا بہت مشکل ہے ، تازہ صورتحال کے مطابق بلاول  نے احتجاجی صورتحال کی بجائے اسمبلی میں جانے کا اعلان کردیا ہے تاہم نتائج کو مسترد کر نے کے موقف پر وہ ابھی تک قائم ہیں ۔ ن لیگ کی طرف اگر دیکھا جائے جس  کا سب سے زیادہ نقصان ہو ا ہے اور جس کو اس لیکشن سے سب سے زیادہ شکایات  ہیں  تو ان کے سر پر نیب اور عدلیہ کی تلوار لٹک رہی ہے  اور ان کی فوج دشمنی بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی ان حالات میں اس کے لیے یہ راستہ فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتاہے ، لیکن کیا پھر بھی یہ اس طرف جائیں گے ؟

شہباز شریف کی   قیادت سے یہ بعید ہے کہ وہ اس راستے کا انتخاب کریں ، ابھی تک کی صورتحال میں شہباز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں کسی بھی پیش قدمی کے لیے ایک دن کی مہلت مانگ لی ہے ۔ اور اگر ان دو بڑی پارٹیوں نے جو کہ جمہوریت کی بقاء کے لیے کافی قیمت چکا چکی ہیں ، ماضی کو دیکھتے ہوئے اس راستے کو نہ چنا تو مولا فضل الرحمن  بڑی پارٹیوں کے اس راستے میں کودے بغیر اس راستے کا انتخاب  کریں گے ؟   اگر چہ مولانا الیکشن نتائج سے کافی ناراض ہیں کیونکہ ان کی اور مولانا سراج الحق دونوں کی سیٹ چھن گئی ہے  اور پھر دھاندلی کے ساتھ ایک اور بڑا مسئلہ ان کے سب سے بڑے حریف کی حکومت کا بننا ہے جس کو قبول کرلینا واقعی دل گردے کا کام ہے ۔

لیکن اگر حقیقت کی طرف دیکھا جائے تو ایم ایم اے  میں شامل جماعتوں نے بھی اتنی نشستیں حاصل کر ہی لی ہیں جتنی ان کو پچھلی مرتبہ ملی تھیں ۔باقی انہوں نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے خواب دیکھے تھے اور اس کے لیے کافی کام بھی کیا لیکن شاید  یہ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ تحریک انصاف نے بھی  اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے کافی کام کیا ۔ تحریک انصاف نے کے  پی کے  میں چوہدریوں اور وڈیروں کے ساتھ علماء کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا  اور اپنے دور حکومت کے آخری سال میں علماء و مدارس کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے  ۔ ایم ایم اے کے پاس مذہبی کارڈ کے علاوہ کوئی ایسی اٹریکٹو چیز نہیں تھی جس کے ساتھ وہ عوام کو متوجہ کر سکے اور مذہبی کارڈ  میں تحریک لبیک نے ان سے اچھے پتے کھیلے ، سیٹ تو وہ شاید کوئی نہیں لے سکے لیکن مجموعی ووٹ ان سے زیادہ ہے ۔

مولانا جیسی سمجھدار اور سیاسی بصیرت کی مالک شخصیت بڑی جماعتوں کے بغیر احتجاج ، بائیکاٹ اور دھرنوں والی راہ اختیار کرے یہ بہت بعیدہے ۔ اور اگر یہ ایسا کرتے بھی ہیں جیسا کہ شنید ہے تو اس میں بڑی جماعتوں کے بغیر ان کی کامیابی بہت مشکل ہے ۔ اس کے علاوہ باقی چھوٹی جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی قدم اٹھا سکیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمام ہاری جماعتوں کو دھاندلی کے علاوہ اپنے ہارنے کے دیگر اسباب و وجوہات پر بھی غور کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں اپنے حق میں بہتر منصوبہ بندی کر سکیں ۔

مختلف جماعتوں کے ہارنے یا کم سیٹیں لینے کے اسباب پر کسی دوسرے کالم میں روشنی ڈالوں گا ۔تاہم ن لیگ کے کم سیٹیں لینے کے حوالے سے کچھ چیزیں سر دست ذکر کیے دیتاہوں کیونکہ سابقہ الیکشن کے مقابلے میں کسی  جماعت کی حیثیت میں اگر کوئی بڑا فرق پڑا ہے تو وہ ن لیگ ہے ۔ اس جماعت  نے مرکز میں تو اپنی اکثریت کھوئی ہے تخت پنجاب بھی ان سے چھنتا نظر آرہا ہے ، اگر چہ پنجاب میں ان کی جیتی سیٹوں کی تعداد زیادہے لیکن  ان کی حکومت بننے کے چانس بہت کم ہیں ۔ ن لیگ کے کم سیٹیں لینے کی ایک بڑی وجہ تحریک  انصاف کا الیکٹیبلز پر انحصار ہے ۔ اس  انحصار سے تحریک انصاف کی اخلاقی پوزیشن کس قدر متاثرہوئی یہ الگ بحث ہے لیکن لیگی امیدواروں کے مقابلے میں  انہی کے پایے کے امیدوار میدان میں اتار کر تحریک انصاف نے مضبوط مقابلے کی بنیاد رکھ دی تھی ۔ ان امیدواروں میں بہت بڑی اکثریت جہاں دیگر جماعتوں کی تھی وہیں ن لیگ کے بہت سے لوگ تھے، ن لیگ اپنے ان امیدواروں کو سنبھالنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکی ؟ اور ان کی جماعت کی ایک معتد بہ تعداد کیوں تحریک انصاف میں چلی گئی ؟

اس کی واحد وجہ وفاداریاں تبدیل کروانے کا عمل نہیں تھا بلکہ مختلف جگہوں اور سطحوں پر ن لیگ کے اندرونی اختلافات اور ان امیدواروں کو اچھا رسپانس نہ ملنا بھی اس میں شامل ہے ۔ ٹکٹیں نہ ملنے یا دیگر اختلافات کی بناء پر ن لیگ  کو خیر آباد کہنے والے لوگوں  کی ایک بڑی تعداد جہاں پی ٹی آئی میں گئی وہیں آزاد کھڑے ہونے والوں کی تعداد بھی کم نہ تھی ۔ ن لیگ کا جس قدر ووٹ   ہے خاص کر پنجاب کی حد تک  تو اس کو یہ چیزیں عام حالات میں متاثر نہیں کرتی ہیں  لیکن جب حالات کڑے اور مقابلہ سخت ہو تو یہ چیزیں بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں ۔ ن لیگ میں اوپر ی سطح سے لے کر نیچے تک اختلافات کی جو خلیج ہے اس کو کم کرنے اور جماعت کی از سر  نو  ایسی تنظیم سازی کی ضرورت ہے  جس میں کامیاب امیدواروں یا الیکشن میں حصہ لینے والے لوگوں کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی  سپیس ملے ۔ مذہبی معاملات  اور حساس چیزوں میں دخل اندازی دوسرا بڑا سبب ہے جو ن لیگ کی ہار کی وجہ بنا ، تحریک انصاف کی مذہب وابستگی  چونکہ علماء اور عوام  کے ہاں خود مشکوک ہے اس لیے اس کا  کوئی فائدہ تحریک انصاف حاصل نہیں کر سکی تاہم تحریک لبیک  ،  ملی مسلم لیگ  اور دیگر ایسی جماعتوں نے ن لیگ کا کافی نقصان کیا  جس نے تحریک انصاف کے لیے راہ ہموار کردی ۔ تحریک لبیک خاص کر الیکشن نتائج پر حیران کن حد تک اثرا نداز ہوئی ، اس جماعت نے کوئی سیٹ تو نہیں حاصل کی یا شاید ایک سیٹ میری معلومات کی حد تک حاصل کی ہے لیکن ووٹ خاصہ لیا ہے ، بعض جگہوں پر ا س کے امیدواروں نے پچاس ہزار کے لگ بھگ  ووٹ حاصل کیے ۔ ان ووٹوں میں اکثریت ن لیگ  کی تھی ، کیونکہ لوئر اور مڈل کلاس طبقے کے لیے ابھی تک سب سے اٹریکٹو پارٹی ن لیگ ہی ہے ۔

ان جماعتوں کے علاوہ دیگر ایسی مذہبی جماعتیں جنہوں نے ووٹوں میں حصہ نہیں لیا یا دو چار جگہوں سے الیکشن لڑ ا وہ بھی ن لیگ کے خلاف کمر بستہ رہیں ۔ ان کے قائدین کے بیانات اور کارکنوں کا رحجان ن لیگ  کے خلاف ہی رہا ، لیگی قیادت کے لیے اس کے اسباب و وجوہات  پر  غور کرنا از حد ضروری ہے ۔ میرے خیال میں  ن لیگ کا لبر ل ازم اور روشن پسندی کی طرف رحجان اس کی بنیادوں سے میل نہیں کھاتاہے ، ایک اسلامی اتحاد سے پروان چڑھنے والی جماعت اگر بنیادوں سے منہ پھیرے گی تو اس کے اثرات لازمی ظاہر ہوں گے ۔ن لیگ کی سابقہ حکومت بہت حوالوں سے اچھی ر ہی ، اس حکومت میں امن و امان کی  صورت حال بہتر ہوئی ، ملک ایک مرتبہ پھر درست ٹریک پر چڑھنے لگا ، خارجی معاملات میں ہم نے کسی دوسرے ملک کی جنگ نہیں لڑی   ،  ایران  و سعودیہ معاملے میں ہم نیوٹرل رہے ، افغانستان میں کارروائی کرنے سے ہم نے انکار کردیا ، امریکہ کی نسبت چین اور روس کی طرف ہمارا جھکاؤ  بڑھا ، ملک میں سرکاری ملازمتیں ملنا پھر سے شروع ہوگئیں۔

غرض مختلف حوالوں  سے صورتحال اچھی رہی  تاہم قرضوں کی بھرمار اور اکانومی کی دگر گوں صورتحال نے بھی  یقیناً اپنا کام دکھایا  ، خاص کر وہ لوگ جو عمران خان کی جد و جہد کو اچھی نظروں سے دیکھ رہے تھے ان کا یقین ن لیگ سے مزید اٹھا اور عمران خان پر مزید مضبوط ہوا ۔    ن لیگ کے مرکزی قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز پر  کر پشن کے الزامات اور پھر ان کے جیل جانے نے ان کی ساکھ کو کافی متاثر کیا ۔ بلاشبہ نواز شریف یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ یہ جنگ کرپشن کی نہیں بلکہ اختیارات کی ہے تاہم جس طرح ان کی جماعت اپنے قائد کے بیانات پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اس چیز نے موجودہ حالات میں ان کو کافی نقصان پہنچایا ۔  ۔  نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جانے کے  بعد شہباز شریف جو کہ ترقیاتی کاموں میں خاصی شہرت رکھتے ہیں الیکشن کمپین میں خاطر خواہ کامیابی نہ حاصل کر سکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں عوام سے اتنی گزارش کروں گا کہ میاں برادران کا ساتھ دینے والوں کے پیش نظر ان کا کام  ، خدمات  اور نظریات تھے ۔ اب عمران خان کامیاب ہو چکاہے اور میاں صاحب کے نعروں کے مطابق ہمیں ووٹ کو عزت دیتے ہوئے اس کو  بخوشی قبول کر لینا چاہیے ، اگر یہ کام اور عوامی خدمت کے مشن کو آگےبڑھاتاہے ، نظام کو درست کرتاہے  ، ہمارے ملک کے حالات کو بہتر بناتاہے توعوام  نے کسی کا کلمہ نہیں پڑھا ہوا ، عوام اس کو مانیں گے اور ماننا چاہیے بھی  اور اگر یہ بھی خد ا نخواستہ اس میں ناکام ہوتاہے تو اس کا حشر ق لیگ سے مختلف نہیں ہوگا اور پھر ان حالات میں عمرانی کلمہ پڑھنے والے دوست بھی شاید  اس کو ٹھکر ا دیں گے ۔

Facebook Comments

عبدالغنی
پی ایچ ڈی اسکالر پنجاب یونیورسٹی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply