جنسی درندگی۔۔پروفیسر سجاد حیدر

پاکستانی قوم کی بھی کیا قسمت ہے، مسلسل سات دن اگر کسی سانحہ کے بغیر گزر جائیں  ،تو حیرت ہونے لگتی ہے۔ خیر کی خبر کہیں سے بھی نہیں آتی۔ بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ قتل ریپ یا ماورائے عدالت ہلاکتی،ں جو بھی ہو ان کی اہمیت ایک خبر سے زیادہ نہیں، ہم تو وہ ہیں کہ کسی زینب کے قتل کی خبر پڑھ کر اگلے ہی لمحے کسی حریم شاہ سے ٹک ٹاک پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔

ایک سانحہ جو نام اور مقامات بدل بدل کر دہرایا جارہا ہے وہ کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل ہے ،ہر چند دن کے بعد کسی بچے یا بچی کے لاپتہ ہونے کی خبر پھیل جاتی ہے اور کچھ دنوں بعد اس کی نچی پچی لاش کسی ویرانے، کسی کھنڈر یا کسی کنویں سے برآمد ہوتی ہے ،پتہ چلتا  ہے کہ کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار ہوگئی ہے، چند دن تک اخبارات اور میڈیا چینلز کو مواد مل جاتا ہے، خوب گرما گرم بحث ہوتی ہے اپوزیشن اور حکومتی کارندوں میں زور و  شور سے بیانات کا مقابلہ ہوتا ہے ،کبھی ڈارک ویب چینلز کی بات ہوتی ہے، کبھی مدارس پر الزامات عائد کر دیے  جاتے  ہیں ، تو کوئی اسکا ملبہ مغربی تعلیم، ٹی وی اور فلموں پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتا ہے۔ ہر بندہ اپنی مخصوص عینک لگاکر واقعات کا تجزیہ کرتا ہے اور مرضی کے نتائج نکال کر ایسا حل تجویز کرتے ہیں کہ عقل عش عش کر اٹھتی ہے۔

ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ان واقعات کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ کم عمر بچوں کا ریپ اور قتل ایسے بھیانک جرائم ہیں کہ سن کر، سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو  آنے لگتا ہے۔ وہ بچے یا بچیاں کس کرب سے گزرے ہوں گے، کس کس انداز میں اپنے پیاروں کو نہیں پکارا ہوگا، مجرم اور قاتل کیا اندھے بہرے ہوتے ہیں ،کیا جنس کا جذبہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ کسی کی فریاد سنتا ہے اور نہ ہی کسی پر رحم کھاتا ہے۔۔ ان تمام واقعات و سانحات کا جائزہ لینا اور ان کا تجزیہ کرنا، اس کے نفسیاتی سماجی اور قانونی پہلوؤ ں کا جائزہ لینا حکومتی اور غیر سرکاری اداروں پر واجب ہے۔

اس وقت موضوع کم عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس ہیں ، جن کو ہمارا معاشرہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا ہے، نہ تو قانون اور نہ ہی معاشرہ ان معاملات میں حساسیت دکھاتا ہے ،بلکہ اسے ایک سماجی برائی سمجھ کر برداشت کرتا ہے۔ بہت سے علاقوں کی وجہ شہرت ہی ان مشاغل کی  بہتات  ہے۔ جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا  میں اس علت کے شائق کھلے بندوں اس پر فخر کرتے ہیں۔ لطائف اور جگتوں میں بہت واضح طور پر اعتراف کیا جاتا ہے۔

اگر گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے ہاں پائے جانے والی   علت معروف معنوں میں ہم جنس پرستی نہیں، کیونکہ ہم جنس پرستی میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی اور دونوں فریق ایک دوسرے کی قربت سے حظ اٹھا تے ہیں، لیکن ہمارے ہاں پائی جانے والی علت میں صرف شکاری حظ اٹھاتا ہے اور شکار صرف ذلت اور شرمندگی۔ کئی کیسوں میں پیڈوفیلیا سے مشابہت نظر  آتی ہے، لیکن سارے کیسز پیڈوفیلیا کے نہیں ہیں۔ اسے کہیں علت کہا جاتا ہے تو کہیں شوق ،اس بیماری کے مریض بے ریش بچوں میں وہی کشش محسوس کرتے ہیں جو عورت سے مخصوص ہے ،یہ ان بچوں کی قربت سے حظ اٹھاتے ہیں  ۔ مقصد جنسی تسکین ہوتا ہے ،جب عورت میسر نہیں ہوتی تو بچے اور اگر لڑکوں تک بھی رسائی نہ ہو تو ایسے مریض جانوروں کو استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔

کچھ عرصہ پہلے تک یہ تصور عام تھا کہ جن علاقوں یا معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط کو معیوب سمجھا جاتا ہے، وہاں  پر ہی ایسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اگر فطری طریقے  سے جذبات و خواہشات کی تشفی نہ ہو تو پھر غیر فطری طریقہ رواج پاتا ہے لیکن اب ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ایسے واقعات سے بچا ہو،  جنسی زیادتی کے شکار ہوٹلوں میں کام کرنے والے چھوٹے اور ورکشاپوں میں کام سیکھنے والے بچے ہوتے ہیں، ظالم کبھی کام سکھانے والا استاد ہے اور کبھی بڑی عمر کا لڑکا ،لیکن ایسے واقعات  کیونکہ رپورٹ نہیں ہوتے، لہذا سب نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ان بچوں کا سماجی پسِ  منظر چونکہ کمزور ہوتا ہے لہذا ان کی شکایات  سُنی جاتی ہیں ،نہ درج کی جاتی ہیں ۔۔ لیکن مدارس اور سکولوں میں ایسے واقعات فوراً  توجہ کھینچ لیتے ہیں۔

ایک وجہ جو شاید بہت سے دوستوں کو مضحکہ خیز اور فضول لگے لیکن یہ کافی حد تک درست ہے کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی نظریاتی کشمکش کی موجودگی فورا ً ان واقعات کو پھیلانے کا سبب ہے ،اگر مدرسے  میں ایسے کسی واقعے کی خبر ملے تو مذہب مخالف اور مدارس سے بیزار حضرات فورا ً اسے لے اڑتے ہیں اور سب سے پہلا مطالبہ تمام مدارس کی بندش ہے ،اسی طرح اگر کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں ایسا واقعہ رپورٹ ہو تو مذہبی طبقہ اور مولانا حضرات کی چاندی ہوجاتی  ہے ،ان واقعات کی  آڑ میں دل کے پھپھولے پھوڑے جاتے ہیں ۔ پہلی صورت میں قابل رحم حالت مذہب کی ہوتی ہے ، دوسری صورت میں لبرل ازم، سیکولرازم اور سوشلزم کو گالیوں دی جاتی ہیں ،اصلاح احوال کسی کو مقصود نہیں ہوتا ،بس دھڑے بندی کو فروغ دینا مطمع نظر ہوتا ہے۔

بادی نظر میں سکولوں اور مدارس میں ایسے گھناؤنے واقعات کی وجہ بظاہر کم عمر بچوں کی موجودگی ہے۔ چھ سال سے لے کر چودہ سال کے بچے ایسے افراد کا شکار ہوتے ہیں ۔ معاشی اور معاشرتی جبر کا شکار معاشرے میں بچے اپنے والدین کے ساتھ کھل کر بات نہیں کر سکتے، نہ ان کو اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ غلط حرکات کام کرنے والے شکاری اپنے شکار کو کیسے پھانستے ہیں، شکاری ان بچوں کو کبھی لالچ، تحریص و ترغیب اور کبھی خوف دِلا کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ یہ ناسمجھ بچے بڑی آسانی سے ان کے دام میں آ جاتے ہیں۔

ایک سوال جو اکثر کیا جاتا ہے کہ سکولوں کے مقابلے میں مدارس میں ایسے واقعات کی تعداد اتنی زیادہ کیوں ہے ؟۔۔اس کا جواب بڑا سادہ ہے  سکول میں بچہ صرف چھ گھنٹوں تک دن کی روشنی میں جاتا ہے ،والدین چھوڑ کر آتے ہیں واپسی پر لینے بھی جاتے ہیں، یعنی اگر کوئی ذہنی مریض ایسی جگہوں پر موجود ہے تو اسے بہت کم مواقع ملتے ہیں۔ لیکن دیہاتی سکولوں میں ایسے  واقعات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ،مدارس میں بچے وہاں رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کا کھانا پینا اور رہائش مدرسہ کے ذمہ ہوتا ہے ،لامحالہ مدرسہ کے منتظمین اور اساتذہ پر بچوں کا انحصار ہوتا ہے۔ یہاں رہائش پذیر بچے بہت کمزور معاشی پس منظر رکھنے والے والدین کی اولاد ہوتے ہیں، جن کے لیے بغیر فیس کے بچوں کی تعلیم نعمتِ  غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی، کیونکہ یہ بچے مستقل طور پر ان مدارس کے  رہائشی ہوتے ہیں, ان کا مکمل انحصار منتظمین اور اساتذہ پر ہوتا ہے ،ایسے میں ان بچوں کا بلیک میل ہو جانا مشکل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف بہت سے مدارس میں مدرسین غیر شادی شدہ یا شادی شدہ ہونے کی صورت میں بھی اپنے خاندان سے دور رہ رہے ہوتے ہیں، تو نفس کو کھل کھیلنے کا پورا موقع ملتا ہے۔

نہ تو ان واقعات کی موجودگی سے انکار کرنا جائز ہے اور نہ ہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا مناسب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان واقعات کے سدباب کے لیے مدارس کے منتظمین سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہر وہ چور دروازہ بند کر دیں جہاں سے فتنہ سر اٹھاتا ہے، اسی طرح بورڈنگ ہاؤسز میں بھی ضروری اقدامات کیے جائیں۔ دوسری طرف حکومت کا یہ فرض ہے کہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے مدارس کی مکمل اعانت کی جائے ،نا صرف مال بلکہ تکنیکی معاونت بھی فراہم کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply