• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دو سال میں ایک لاکھ دماغ باہر چلے گئے۔۔یاسر پیرزادہ

دو سال میں ایک لاکھ دماغ باہر چلے گئے۔۔یاسر پیرزادہ

نئے سال کا پہلا اتوار۔ بہت ہی سرد۔

کراچی والوں کو بھی کمبل۔ سوئٹر۔ گرم سوٹ نکالنا پڑ گئے ہیں۔

آپ سب کو مبارک ہو۔ سب ایک صفحے پر ہیں۔ پہلے صرف حکومت اور فوج تھی۔ اب اپوزیشن بھی آکھڑی ہوئی ہے۔ اللہ کرے یہ ہم خیالی اس قوم کے لیے اچھی خبریں لے کر آئے۔ یہ صفحہ ان سب کا بوجھ سنبھال سکے۔

آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں کے ساتھ ہم خیالی کا دن۔ آج اگر بچے سوال کریں کہ ایک دوسرے کے بدترین مخالف، سلیکٹڈ کا طعنہ دینے والے، نیتوں پر شک کرنے والے، کیوں ہم خیال ہو گئے ہیں تو بہت سی تاویلیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے فردوس عاشق اعوان کے خیالات عالیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے نئے سال کے پہلے روز ہی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے۔

اس پر Date of Expiryبعد میں لکھی جائے گی۔ بہرحال بچوں کے سوال کے جواب میں یہی کہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ سب سے مضبوط دلیل تو یہ ہو سکتی ہے کہ بھارت کے بھیانک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے پاکستانی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ضروری تھا۔

سابق چیف جسٹس نے تو یہ کہا تھا کہ 2007کے بعد عدلیہ پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ تحریک انصاف 2018ء سے پہلے والی نہیں رہی۔

پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء سے پہلے والی نہیں رہی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) 2020ء سے پہلے والی نہیں رہی۔ ایم کیو ایم بھی 22اگست سے پہلے والی نہیں رہی۔ جے یو آئی بھی دھرنے سے پہلے والی نہیں رہی۔ فوج بھی 2008ء سے پہلے والی نہیں رہی۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

اس نظم کا پہلا شہر بھی حسب حال ہے:

قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو

مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو

لیکن یہ سب بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ۔ ہم چھوٹوں کو اس سے کیا لینا دینا:

عشق کا کام بیسوا جانیں

ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں

مجھے ان اعداد و شمار نے غم و اندوہ میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ہمارے ہاں سے فرار ذہانت ہو رہا ہے۔ روشن ذہن ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بس اسی لیے آپ سے بار بار منت سماجت کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کو وقت دیں۔ اتوار اور ممکن ہو تو ہفتہ بھی ان کے ساتھ گزاریں۔

ان کے سوالات سنیں۔ ان کے ذہنوں میں جھانکیں۔ عصر کے بعد محلے والوں سے بھی ملیں۔ جب سے ہم نے گھر داری اور محلے داری چھوڑی ہے، ہم اپنی ہی گلی کے لیے اجنبی ہو گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی اصل کائنات آپ کا گھر اور آپ کی گلی ہے۔ اس گلی کے پیڑ آپ کو سایہ دیتے ہیں، آپ کو پہچانتے ہیں۔ اس گلی کے دریچے، در و بام اور منڈیریں آپ کا منظر نامہ ہیں۔

شہر، صوبہ، مملکت اور دنیا اسی گلی کی بنیاد پر ہیں۔ ملّی اور آفاقی نظریات اسی وقت اچھے لگتے ہیں جب آپ کے قدم گلی اور گھر میں پوری طرح جمے ہوئے ہیں۔

آپ نے سنا کہ بیورو آف امیگریشن (محکمۂ تارکین وطن) کہہ رہا ہے کہ 2018اور 2019کے درمیان آٹھ لاکھ چوراسی ہزار تعلیم یافتہ پاکستانی بیٹے بیٹیاں وطن سے سمندر پار اجنبی دیسوں کے لیے سدھار گئے۔ آخر کیا اسباب تھے۔ ان کے خواب کس نے منتشر کیے کہ وہ اپنے ماں باپ، اپنے گھر، گلی اور بزرگوں کی قبریں چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

انہوں نے جو تعلیم حاصل کی، جو تربیت پائی، وہ اس وطن کے کام کیوں نہیں آئی۔ ابھی کراچی یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں 200سے زیادہ نے ڈاکٹریٹ کی اسناد لیں۔ کئی ہزار نے ماسٹرز کیا۔ ایم ایس بھی۔ ان میں سے نجانے کتنے رخت سفر تیار کیے ہوئے ہوں گے۔

پی پی پی نے کتنی باریاں لیں، مسلم لیگ (ن) نے، اب تحریک انصاف ہے۔ فوج نے کئی بار براہِ راست حکومت کی۔ ترکِ وطن ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ہم ایسا ماحول کیوں پیدا نہ کر سکے کہ ہماری اولادیں یہاں سے جانے کا سوچیں ہی ناں۔ لیکن ہمارے تو سیاسی سربراہ سابق فوجی سربراہ بھی بیرونِ ملک مقیم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

لندن سے سیاسی پارٹیاں چلائی جاتی ہیں۔ ان لیڈروں کو پاکستانیوں کے ترکِ وطن کا غم کیوں ہوگا۔

سندھ گریجویٹس ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر سلمان شیخ نے مجھے یہ لرزا دینے والے اعداد و شمار بتائے۔ وہ بھی دردمند پاکستانی ہیں۔ انہیں بھی بہت دُکھ ہے۔ ان تارکین میں دس ہزار انجینئرز ہیں۔ 9500اکائونٹنٹ۔ 25ہزار الیکٹریشن۔3000 اساتذہ۔ 500نرسیں۔ 2500فارمسٹ۔ 13000زرعی ٹیکنیشین۔ 17000اعلیٰ تربیت یافتہ۔ 29000اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ 34000محنت کش۔ 2018میں 3لاکھ گئے۔ 2019میں یہ تعداد 5لاکھ ہوگئی۔ عمران خان بھی نوجوانوں کو تحفظ اور میرٹ کا یقین نہ دلا سکے۔

2020میں کیا ہوگا۔ اندازہ کر لیں۔ ان میں سے زیادہ تر سعودی عرب جاتے ہیں۔ ملائیشیا اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب میں یہی پاکستانی ہماری کمزوری بن گئے تھے۔

سب سے زیادہ مایوسی انجینئرز میں ہے۔ ان کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ ساٹھ ہزار انجینئرز بیروزگار ہیں۔

یہ سارے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ کیا کسی قومی سیاسی پارٹی نے ذہانت کے اس انخلا پر تشویش ظاہر کی۔ کسی کے منشور میں ہے کہ ذہنوں کے ترکِ وطن کو روکنے کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہئیں۔

بیورو کے مطابق اب تک ایک کروڑ کے قریب تعلیم یافتہ، ہُنر مند، محنت کش اپنی صلاحیتیں، توانائیاں غیر ممالک کی ترقی کی نذر کر رہے ہیں۔ کیا یہ صورتحال لائق تشویش ہے یا نہیں۔ اس ترکِ وطن سے پاکستان کا سماجی شیرازہ بکھر رہا ہے۔ بزرگوں کے آخری دن بے چارگی میں گزر رہے ہیں۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply