انسانی ہجرت: پس منظر و پیش منظر ۔۔۔ساجد خاکوانی

(20جون:اقوام متحدہ کے عالمی یوم مہاجرین پر خصوصی تحریر)

ہجرت وہ عظیم عمل ہے جو کل انبیاء علیھم السلام کی سنت ہے۔ پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محسن انسانیت ﷺ تک ہر نبی نے ہجرت کی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے زمین پر ہجرت کی، حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی پر بیٹھ کر اس وقت اپنے علاقے سے ہجرت کی جب پانی کے طوفان نے عذاب کی صورت اختیار کر لی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی، حضرت موسی علیہ السلام نے مصر سے کنعان کی طرف اور پھر کنعان سے مصر کی طرف اور پھر اپنی قوم کے ساتھ مصر سے صحرائے سینا کی طرف ہجرت کی، حضرت عیسی علیہ السلام نے زمین سے آسمان کی طرف ہجرت کی اور قرب قیامت میں وہ پھر آسمان سے زمین کی طرف تشریف لائیں گے اور محسن انسانیت ﷺ نے مکۃ المکرمۃ سے مدینہ منورۃ کی طرف تاریخ ساز ہجرت کر کے انسانی دھاروں کا رخ موڑ دیا۔ اتنے بڑے بڑے لوگ محض چند سکوں کی خاطریاکسی سیاسی و خاندانی مفاد کے لیے یاکسی عورت کی محبت میں اپناعلاقہ نہیں چھوڑتے تھے بلکہ انبیاء علیہم السلام کی ہجرت ایک بہت بڑے مقصد اقامت دین کی خاطر ہواکرتی تھی اور اس دین اسلام میں اقامت میں اور اسکے نظام کے نفاذ میں ہی پوری انسانیت کی فلاح وکامرانی پوشیدہ ہے خواہ کوئی انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات کو مانے یا نہ مانے۔

قبیلہ بنی آدم میں ایک عرصہ سے بلکہ اس قبیلے کی تاسیس سے ہی ہجرت کا عمل جاری ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں جتنے افرار سوار تھے ان میں سے کسی کی نسل بھی آگے نہ چلی، اور حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو افریقہ بھیجاکالے اسی بیٹے کی نسل سے ہیں، ایک بیٹے کو انہوں نے یورپ کے علاقے میں بھیج دیا، گورے اس کی نسل سے ہیں، ایک بیٹا ہندوستان کی سرزمین پر وارد ہوا اسکے پوتوں پڑپوتوں میں سے دو بھائی تھے ایک کانام ہند اور دوسرے کانام سندھ تھا، گندمی رنگ کے لوگ انہیں کی نسل سے ہیں اورایک بیٹے کو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے پاس مشرق وسطی میں رکھاجس کی قریبی نسل سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جنم لیاجن کے ایک بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام کی نسل سے عرب ہیں اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کی نسل سے بنی اسرائیل ہیں۔ اس طرح حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہاجاتاہے کیونکہ موجودہ کل انسانیت انہیں کی نسل سے ہے اور نسل انسانی کی بڑھوتری ہجرت کے سبب سے ہی ممکن ہو سکی اور عمل ہجرت سے انسانوں کے قبائل دنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے اور ایسی ایسی جگہ پہنچے جہاں اس سے پہلے انسانوں کے قدم نہیں پہنچے تھے۔

ہجرت کے اگر چہ بہت فوائد ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت بڑا فائدہ نئے شہروں کی آبادکاری ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایاجس کا مفہوم ہے کہ شہروں کو بڑھانے کی بجائے نئے شہر آبادکرو۔ شہروں میں آبادی کے بڑھنے سے بہت سی خرافات پیدا ہوتی ہیں، آلودگی کا مسئلہ جنم لیتاہے، فی کس جگہ کم پڑنے لگتی ہے، نسلوں اور قرنوں سے رہنے والے اس علاقے کواپنی جاگیر سمجھ کر اس میں من مانیاں کرنے لگتے ہیں، نئے آنے والوں کے لیے ماحول میں بسنا مشکل کر دیا جاتاہے، روزگار کے مواقع کم پڑنے لگتے ہیں اوربدمعاشی، جگہ گیری، سکہ بندی وغیرہ کے باعث پرانی آبادیاں گھٹن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ نئے شہر وں کی آبادکاری سے ہجرت کا رجحان بڑھتاہے، نئے نئے آباد ہونے والے لوگ دبے دبے سے رہتے ہیں اور شرافت اور بھلے مانسی کا دوردورہ رہتاہے۔ نئے شہروں کی آبادکاری سے روزگار لے بے پناہ مواقع میسر آتے ہیں پورے شہر کی تعمیر کئی سالوں پر اور بے شمار وسائل پر مبنی منصوبہ ہوتا ہے جس میں سے ایک بہت بڑا حصہ غریبوں تک بھی منتقل ہوتا ہے۔ جائداد کی خریدوفروخت اورتعمیراتی کاموں کی کثرت سے ارتکازدولت کی جگہ گردش دولت جنم لیتی ہے اور معاشی سرگرمیوں کے باعث دولت کی ریل پیل اور معاشی خوشحالی آنے لگتی ہے۔ ماضی میں مغلوں سے لے کر انگریزوں تک نے کئی نئے شہر آباد کیے خاص طور پر ریلوے لائین کے باعث کتنے ہی چھوٹے بڑے نئے شہر آباد ہوئے اور بڑے شہروں سے آبادی کا بہت بڑا حصہ ہجرت کر کے تونئی آبادیوں میں منتقل ہوا۔ ہجرت کے باب میں اسلام نے نئی روایات کوجنم دیا اور ہجرت مدینہ سے تحریک پاکستان تک مقامی مسلمانوں نے آنے والوں کو اپنا مہمان سمجھااور انہیں صرف اپنے مقامات پر ہی نہیں بلکہ اپنے دلوں میں بھی کھلی جگہ عطا کی۔ ماضی قریب میں افغان بحران میں جب لاکھوں مہاجرین پاکستان کی سرحدوں پر آن بیٹھے تو پاکستانی  قوم نے ایک تاریخ ساز کرداراداکر کے انکی دل جوئی کی اور یہ عمل اس وقت بھی دہرایاگیا جب شمالی علاقوں میں زلزلہ  کے باعث ایک بار پھر بے شمار مہاجرین اور متاثرین قریب کے شہری علاقوں میں خیمہ بستیوں میں آن آباد ہوئے تب بھی  اس قوم نے تاریخ ساز وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا اپنے وسائل ان مجبور مہاجرین کے لیے کھول دیے۔

انسانی قبائل صدیوں سے ہجرت کرتے چلے آرہے ہیں۔ جن جن مشہور اور تاریخ کا رخ بدلنے والی اقوام کے بارے میں مورخ قلم اٹھاتے ہیں ان کی پشت پرجنگ و جدل، تجارت، زراعت اور اقتدار کی خاطر صدیوں سے مسلسل ہجرت کے واقعات بھرے پڑے ہوتے ہیں اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہجرت سے قوموں کے اذہان وسعت پزیر رہتے ہیں، انکی نظر میں گہرائی اور گیرائی درآتی ہے، نئے سے نئے علاقوں کی دریافت اور نت نئے لوگوں سے میل ملاقات کے عناصرانکی مشاہدانہ قوت میں اضافہ کرتے ہیں، انکی روایات میں روزبروز ارتقاء کاعمل جاری رہتاہے اورجس قوم کی زندگی میں ہجرت جتنی زیادہ کارفرماہوتی ہے اسکا تہذیب اور اسکا تمدن اتنا ہی زیادہ تاریخ ساز ہوتاہے۔ اس کے برعکس اپنے علاقے، اپنی زمین، اپنی مٹی اور اپنی وادیوں کی پوجا کی حد تک پرستش کرنے والی اقوام بالآخرغلامی کی قبیح گود میں جا گرتی ہیں۔ جو اقوام ہجرت سے گھبراتی اور اپنے وطن کی قربانی سے دریغ کرتی ہیں وہ بہت جلد تاریخ کے صفحات میں دفن ہوکرماضی کا قصہ بن جاتی ہیں۔ اپنے دیس کوماں کا درجہ دینے والے گروہ دنیاکی اقوام کے شانہ بشانہ کبھی نہیں چل پاتے، ان سے قوت فیصلہ چھن جاتی ہے، دوراندیشی سے محروم کر دیے جاتے ہیں،  ذلت و پسماندگی ہمیشہ ان کا مقدر رہتی ہے، باہمی نزاعات ان میں گھر کر لیتے ہیں اور دیگر اقوام انہیں نوالہ تر سمجھنے لگتی ہیں یہاں تک کہ یاتو وہ اپنا وطیرہ تبدیل کر لینے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیے جاتے ہیں۔

ماضی قریب سے دنیاکی اقوام کو مجوراََہجرت کرنا پڑ رہی ہے، بڑی اقوام نے چھوٹی قوموں کو دستر خوان سمجھ لیاہے اور آئے دن ان کی افواج اپنے کل عسکری سازوسامان سمیت چھوٹی قوموں پر چڑھ دوڑتی ہیں، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ یہ سب کچھ انسانیت کے نام پر ہوتا ہے اور یوں جھوٹ بول بول کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ آج کی مجبور ہجرت سیکولرمغربی تہذیب کے مکروہ تحفوں میں سے ایک ہے جو اس نے انسانیت کو دیے ہیں۔ مغربی تہذیب کے عسکری و سیاسی ہتھکنڈوں کے باعث لوگ اپنے ہنستے بستے گھرانے، لہلہاتی فصلیں، جمے جمائے کاروباراورچرتے چگتے جانور چھوڑ کر تو خیموں میں آن بستے ہیں۔ انقلاب فرانس سے بالشویک انقلاب تک اورتقسیم ہند سے سے لے کر تقسیم فلسطین تک اور سقوط غرناطہ سے لے کر سقوط ماسکو تک اور اس کے بعد سے آج دن تک اس تہذیب کے عروج کے ایام عالم انسانیت کو بہت مہنگے پڑ رہے ہیں۔ اس سیکولرتہذیب سے قبل بھی متعدد تہذیبیں اس دنیاسے گزریں ہیں لیکن کذب و نفاق کے جو ڈھونگ اس سیکولرمغربی تہذیب نے رچائے ہیں ان کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔

مہاجرین کی مدد کے لیے یورپی ممالک کے ہاں باقائدہ سے فنڈ مختص کیے جاتے ہیں، انکی دیکھ بھال کے لیے کمشنر تعینات کیے جاتے ہیں، ان پر روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ کے حساب سے اخراجات کی باقائدہ مدات اور پھر ان کا حساب رکھاجاتا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی مہاجرین کے بارے میں اپنی ایک مکمل منصو بہ بندی رکھتا ہے، یورپی ممالک اور اقوام متحدہ کے نمائندے مہاجرین کے کیمپوں کے دورے بھی کرتے ہیں انکے مسائل سنتے ہیں اور انکے مداوہ کے وعدے بھی کرتے ہیں لیکن یہ سب دکھانے کے ہی دانت ہیں اگر بنظر غائر دیکھاجائے تو اس ہجرت کے پیچھے بھی دراصل انہیں ممالک کی سازشیں کارفرما ہوتی ہیں اور انہیں پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکی اس منصوبہ بندی کے نتیجے میں اتنے اور اتنے لوگ اس اس علاقے سے فلاں فلاں علاقے کی طرف ہجرت کر جائیں گے۔

گویا جوتاچھوٹاہونے پر پاؤں کاٹ لیے جاتے ہیں تاکہ جوتے میں پیرسماجائیں، بجائے اس کے کہ اصل مسئلہ پر توجہ دے کر اسے حل کرلیاجائے تاکہ انسانوں کے لیے مشکلات ختم ہوجائیں اس کی بجائے مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے اس کے اثرات بد پر اپنی دکان چمکائی جاتی ہے یہ کردار ہے سیکولرازم کے پیکر کا۔ ان لوگوں پر قرآن مجید نے بہت پہلے تبصرہ کر دیا تھا جس کا مفہوم ہے کہ جن لوگوں کے لیے تم اس قدر مشقت اٹھا رہے ہو ان کا گھروں سے نکالنا ہی تمہارے لیے منع کر دیا گیا تھاپھر کیاتم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہواور ایک کا انکار کرتے ہو۔ یہ کھلا تضاد اور دوعملی ہے کہ ایک طرف انسانوں کو انکے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دینا اور دوسری طرف پھر انکی مشکلات پر قابو پانے کے لیے انکی آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں بے وقوف بنانا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply