25 فروری کو تقریباً ایک بجے کے قریب اچھرہ میں ایک واقعہ ہوا ،جس کے بعد سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنتے رہے اور باتیں ہوتی رہیں ،اس واقعے پر بہت سے سوشل میڈیا اسٹارز نے بھی پوسٹس کیں لیکن ڈھونڈنے سے بھی مجھے ایسی پوسٹس نہیں ملیں جن میں اس واقعے کے محرکات کی بات کی گئی ہو ،یا اس کا سدِباب بتانے کی کوشش کی گئی ہو ۔ہر ذی شعور شخص کے نزدیک یہ مذموم عمل تھا اور ہر شخص نے اس کے خلاف آواز اٹھائی لیکن آواز اٹھانے کا طریقہ کار مجھے اتنا قابلِ عمل نہیں لگا ۔دراصل جس انداز سے ایک طرف سے ٹرولنگ اور حقارت آمیز رویہ رکھا گیا اسی طرح سے دوسری طرف سے بھی ،پھر بتائیے کہ معاشرے میں کیا مثبت رویہ پروان چڑھا ؟۔حالات تو پہلے سے بھی ابتر ہوگئے ،سوشل پولرائزیشن تو مزید بڑھی ۔ایک طرف سے انتہا پسندی دکھائی گئی تو دوسری طرف سے بھی صرف ٹرولنگ ۔یہاں پر جو نوجوان اپنے شعور کی منزلیں طے کررہے ہیں انہوں نے تو فقط بدتمیزی اور مخالف نقطہء نظر رکھنے والے کے چیتھڑے اڑانے کا سبق حاصل کیا ناں ۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمیں مُلاء ازم نامی شدت پسندی نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس مُلاء ازم والے تصور کو بھی دراصل مختلف ریاستی مقاصد کے حصول کےلئے وقتاً فوقتاً استعمال کیا گیا ہے اور تاحال استعمال کیا جارہا ہے ۔مختلف سیاسی و غیر سیاسی کرداروں نے مختلف ادوار میں اسلام کا استعمال کیا اور یہ جن واقعات کی کڑی ہم ملانا چاہ رہے ہیں اس میں بھی یہی وجوہات ہیں ۔
آپ مارچ کے مہینے اور تازہ واقعات کو اپنے ذہن میں رکھیے اور پھر بتائیے کہ اس Social Unrest کا فائدہ کس کو ہوگا ؟سوائے دہائیوں سے ہمیں کنٹرول کرتی اسٹیبلشمنٹ کے ۔اسٹیبلشمنٹ ہم پر تب تک قابض ہے جب تک معاشرے میں یہ تقسیم در تقسیم موجود ہے ۔اس لئے صاحب بہادر کبھی اسلام کو خطرے میں ڈال کر ہمیں لڑاتے ہیں اور کبھی ریاست کو خطرے میں ڈال کر لیکن حقیقت تو حبیب جالب صاحب کافی سال پہلے کہہ گئے تھے
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
میری سیاسی سمجھ بوجھ کے مطابق اس حالت کے ذمہ دار زرداروں سے زیادہ کوئی اور ہیں اور انہوں نے زرداروں وغیرہ کو فرنٹ مین بنایا ہوا ہے صرف ۔میرے نزدیک تو یہ عسکریت بھی ایک فرنٹ مین ہے اور اصل کردار وہ چند سرمایہ دارانہ نام ہیں جو ان سب کو درجہ بدرجہ کنٹرول کررہے ہیں ۔
لیکن جو بھی ہو ہمیں معاشرتی سطح پر اگر شعور پھیلانا ہے اور ملک کی حالت پر قابو پانا ہے تو ہمیں اپنے انداز و اطوار کو ازسرِنو ترتیب دینا پڑے گا ،مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے اسلام کے دعویدار بھائی محبت سے عاری ہیں اور شدت پسندی کے قائل ہیں۔حالانکہ اسلام کی روح ایسی نہیں ہے یا ہم نے اسلام کو اپنے مذموم عزائم کےلئے اتنا استعمال کیا ہے کہ ہمیں اس کی Essence سے زیادہ اس کے Outcomes نظر آتے ہیں جن سے ہم لوگوں کو مزید منحرف کررہے ہیں ۔یہاں سوال تو بنتا ہے کہ
؏۔ نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں
دوسری طرف وہ طبقہ جنہیں Enlightened Segment of the Society گردانتے ہیں انہوں نے بھی سوائے ٹرولنگ ،Bashing اور Bullying کے کوئی مثبت اثرات چھوڑنے کی کوشش نہیں کی ،سوائے چند افراد کے باقی سب نے صرف اور صرف مزید نفرت ابھاری اور معاشرے میں تقسیم میں اپنا حصہ ڈالا ۔وہ طبقہ جنہیں خود کو امن کا سفیر بنا کر پیش کرنا چاہیے تھا اگر وہ بھی فکری و نظریاتی طور پر اتنا ہی مضبوط ہیں تو پھر ہمیں ایک عام اَن پڑھ اور متوسط طبقے سے کیسا گلہ ؟
جن کا Social Exposure بہت زیادہ ہے اگر وہ ہی فکری طور پر بونے نکلیں گے تو پھر ہمیں اَن پڑھ لوگوں کے کوتاہ قد ہونے کا گلہ کیسا کہ جنہیں شعور ملا ہے اگر وہ بھی اس کو نہیں بانٹ رہے تو ہمیں لاعلم اور لاابالی پن والے ان لوگوں سے کیسی شکایت بھلا ؟
اگر اس سب واقعے کے محرکات ہمیں مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی لگتے ہیں تو اس کے ردِعمل میں شدت پسندی کی بجائے ہمیں معتدل سوچ بھی پیش کرنی ہوگی جس سے لوگ متاثر ہوں نہ کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر ہم محبت و رواداری پھیلانے کے عَلم بردار بن جائیں۔ہمیں ریاستی اور انفرادی سطح پر مذہب کو شخصی معاملہ قرار دینا ہوگا اور ایک دوسرے کی زندگی میں دخل اندازی اور فیصلہ دینے سے گریز کرنا ہوگا تاکہ یہ سب تھم جائے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں