ریاضی مخالف ذہنیت کیوں؟/فرزانہ افضل

ریاضی کے مضمون کو خشک ترین مضامین میں شمار کیا جاتا ہے۔ ریاضی کے بارے میں ایک طرح سے یہ گلوبل مائنڈ سیٹ ہے جو شاید ہمیشہ سے چلا  آ رہا ہے۔ ریاضی یعنی میتھمیٹکس، حساب اور الجبرا کے مضمون کو مشکل سمجھنے کا رویہ ایسا ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے ۔ یہ مسئلہ صرف ساؤتھ ایشین ملکوں کے طلباوطالبات میں ہی نہیں بلکہ یوکے ، یورپ اور دنیا کے بہت سے دیگر  ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔

‏ اسٹوڈنٹس کا ریاضی میں کمزور ہونا یا کم دلچسپی رکھنا ایک ایسا امر ہے جسے سوسائٹی نے قبول کرلیا ہے کہ چونکہ یہ ایک مشکل اور خشک سبجیکٹ ہے لہذا اس میں کمزور ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ ہمارے ملکوں میں اکثر بچوں کو انکے والدین امتحانات کے نزدیک ریاضی ، انگریزی اور سائنس کی ٹیوشن لگا دیتے ہیں۔ مگر گزشتہ کئی برس سے ٹیوشن سینٹر اور اکیڈمیز کا رواج عام ہو گیا ہے بلکہ یہ گلی گلی اور ہر محلے میں کھل گئے ہیں۔ اور بچے پورا ہفتہ اسکول کے بعد وہاں پر ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں پرائیویٹ ٹیوشنز بہت مہنگی ہوتی ہیں جس کا ہر خاندان متحمل نہیں ہو سکتا۔

برطانیہ میں ریاضی کا مضمون سولہ سال کی عمر تک یعنی جی سی ایس ای تک سکولوں میں لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ مگر اے لیول میں سبجیکٹس کی آپشنز موجود ہوتی ہیں۔ یوں تو یہاں پر تعلیمی معیار کافی بہتر ہے مگر اس کے باوجود بھی برطانوی سوسائٹی ریاضی مخالف ذہنیت کا شکار ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سناک نے یوکے میں اس قسم کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یہ اینٹی میتھس مائنڈ سیٹ معیشت کو بہت نقصان دے رہا ہے۔ اور انہوں نے اسے ایک موروثی ریاضی مخالف ذہنیت قرار دیا ہے جو حساب کی تعلیم کو بہتر بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہی ہے،اور یہ کہ اعداد کے علم کو بنیادی مہارت کے طور پر سمجھنے میں ناکامی کی وجہ سے برطانیہ کی معیشت کو بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ریاضی مخالفت ذہنیت کو بدلنا ہوگا۔ جی سی ایس ای کے رزلٹ میں بہت سے طلبہ و طالبات میتھس میں کم گریڈز حاصل کرتے ہیں۔ رشی سناک نے کہا کہ ہمیں میتھس کو خصوصی اہمیت دینا ہوگی جس طرح پڑھنا لکھنا آنا ضروری ہے اسی طرح اعدادوشمار میں مہارت حاصل کرنا ایک بنیادی ہنر ہے۔ ” میں اب آرام سے نہیں بیٹھوں گا اور اس کلچرل مائنڈ سیٹ کہ ریاضی میں کمزور ہونا قابل قبول ہے، کو پنپنے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا جس سے ہمارے بچوں کو نقصان ہو۔” برطانوی وزیراعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا، میتھس کے بارے میں ہمارے قومی نقطہء نظر کو بدلنے کی یہ مہم محض “اچھی بات” کے طور پر نہیں ہے یہ اس سوچ کو بدلنے کی طرف قدم ہے کہ ہم میتھس کو اپنے ملک میں کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ جنوری 2023 میں رشی سناک نے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ برطانیہ میں ہر فرد کے لئے سولہ سال کی عمر کی بجائے اٹھارہ سال تک کسی نہ کسی شکل میں میتھس کو لازمی قرار دیا جائے۔ مگر اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین نے کہا کہ یہ وعدہ فنڈنگ کے کسی مربوط منصوبے کے بغیر بے معنی ہے۔ جس میں ریاضی کے مزید اساتذہ کی بھرتی اور تربیت کے لیے رقم بھی شامل ہو۔

وزیر تعلیم جلیئن کیگن نے کہا،کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ ریاضی کے لیے کتنے اضافی اساتذہ کی ضرورت ہوگی اس کا انحصار ماہرین کے ایک ایڈوائزری گروپ کی تجاویز پر ہوگا جو سلیبس ترتیب دیں گے اور اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا میتھس کے ایک مزید سبجیکٹ کی ضرورت ہے یا نہیں، اور یہ کہ انہیں حکومت پر اعتماد ہے کہ یہ ریکروٹمنٹ کے موجودہ ٹارگٹ کو پورا نہ کرنے کے باوجود بھی اس مضمون اور دیگر مراعات کیلئے ایک برسری سکیم اور مزید اساتذہ بھرتی کر سکتی ہے۔ اسکے علاوہ ایک اور لائحہ عمل بھی بنایا جا سکتا ہے یا  میتھس اور فزکس کی ایجوکیشن کی اپرینٹس شپ شروع کی جائے۔ یہ ان نوجوانوں کے لیے پُرکشش آفر  ہوگی جو بیک وقت کمانا اور سیکھنا چاہتے ہیں اور یونیورسٹی نہیں جانا چاہتے یا پھر وہ لوگ جنہیں  کمانے اور سیکھنے کی ضرورت ہے جو دوسرے مضمون کے طور پر تدریس کرنا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ صنعتی ممالک میں برطانیہ میتھس میں اوسط سے بھی کم ہے جس میں 8 ملین بالغ افراد کے میتھس کی مہارت اسکول کے نو سالہ بچے سے بھی کم ہے۔ حکومت نے ریاضی دان ماہر تعلیم اور کاروباری نمائندوں پر مشتمل ایک مشاورتی گروپ قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے جو میتھس کو 18 سال کی عمر تک لازمی قرار دینے کے بارے میں لائحہ عمل تجویز کریں گے۔ ملک کی معیشت کو پھلنے پھولنے اور پروان چڑھانے میں حساب اور اعداد و شمار کے ہنر کی بنیادی ضرورت ہے۔ جس سے بیروزگاری کی شرح میں کمی آئے گی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی میتھس میں دلچسپی پیدا کروائیں، میتھس سے متعلقہ گیمز اور تعلیمی کھلونے خرید کر دیں۔ روزمرہ کی زندگی میں گروسری شاپنگ وغیرہ میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں چیزوں کی قیمتیں پڑھنے میں ان کو ساتھ شامل رکھیں اور جمع تفریق سکھائیں۔ بچوں کو اسکول سے پک اینڈ ڈراپ کے دوران دلچسپ قسم کی تعلیمی گفتگو پر توجہ دیں اور باتوں باتوں میں حساب کے سوال بھی گھڑ لیں۔ بچوں کو ٹائمز ٹیبلز یعنی پہاڑے یاد کروانا اور روزانہ کی بنیاد پر سننا اپنے معمولات میں شامل کرلیں ۔ اسے بچوں کی تعلیمی قابلیت اور ذہنیت میں بلا کا اضافہ ہوگا۔ بچوں کی بنیاد بنانا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کے سکول و کالج کے رزلٹ بہترین آئیں، یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور بہترین ملازمت حاصل کرکے ملک کی معیشت کو بہتر بنائیں اور معاشرے کے کامیاب اور مفید افراد کی حیثیت سے زندگی گزاریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply