پیران پیر دستگیر/اصغر محمود چوہدری

واقعات کی صورت میں حقیقت ہمیں روز آنکھیں کھول کر ہدایت دینی کی کوشش کرتی ہے لیکن عقیدت ہمیں آنکھوں سے پٹی ہٹانے ہی نہیں دیتی ۔ پیرآف سیال شریف جنہوں نے 2017ء میں فتویٰ  دیا تھا کہ ن لیگ کو ووٹ دینا حرام ہے اب ن لیگ کاٹکٹ لینے کے لئے آستانہ عالیہ رانا شریف پر سر بسجود ہوگئے ہیں ۔ اور اب ان کے تمام مریدین پیر صاحب کے حکم پرسرخم تسلیم کریں گے کہ جن کو کل تک گالیاں دینی تھیں ان کی اب جے جے کال کر یں گے ۔ کاش ہم اپنی آنکھوں سے عقیدت کی پٹیاں اتار کر حقیقی واقعات کو دیکھا کریں تو ہم کسی پیر ، کسی مولوی، کسی سیاستدان کی چاکری کرنے اور اس کے گندے پوتڑے دھونے اور ان کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے اپنے معاملات پر توجہ دیں ۔

آجکل ٹی وی سکرینوں پر فرح گوگی کی کرپشن کے قصے سنائے جا رہے ہیں ۔میرا ہمدردانہ مشور ہے کہ ان سب قصوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں ، ان پر بالکل توجہ نہ دیں ۔ فرح گوگی کی کرپشن کے قصے ہوں یا پھر عثمان بزدار کے اربوں مالیت کے اثاثوں کی تفصیل یہ سب ہمارے آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لئے مہرے لانچ کئے جاتے ہیں تاکہ ہمارا دھیان ان چھوٹی چھوٹی چڑیاؤں کی طرف رہے اور جو اصل کھلاڑی ہیں وہ کسی نئے اتحاد ، کسی نئی گیم اور عوام کو بے وقوف بنانے کا کوئی نیا جگاڑ تیا رکر سکیں ۔

سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے ہمیں ٹی وی سکرینوں پر سیاستدانوں کی کرپشن کے قصے سنائے جاتے ہیں اور ہم ان کو چٹے پٹے ذائقے والے پاپڑز کی طرح آگے شیئر کرتے رہتے ہیں بعد میں انہیں میں سے کچھ کے ساتھ ڈیل کی جاتی ہے اور انہیں اقتدار سونپ کر ہم پر حکومت کرنے کیلئے لایاجاتا ہے ۔اور پھر ایک نئی بحث چھیڑی جاتی ہے کہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا ۔ اسی طرح جن کے بارے آج کہا جارہا ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث تھے انہیں کل دوبارہ نہلا کر صاف ستھرا کرکے پیش کر دیا جائے گا

سوال یہ ہے کہ یہ کرپشن کی داستانیں اقتدار جانے کے بعد ہی کیوں مشہو ر کروائی جاتی ہیں جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں اور ان کی تنہائی کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ کروایا جارہا ہوتا ہے تو اس وقت ان کو کوئی کیوں نہیں روک رہا ہوتا تو جواب بہت سادہ ہے کہ اس وقت سب مل کر بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہوتے ہیں ۔۔ یہ سیاستدان ، یہ بیوروکریٹ ، یہ جج ، یہ جنرل ، یہ پیر ، یہ فقیر یہ سب اشرافیہ کے نمائندہ آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ یہ سب مل کر گیم ڈالتے ہیں سب مل کر کرپشن کرتے ، سب مل کر دونوں ہاتھوں سے عوام کے حق کی ہڈی کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں
باقی پیرسیال صاحب کے یوٹرن پر باباجی کا قول یاد آگیا
اگر یہ جاننے میں دشواری ہورہی ہے کہ اگلی حکومت کس کی آنے والی ہے۔ یاکون سی سیاسی پارٹی پیا (اصطبلشمنٹ )کی لاڈلی بن چکی ہے تو فوراً دیکھوکہ ملک کےپیر یا مذہبی راہنما کس کے گیت گاتے نظر آرہے ہیں اور یہ جاننا ہو کہ کس پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا جائے گا تو دیکھ لو کہ کون آجکل فتووں کی ضد میں ہے

جانناہو کہ اشرافیہ کا آجکل منظو رنظر کون ہے اور اقتدار کی ہما کون سی پارٹی کے سر پر منڈلا رہی ہے تو دیکھ لو کہ ایم کیو ایم کس کے ساتھ اتحاد بنا رہی ہے اور کون سے پارٹی آجکل معتوب ہے تو دیکھ لو کہ شیخ رشید آجکل کس پارٹی سے فاصلہ اختیار کر رہا ہے ۔
عوام اس تمام کھیل تماشے میں صرف بدھو بننے کے کام آتے ہیں

البتہ اگر یہ جاننا ہے کہ حقیقی جمہوریت کیا ہوتی ہے یا عوام کی بات کہاں سنی جاتی ہے تو پھر انگلینڈ سے سیکھو ۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کی وزیر داخلہ سویلا بریورمین اور لندن پولیس کمشنر آمنے سامنے آگئے تھے جب وزیرداخلہ پولیس کی کہہ رہی تھی کہ فلس طین کے حق میں لندن میں ہونے والی ریلیوں کو روکا جائے لیکن پولیس کمشنر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ آزادی اظہار کے اصول کے تحت کسی کو بھی روکا نہیں جا سکتا ۔ جس پر برطانوی وزیر داخلہ نے اخبار میں پولیس کے خلاف ایک اخبا رمیں آرٹیکل لکھ دیا اور پولیس کو جانبدار قرار دے دیا ۔ عوام کی جانب سے سویلا بریورمین کو عہدے سے ہٹائے جانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تو آج وزیر اعظم کو عوامی دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا اور سویلا کو اسے کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ۔اسے کہتے ہیں اصل جمہوریت باقی کچھ ممالک تو جمہوریت کے نام پر اس کے فضلے سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔ جہاں ایک سال میں پیرصاحب ایک پارٹی کے خلاف ووٹ دینا حرام قرار دیتے ہیں اور اگلے سال اسی پارٹی کی ٹکٹ کے لئے ترلے کئے جاتے ہیں کیونکہ پیران پیردستگیر کا ہاتھ اب اس پارٹی کی پشت پر ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیران پیر دستگیر کون ہیں جن کا قدم ہر پیر کی گردن پر ہے ۔ یہ جاننے کے لئےسلسلہ صوفیا شیخ رشید سے رابطہ کریں

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply