طبقات اور انسانی حقو ق محکوم۔۔ابھے کمار

ہر سال ۱۰ دسمبر کو یوم انسانی حقوق کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن سال ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے متعلق ایک قرار داد اپنایا تھا، جس کویو ڈی ایچ آر کےنام سےجانا جاتا ہے۔ یو ڈی ایچ آرکو “انسانی حقوق کا عالمی منشور” کہا جاتا ہے۔یو ڈی ایچ آرمیں یہ کہا گیا ہے کہ ہم سبیکساں حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو امتیازات سے آزادی کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح لوگوں کو جینے کا حق ہے،انہیں آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق بھی حاصل ہے۔ تبھی تو کسی کوغلام نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ نہ ہی کسی بھی انسان کے ساتھ اذیت اور ذلت آمیز سلوک کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ عوام کو قانونی تشخص کا بھی حق ہے۔ سب لوگ قانوں کی نظروں میں برابر ہیں۔ اپنے حقوق پرحملہ ہونے کی صورت میں ہر انسان کو موثر قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے۔ اسی طرح عوام کوناجائز قید یا جلا وطنی سےآزادی کا بھی حق حاصل ہے۔یو ڈی ایچ آر میں یہ بھی کہا گیا کہ سارے انسان کو بنیادی حقوق ملےہوئے ہیں،جن سے انہیں کبھی بھی محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس میں مساوات کی ھی بات کہی گئی ہے۔ مثال کے طور پرسب انسان برابر ہیں۔ان کے درمیان نسل، رنگ، صنف، قوم یا دیگر بنیاد پر تعصب نہیں برتا جا سکتا ہے۔ تبھی تو دنیا کے جتنے بھی جمہوری ملک ہیں، وہاں ۱۰ دسمبر کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

بھارت کا آئین بھی انسانی حقوق کی بات کہتا ہے۔ آئین نے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ نسل، ذات برادری، جنس، زبان، مذہب وغیرہ کی بنیاد پرکسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض، بھارت میں تمام شہریوں کو یکساں بنیادی حقوق دینے گئیں ہیں، جن کو کسی بھی صورت میں غصب نہیں کیےجا سکتے۔ہمارا آئین کا تمہید یہ کہتا ہے کہ بھارت میں سب کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف دیے گئی ہیں۔آزادی خیال، اظہار، عقیدہ اور عبادت کے علاوہ مساوات بھی دینے گئے ہیں۔

مگر سب سےبڑا سوال یہ ہے کہ اچھا قانوں ہونے کے باوجود بھی لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ بھارت کے اقلیت اور دیگر محروم طبقات اپنے آپ کوغیر محطوظ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہےکہ پولیس اور انتظامیہ بعض اوقاتان کےساتھ نا انصاف کرتی ہے۔ ملک کے حکمراں جماعت بھی “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کا نعرہ دیتے ہیں،مگربعد جب پالیسی بنانی ہوتی ہے تو وہ عالیٰ ذات اور بڑے سرمایہ داروں کےلیے کام کرتےہیں۔ جالات اس قدرخراب ہو گئے ہیں کہ اقلیتوں کے جزبات اور ان کے مسائل کو سوننا تو دور کی بات،ہر روز ان کے اوپر حملے ہو رہے ہیں۔ پوری سیاست مذہب کے میدان میں کھیلی جا رہی ہے۔اکثریت جماعت کے خلاف اقلیتی طبقات کو “دشمن” بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کو ملک کی ترقی میں “روڑا” بتلایا جا رہا ہے۔ یہ رجحانات، جس کی طرف پروفیسر رام پنیای اوپر اشارہ کر رہےتھے، اقوام متحدہ کی یو ڈی ایچ آئی اور بھارت کے آئین کی روح کے خلاف ہے۔
گزشتہ دنوں رام پنیانی اور جان دیال نے یوم انسانی حقوق کے موقع پرراقم الحروف سے طویل گفتگو کی۔ نامورمصنف اور انسانی حقوق کے سرگرم جہدکار پروفیسر رام پنیانی اور ڈاکٹر جان دیال نے بھارت کے محکوم طبقات بشمول اقلیت کے انسانی حقوق کی پامالی پر گہری تشویس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوتوا فرقہ پرستی کا مقابلہ سیکولر طاقتوں کو مظبوط بنا کر ہی ہوگا۔ اس لیے ملک کے اقلیتوں اور دیگر محکوم طبقات کو ساتھ مل کرفرقہ پرستی کے خلاف اپنی لڑائی کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کو تاریخی پس منظرمیں رکھتے ہوئے،ہوئے پروفیسر رام پنیانی نےکہا کہ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے متعلق باتیں دوسری عالمی جنگ کے بعد کرنی شروع کی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی میں ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس تشدد کے بعد پوری دنیا میں لوگوں کے اندرانسانی حقوق کے بارے میں بےداری پیدا ہوئی۔ جرمنی میں جو کچھ بھی ہوا اسے دیکھ کر لوگ انتے دُکھی تھے کہ وہ نہیں جاہتے تھے کہ اس طرح سے پھر کسی کا خون بہایا جائے۔اس طرح انسانی حقوق کا تصور جو ہمارے سامنے آیا۔ اس سب کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ ایسے انسانیت سوز واقعات پھر دوبارہ رونمانہ ہو پائیں۔اس لیے جینے کے حقوق کو عالمی طور پر تسلیم کیے گئے، جن کو کسی بھی حالت میں منسوخ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

جہاں ایک طرف ان واقعات کو پروفیسررام پنیانی نے مثبت قدم بتلایا، وہیں ان کو اس بات کا دُکھ ہے کہ دنیا میں جو رجحانات دکھ رہے ہیں وہ جمہوریت کے الٹی سمت جا رہے ہیں۔ پروفیسر پنیانی نے کہا کہ “آج دنیا کے کئی ملکوں میں پیچھے چلنے کا عمل جاری ہے۔خاص کر اپنے دیش میں پیچھے چلنےوالی بات بہت مظبوط ہے۔میں مانتا ہوں کہ۱۹۵۰ سے ۱۹۸۰ تک کا جو سفر تھا جس کو ملک نے طےکیا، وہ جمہوریت کی سمت میں ایک چھوٹا سےقدم تھا۔ اس کے بعد سےجوچل رہا ہے، جس میں جزباتی ایشوز، دھرم کی سیاست، رتھ یاترا، گائے، بیف، لوجہاد جیسے واقعات سامنے آ رہے ہیں، وہ ملک کو جمہوریت سے پیچھے کی طرف لے جا رہا ہے”۔

انسانی حقوق کے دیگر بڑے جہدکار اور بزرگ صحافی جان دیال نے بھی موجودہ صورت حال پر کہری مایوسی کا اظہارکیا ہے۔انہوں نے کہا کہ “ٓآج کے زمانہ میں بات کرنے کا موقع مل جائے وہ سب سے بڑی غنیمت ہے۔ سب جگہ چُپی اختیار کی گئی ہے۔ آدمی کی زبان کاٹ دی گئی ہے۔ آدمی کے ہونٹ سل دیے گیےہیں۔اخبارخرید لیے گیے ہیں۔ ٹیلیویژن غلام ہے۔سوشل میڈیا پرپابندگی ہے”۔

جان دیال نے اس بات پر بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا کہ ایک محکوم طبقہ کو دوسرے محکوم طبقہ کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اوڈیسا میں دلت کوآدی واسی کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے، جبکہ اتر پردیش میں دلت کو مسملمانوں کے مدمقابلہ لایا جا رہا ہے۔ ۱۹۸۴ کے دوران بھی یہ دیکھا گیا کہ کس طرح دلت کو سیکھوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اس لیے دلتوں کو یہ بتلانا ہوگا کہ جدید دورمیں ایک نیا ‘منو کا راج’ آیا ہے، جس کے پیچھے بڑےبڑے سرمیہ دارہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں دلتوں کے حقوق پرزبررست حملہ ہوا ہے۔

آدی واسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئےجان دیال نےکہا کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جل، جنگل اور زمین کو لوٹتے ہویے دیکھ رہے ہیں اور اس لیے ان کےدرمیاں استحصال کے خلاف بے داری آ سکتی ہے۔ مسلم اور عیسائی طبقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سسٹم ان کے خلاف اس قدرنا انصافی برت رہا ہے کہ جن کے اوپر حملے ہو رہے ہیں، ان ہی کو الٹے پکڑ کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔یعنی جو جرم جھیل رہے ہیں، ان کو ہی مجرم بنایا جا رہا ہے۔ جان دیال نے کہا کہ حالات آج اس قدرخراب ہو گئی ہے کہ “عیسائی اپنےہی گھر میں دعا نہیں مانگ پا رہا ہے”۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اس ناانصافی اور ظلم کا مقابلہ مل کر کیا جا سکتا ہے۔ تمام محکوم طاقتوں کو چاہیےکہ وہ سیکولر پلیٹ فارم پر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ کوئی اقلیت طبقہ اپنے خود کے دم پر کنہیں کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ابھے کمارجے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)
debatingissues@gmail.com

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply