ہم بے چارے کسان۔۔شفقت لاشاری

بچپن سے سنتے آئے ہیں زراعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے ذرا شعور کو پہنچے تو معلوم ہوا زراعت واقعی ہی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے اس کے مہرے ہلا دیے ہیں۔ ملکی ترقی میں دوہرا کردار ادا کرنے والا شعبہ زراعت ناقص پالیسیوں کے سبب دن بدن تنزلی کا شکار ہے۔ اپنے خون پسینے سے فصلیں سینچنے والا غریب محنت کش فصل کو بیچنے کیلئے سڑکوں پہ رل رہا ہے تو کبھی مناسب ریٹ نہ ملنے پر بددل ہو کر اپنے ہی خون پسینے سے تیار کردہ فصل کو آگ لگا رہا ہے۔ ہم بے چارے کسان بدلتے موسم کی سختیاں تو برداشت کر ہی رہے تھے اب طرح طرح کے مافیا بھی دونوں ہاتھوں سے ہمیں ہی لوٹنے میں لگے ہیں۔ دیگر فصلات کے سیزن میں آڑھتی تو اب گنے کے سیزن میں مل مافیا بے چارے غریب کسان کا خون چوس رہے ہیں۔

وسیب کے غریب کسان عموما” پانچ سے کم ایکڑ کے کاشت کار ہیں جو آڑھتیوں سے نقدی یا کھاد بیج اور سپرے ادھار پر لے کر فصل بوتے ہیں پھر جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو وہی آڑھتی اپنی مرضی کا ریٹ لگاتا ہے کسان کو مجبورا” اسے ہی فصل بیچنا پڑتی ہے کیونکہ حکومتی سطح پہ آڑھتیوں کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
دن بدن بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے تیل، کھاد اور سپرے مہنگے ہو رہے ہیں جبکہ فصل کے نامناسب ریٹ ملنے کی وجہ سے اخراجات اور منافع کی شرح کم ہے جس کی وجہ سے کسان بددل ہو کر زراعت ہی چھوڑ رہے ہیں۔

اکنامک سروے آف پاکستان 2016-17 کے مطابق گزشتہ بیس سالوں میں پاکستان میں زراعت سے وابستہ افراد میں 4 فیصد کمی ہوئی ہے، جبکہ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 24.8 فیصد سے 19.9 فیصد پر آگیا ہے جو کہ تشویش ناک ہے، اگر کسانوں کا استحصال بند نہ ہوا تو اس میں مزید کمی آسکتی ہے۔ ہماری دیہی آبادی جو تقریبا” زراعت سے منسلک ہے مزید غربت  کی دلدل میں دھنستی   چلی جائے گی۔ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ہمیں سمجھنا ہوگا کسان خوشحال ہوں گے توہی پاکستان خوشحال ہوگا زراعت کی بقا اور ترقی ہی ہماری خوشحالی کی ضامن ہے۔

محکمہ زراعت کے افسران دفاتر تک ہی محدود ہیں انھیں کسانوں کی رہنمائی کیلئے باہر نکل کر ان پڑھ کسانوں کو جدید زراعت کی طرف راغب کرنا ہوگا، روائتی فصلوں گندم چاول، گنا اور کپاس سے ہٹ کر نئی فصلیں، سبزیات اور ٹنل فارمنگ کو ترجیح دینا ہوگی ، نئی ورائٹییوں کے استعمال سے پیداوار بڑھانے کے جدید طریقے بتانا ہوں گے۔ حکومتی سطح پہ چھوٹے کسانوں کو سہولیات دی جانی چاہئیں، آڑھتی اور مڈل مین کا کردار ختم کرنے سے کسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے، ہر فصل کے سرکاری نرخ مقرر کر کے جائز معاوضے کی وصولی یقینی بنائی جائے، گنے اور چاول کی ملوں کی استعداد بڑھائی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گندم، چاول اور چینی کی برآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے، ناقص انتظامات کی وجہ سے سال 2016 میں چاول کی برآمدات کے تمام معاہدے منسوخ ہوئےجس کا اثر سال 2017 کی فصل کی قیمتوں پہ پڑا اور نقصان بے چارے کسان کو سہنا پڑا۔ گندم بھی برآمد نہیں کی جارہی جس کا اثر خدا نخواستہ گندم کی موجودہ فصل کی قیمتوں پہ پڑے گا اور نقصان بے چارہ کسان سہے گا۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے زراعت کو بچانا ہوگا کیونکہ زراعت ہی ملکی ترقی کی ضامن ہے۔

Facebook Comments

شفقت لاشاری
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply