ہڈ حرام۔۔۔۔حسام درانی

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی کی ایک بڑی تعداد کسی نہ  کسی حوالے سے زراعت کے پیشہ سے منسلک ہے، پچھلی چند دہائیوں میں ملک عزیز میں زراعت سے منسلک صنعت کا اجرا ہوا ،اور اس کے ساتھ ساتھ صنعت نے بھی ترقی کی، آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ عوام کی ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی اور لوگ نوکریوں اور کاروبار سے بھی منسلک ہوئے لیکن ابھی دیکھا جاۓ تو زراعت ہمارے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔تمام شعبوں سے زیادہ زراعت ہی سے لوگ منسلک ہیں اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
اگر ہم دوسری قوموں کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ  وہ کسی بھی شعبہ ہاۓ زندگی سے منسلک ہوں پوری محنت اور تندہی سے اپنے کام کو سر انجام دیتے ہیں جو کہ  ان اقوام کی ترقی کا راز ہے جبکہ الحمداللہ ہم پاکستانی قوم اس نعمت سے محروم ہیں۔پاکستان میں ہونے والے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ بیروزگاری کا جن بھی ہمارے سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ اگر دیہاتی علاقوں میں دیکھا جائے تو عوام کی حالت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب حکومت کی نااہلی ہے کہ  ترقی و بڑھتی ہوئی فی کس آمدنی کے ثمرات ان علاقوں تک کیوں نہیں پہنچے یا ہم لوگوں کی اپنی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے کہ

” زمین جنبد نا جنبد گل محمد ”

راقم بھی پاکستان کی ایک بڑی آبادی کی طرح زراعت کے پیشہ سے منسلک ہے اور کسی حد تک اس پیشہ کی خامیوں اور اچھائیوں سے  بھی واقف ہے۔ اور پنجاب کے ایک ایسے علاقے میں کاشتکاری کر رہا ہے جس کو پسماندہ کہیں تو عجب نہ  ہوگا۔
راقم کا زیر کاشت رقبہ ایسے گاؤں میں موجود ہے جو   240 مربع (6000 ایکڑ اراضی) پر محیط ہے جس پر کام کرنے کے لئے مزدوروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو   نسل در نسل اسی پیشہ سے منسلک ہے، راقم پچھلے 5 سال سے کاشت کاری کر رہا ہے اور پچھلے پانچ سالوں سے ان لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہے ان کی سوچ اور عادات سے بھی کسی حد تک واقفیت ہو چکی ہے، شروع شروع میں ان کی حالت پر ترس آتا تھا اور کام پر آنے والوں کو طے شدہ معاوضہ سے کچھ بڑھ کر دیا کرتا تھا کہ  کسی نہ  کسی طرح ان کا کام چل جاۓ لیکن آہستہ آہستہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ  کام کرنا تو جوانوں کی موت ہے، مطلب ان کی اس غربت کا راز تو ان کی اپنی کرتوتوں میں ہے۔ بقول ایک بزرگ کے جب ان کے بھڑولے میں ایک کلو دانے بھی ہوں گے کام کو ہاتھ لگانا حرام ہے اور جب دانے ختم ہو جائیں گے تو ادھار اور قرض لینا شروع کر دیتے ہیں اور جب مرنے لگتے ہیں تب مزدوری کرنے نکلتے ہیں اور دوبارہ سے وہی کام شروع۔

امسال گندم کی کٹائی کے موقع پر پتہ چلا کہ  لیبر کی بہت تنگی ہے اور منشی نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ  جناب امسال لیبر ملنا بہت مشکل ہے کیونکہ میرے پاس صرف دو ملازم ہیں تو ان کے ساتھ تو گندم کی کٹائی اور گہائی کا کام دو ماہ میں بھی نہیں ہو سکتا تو منشی نے کسی نہ  کسی طرح لیبر کا بندوبست کیا اور میں مقررہ دن گاؤں چلا آیا ساتھ میں بیوی بچوں کو بھی لے آیا کہ  چلو دو تین دن کا کام ہے بچوں کی بھی سیر ہو جاۓ گی۔
پہلے دن کام شروع کیا تو پتہ چلا   ہارویسٹر والا بھاگ گیا اور اس سے رابطہ نہیں ہو رہا بڑی مشکل سے لیبر کو 5 ایکڑ پر موجود باغ میں سے گندم ان کی منہ مانگی قیمت پر ہاتھ سے کاٹنے پر راضی کیا، اور کام کی بسم اللہ کی، ساتھ ہی منشی کو ریپر کی تلاش میں روانہ کیا ۔ایک آدمی سے ایک من فی ایکٹر پر گندم کٹوانے کا سودا کیا اور 13 ایکٹر اس کے ذمہ  کئے کہ  دو سے تین دن میں کاٹ دے، مگر الحمداللہ آج تیرہویں دن کے بعد بھی باغ والی گندم تقریباً  ویسے ہی موجود ہے اور باقی میں سے صرف 5 ایکٹر گندم گاہ سکا ہوں۔

اس علاقہ کی عوام میں کام نہ  کرنے کی ایسی اچھی عادت موجود ہے کہ  میرے قرب  و جوار میں اس وقت قریب قریب 300 ایکٹر پر گندم ابھی تک موجود ہے، آدھ گھنٹہ کام کرتے اور اگلے 2 گھنٹے درخت کے  نیچے لیٹ کر حقہ پینے سے اگر کام مکمل ہو سکتا تو شاید آج سے پندرہ دن پہلے ہی تمام گاؤں کی گندم کٹ چکی ہوتی اور اگلی فصل لگ بھی چکی ہوتی۔ اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ  کام مکمل کیوں نہیں ہوا تو جواب ملتا ہے
‘ خان صیب ہو جا سی”کر لیں ساں۔۔
اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

Advertisements
julia rana solicitors

کل ایک محلہ دار سے اسی مسلہ پر بات ہو رہی تھی میری بات سننے کے بعد بولے یارا یہ تمہارے گاؤں کا مسئلہ نہیں میرے گاؤں میں اس سے برا حال ہے۔ لاہور ایک دوست سے بات ہوئی اسکا تجربہ بھی مجھ سے کچھ مختلف نہیں  ہے، الغرض اگر ان باتوں کو غور سے دیکھا جاۓ تو پاکستان کی تمام شعبہ ہاۓ زندگی میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں تو اس بات پر اور پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ
کام کرے ہماری جوتی
ہم ایک ہڈی حرام قوم ہے!

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply