غالب کی تلخ نوائی اور میں..

غالب نے کہا تھا
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے..!
آج میں آپ کو اپنی اور چچا غالب کی تلخ نوائی کی وجوہات بتانا چاہتا ہوں. میں قمر نقیب خان ہوں، میں پاکستانی ہوں، یہ میری زمین ہے مجھ سے پہلے یہ میرے باپ کی زمین تھی اور اس سے پہلے اس کے باپ کی.. میں اس برصغیر میں ہزاروں سال سے رہتا آیا ہوں. میری زمین زرخیز ہے ۔یہ سونا اگلتی ہے، میرے اپنے دریا ہیں میرے چار موسم ہیں، سمندر اور پہاڑ میرے ہیں. مجھے قدرت نے نوازا اور ہر طرح کی نعمت عطا کی، میں پورا سال ہل چلاتا رہا، ربیع بھی میری تھیں ،خریف بھی میری تھیں اور باغوں میں لگنے والے ہر طرح کے پھل فروٹ میوے میرے تھے۔ میں امن پسند ہوں، میں نے کوئی ہتھیار نہیں بنائے ۔میرے تمام تر مسائل لاٹھی سے حل ہو جاتے تھے اور دشمنی کی صورت میں اسی لاٹھی کا گنڈاسا بنا لیتا تھا۔ یوں مجھے کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہونے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
ہزاروں سال تک دوسرے ملکوں کے بھوکے ننگے لوگ آتے اور مجھ پر جنگ مسلط کر دیتے، پہاڑوں اور چٹیل میدانوں والے بہت خونخوار تھے، ظاہر ہے زندگی سے محبت وہی کر سکتا ہے جس کے چاروں طرف زندگی ہو، درختوں کے جھنڈ ہوں باغات ہوں، مال مویشی ہوں، پرندے اور حشرات ہوں۔ لیکن جس کو زندگی کی قیمت کا اندازہ نہ ہو اس کے لیے انسانی خون بہانا، عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ میں محکوم ہو گیا، پہلے پہل ہم صرف گاؤں کے مُکھیا کو فصل کا سالانہ دیتے تھے یہ سلسلہ ہزاروں سال جاری رہا، پھر مجھ پر تُرک، افغان اور ایرانی حملہ آور آئے تو مجھے مُکھیا کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا خراج بھی دینا پڑا، میں نے ہر ریاست کے نواب کو سالانہ دیا، ہر بادشاہ کو خراج دیا اور یہ سلسلہ بھی ہزار سال سے زائد جاری رہا۔
انگریزی سامراج آیا تو مُکھیا کے سالانہ اور بادشاہ کے خراج میں لگان بھی شامل کر دیا گیا۔یوں میں تین گنا زیادہ محنت کرنے کے باوجود بھی دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر سکتا تھا. مجھ سے دگنی مشقت کروائی جاتی، ملک کی ترقی کے نام پر مجھ سے سڑکیں بنوائی گئیں، پل بنوائے گئے، ریلوے ٹریک بچھایا گیا، مواصلاتی نظام بنایا گیا لیکن وہ سب میرے لیے نہیں تھا بلکہ برٹش راج کے لیے تھا۔ان مال گاڑیوں میں میرے خون پسینے کی کمائی بھری جاتی تھی، میری دھرتی کی معدنیات بھری جاتیں جو کراچی، بمبئی، کیرالہ، کلکتہ اور کالی کٹ کی بندرگاہوں سے یورپی امریکی منڈیوں تک پہنچائی جاتی۔ میرا اُگایا ہوا اناج مجھے ہی کھانے کو نہ ملتا، میرے بچے بھوکے سوتے میرے ماں باپ کے کفن دفن کا انتظام تک نہ ہوتا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ہندو بنئیے کا قرض دار ہو گیا، مرتا کیا نہ کرتا.. بچے بھوکے ہوں اور جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو تو قرض لینا ہی پڑتا ہے۔ اس استحصالی نظام سے تنگ آ کر میں نے ایک الگ ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔
لاکھوں جانوں کی قربانی، ہزاروں عصمتوں کی بے حرمتی اور سینکڑوں بچے بوڑھے کٹوا کر میں نے یہ مملکت خداداد حاصل کر لی، چودہ اگست 1947 وہ دن تھا جب میں خوشی سے سرشار تھا لیکن وہ خوشی بس چند مہینوں، چند دنوں یا پھر شاید چند گھنٹوں کی ہی تھی. استحصال کا جو سلسلہ پچھلے تین ہزار سال سے چل رہا تھا جوں کا توں برقرار رہا، وہی وڈیرے تھے، وہی جاگیردار تھے، وہی چوہدری تھے اور میں ہمیشہ کا کمی کمین غریب ہاری مزدور مزارع ہی رہا۔
مجھے پچھلے تین ہزار سال سے انصاف نہیں ملا، میں تین ہزار سال سے محکوم ہوں، میرے ساتھ ہر شخص نے زیادتی کی یہاں تک کہ دین کے نام پر بھی مجھے بےوقوف ہی بنایا جاتا رہا، مجھے استعمال کر کے مولویوں نے اپنی دشمنیاں نبھائیں، خون میرا بہا اور جنت مولوی صاحب کو ملی، میں سیدھا سادہ آدمی ہوں ،مجھے سب بےوقوف بنا کر استعمال کرتے ہیں. پٹواری، وکیل، جج، ڈاکٹر، علماء، سیاستدان اور فوج ہر شخص مجھے اپنے طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ میری گاڑھی محنت سے حق حلال کی کمائی بٹورتا ہے، میرا خون نچوڑتا ہے اور مجھے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کرتا ہے۔
صدیوں پر محیط بےبسی ہے کہ میں پاگل ہو چکا، حقوق کی پامالی تو تھی ہی اور اس پر زباں بندی بھی۔
بھلا ہو سوشل میڈیا کا، فیس بک اور ٹوئٹر کا جس نے اس گونگے کو زبان بخشی، بھلا ہو جس نے غریب عوام کی آواز کو بلند کیا، آج تین ہزار سال بعد میرے جذبات کو الفاظ ملے، میری سوچ کو زبان ملی تو سوچنے سمجھنے سے قاصر اسی عالم میں میں گالیاں دیتا ہوں، سیاستدان ہوں یا فوجی، علمائے کرام ہوں یا اشرافیہ یا پھر کوئی ٹی وی نوٹنکی مجھے ان میں کوئی ایک آنکھ نہیں بھاتا، میرا بس چلے تو سب کو مار دوں، قتل کر دوں ان سب کو اور صدیوں سے جاری اس استحصالی سلسلے کو بند کر دوں ہمیشہ کے لیے… لیکن میرے بس میں کچھ نہیں، میں مجبور ہوں، بےبس ہوں لاچار ہوں..
میں برا بھلا کہتا ہوں، گالیاں دیتا ہوں اور دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں۔ اس پر بھی سب لوگ الٹا مجھے ہی ضابطہ اخلاق سکھاتے ہیں، مسلمان ہونے کے ناطے عزت و احترام و تکریم سکھاتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے بھوکے کو ادب سے کیا مطلب؟ مظلوم کی آہوں کو دبانا کیسا؟ رونے والے کو سسکیوں کو روکنا کیونکر؟ ظالم ہاتھ کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ یہ ضابطے سارے میرے لیے ہیں؟ قوانین پر عملدرآمد صرف میں نے کرنا ہے؟ یہ قرآن و حدیث و سنت و فقہ و دعوت و تبلیغ سب کچھ میرے لیے ہی نازل ہوا ہے؟
دوسروں کی کوئذمے داری نہیں؟؟؟
قیس گر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد
سوچنے والا تو اس دور میں مر جاتا ہے

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply