پیالی میں طوفان (57) ۔ ٹوسٹر اور دنیا کی کھڑکی/وہاراامباکر

صبح ناشتے میں ٹوسٹ گرم کرنے کے لئے رکھا ہے۔ اس میں لگے filament گرم ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ سرخ ہو رہے ہیں۔ گرم ہونے کے ساتھ یہ سرخی آخر کیوں؟

ہر چیز جو کچھ بھی درجہ حرارت رکھتی ہے، وہ الیکٹرومیگنیٹک ویوز خارج کرتی ہے۔ ریڈی ایشن کے ذریعے حرارت کی منتقلی اسی وجہ سے ہے۔ بدلتے درجہ حرارت سے کسی چیز کا یہ رنگ اس کے درجہ حرارت کا بتا دیتا ہے۔ بڑھتے درجہ حرارت کا مطلب یہ کہ خارج ہوتی ریڈی ایشن کی ویولینتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ آٹھ سو ڈگری سنٹی گریڈ پر یہ اتنی ہو جاتی ہے کہ ننگی آنکھ سے دکھائی دینا شروع کر دے۔ (اسے ڈریپیر پوائنٹ کہتے ہیں)۔ ٹوسٹر کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری ہے، اس لئے یہ چمکدار سرخ رنگ نظر آ رہا ہے۔
اور ہماری کائنات ایسے ہی کام کرتی ہے۔ اس درجہ حرارت پر ہر چیز اسی رنگ میں چمکے گی۔ رنگ درجہ حرارت کی انفارمیشن دیتا ہے۔ اگر آپ کوئلے کی آگے میں دیکھیں تو اندرونی کوئلے چمکدار زرد رنگ کے ہوں گے۔ اور یہ رنگ بتا رہا ہے کہ درجہ حرارت 2700 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اور اگر درجہ حرارت 4000 ڈگری تک پہنچ جائے تو رنگ سفید ہو جائے گا۔
اگر آپ اس بارے میں سوچیں تو عجیب لگے گا۔ رنگ کا بھلا درجہ حرارت سے کیا تعلق؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوسٹر میں آپ توانائی کو حرارت سے روشنی میں بدلتے دیکھ رہے ہیں۔ ہماری کائنات کی ایک بہت شاندار چیز یہ ہے کہ ہر شے جس کا درجہ حرارت صفر کیلون سے اوپر ہو، اپنی کچھ توانائی کو روشنی کی لہروں میں بدل رہی ہے۔ اور روشنی کو تو سفر کرنا ہے۔ تو یہ توانائی اس کے گرد پھیل رہی ہے۔ ٹوسٹر کا سرخ ہو جانے والا فلامنٹ اس توانائی کو سرخ روشنی کی صورت میں بکھیر رہا ہے۔ سرخ رنگ قوسِ قزح میں سب سے لمبی ویولینتھ ہے۔ لیکن اس کی خارج کردہ زیادہ تر توانائی اس سے زیادہ لمبی ویولینتھ کی صورت میں پھیل رہی ہے۔ اس کو ہم انفراریڈ کہتے ہیں۔ اس میں اور “روشنی” میں کوئی بھی فرق نہیں۔ صرف ویولینتھ کا ہی ہے۔ ہم اسے بالواسطہ محسوس کرتے ہیں۔ جس شے میں یہ جذب ہو، اس کی گرمی کی مدد سے۔ ہم اگرچہ ان لہروں کو دیکھ نہیں سکتے لیکن انفراریڈ شعاعیں ہمارے ٹوسٹر کے لئے لازمی ہیں۔ انہوں نے ہی تو ہمارا ٹوسٹ گرم کرنا ہے۔
گرم اشیا روشنی کی کچھ ویولینتھ کو زیادہ خارج کرتی ہیں۔ کسی بھی درجہ حرارت پر، ایک مخصوص ویولینتھ زیادہ ہو گی۔ ٹوسٹر انفراریڈ میں سب سے زیادہ شعاعیں خارج کر رہا ہے اور کچھ حصہ نظر آنے والی سرخ روشنی میں۔ اور اس وجہ سے اس رنگ کا نظر آ رہا ہے۔ جو روشنی ٹوسٹ گرم کر رہی ہے، وہ دکھائی نہیں دے رہی۔
اگر یہ اس سے زیادہ گرم ہو جاتا تو نارنجی رنگ کا نظر آتا۔ 2500 ڈگری سے اوپر یہ زرد ہو جاتا۔ چار ہزار ڈگری میں یہ قوسِ قزح کے سارے رنگ خارج ہو رہے ہوتے اور یہ سفید رنگ کا نظر آتا۔ (یہ الگ بات کہ نہ صرف ٹوسٹ جل جاتا بلکہ کچن بھی)۔
ٹوسٹر لہریں بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ نہ نظر آنے والی انفراریڈ شعاعیں جو ٹوسٹ کو گرم کر دیں۔
پگھلا ہوا فولاد اور کوئلہ جو کہ 1500 ڈگری پر ہیں، نارنجی رنگ کے نظر آئیں گے۔ ان کی رنگ ایک ہی ہو گی کیونکہ لہروں کا ایک ہی سیٹ خارج ہو گا۔ اور اس وجہ سے کسی بھی ایسی شے میں، جہاں پر درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہو کہ رنگ دکھائی دے، رنگت درجہ حرارت بتا دیتی ہے۔ سورج کی سطح کا درجہ حرارت 5500 ڈگری ہے اور اس وجہ سے یہ سفید روشنی دیتا ہے۔
اور یہی وجہ ہے ک ہم رات کو ستارے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اتنا زیادہ درجہ حرارت رکھتے ہیں کہ ان کی سطح سے روشنی خارج ہو کر کائنات میں بکھر جاتی ہے۔ اور ساتھ ان کے درجہ حرارت کی انفارمیشن بھی لے جاتی ہے۔
میں اور آپ بھی اپنے درجہ حرارت کی وجہ سے رنگ رکھتے ہیں۔ یہ دکھائی دیا جانے والا نہیں لیکن خاص کیمرہ اسے دیکھ لیتے ہیں جو کہ انفراریڈ کے اس حصے کے لئے بنے ہیں۔ ہم ٹوسٹر جتنے گرم تو نہیں لیکن چمک رہے ہیں۔ ہم سے خارج ہونے والی روشنی کی ویولینتھ دکھائی دی جانے والی روشنی کے مقابلے میں دس سے بیس گنا زیادہ ہے۔ اپنے جسمانی درجہ حرارت کی وجہ سے ہم انفراریڈ میں روشن ہیں۔ اور ہر شے کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ زیادہ سرد چیزیں انفراریڈ سے آگے مائیکروویو کی راینج میں روشنی خارج کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر، ہم اپنی زندگی روشنی میں نہائے ہوئے گزر رہے ہیں۔ سورج، ہمارے جسم، ہمارے گرد کی دنیا اور ہماری ٹیکنالوجی یہ مسلسل کر رہی ہے۔ اور یہی آواز کے ساتھ بھی ہے۔
چمگادڑ الٹراساؤنڈ کو استعمال کر کے شکار کرتی ہیں۔ ہاتھی انفراساؤنڈ کی مدد سے دوردراز کے ساتھیوں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔ حیران کن چیز یہ ہے کہ یہ لہریں ایک ہی کمرے سے گزر رہی ہیں اور ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتیں۔ روشنی کی لہریں بچے کی کلکاریوں یا بانسری کی دھن سے متاثر نہیں ہوتی۔ آواز کی لہر تاریک اور روشن کمرے میں ایک جیسی رہتی ہے۔ ہم آنکھ کھول کر یا کان کی مدد سے ماحول میں سے ان لہروں کی مدد سے کچھ انفارمیشن حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سیلاب کا تھوڑا سا مفید حصہ۔
لیکن کونسا حصہ مفید ہے؟ اس کا بھی کوئی ایک جواب نہیں۔ ہر جاندار اس میں سے اپنا ہی الگ حصہ اٹھاتا ہے۔ ایک خودکار گاڑی کے لئے مفید کے لئے اپنا الگ جواب ہو گا۔
ہم سے باہر، انفارمیشن کی عظیم بہتات ہے۔ اپنے مطلب کا حصہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ نیلی وہیل اور ڈولفن ایک دوسرے کو بمشکل ہی سن سکتی ہیں۔ اور ان دونوں کو ہی غوطہ خور کے لباس کی رنگ کی پرواہ نہیں۔ ہر ایک کے لئے دنیا کو دیکھنے کی کھڑکی الگ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply