• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پولیو کی آڑ میں پاکستانیوں کو ذہنی مفلوج کرنے کی سازش۔۔ندیم رزاق کھوہارا

پولیو کی آڑ میں پاکستانیوں کو ذہنی مفلوج کرنے کی سازش۔۔ندیم رزاق کھوہارا

مجھے یاد پڑتا ہے، پچھلے ہزاریے کے آخری سال تھے جب اچانک غلغلہ مچا کہ ملک بھر میں بچوں کو پولیو کے قطرے گھر گھر جا کر پلائے جائیں گے۔ اور حکومت کو زبردستی بھی کرنا پڑی تو کرے گی۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا انسانی تاریخ کے بدترین وائرسز میں سے ایک پولیو سے نکلنے کے جتن کر رہی تھی۔ جبکہ پاکستان میں سالانہ بیس ہزار سے بھی زائد نئے پولیو کیسز سامنے آ رہے تھے۔

پولیو سے بچاؤ کی مہم حکومتی سرپرستی میں زوروشور سے شروع ہوئی تو افواہ ساز فیکٹریوں نے بھی زور پکڑا۔ شہروں، دیہاتوں، چوپالوں، ڈرائنگ روموں میں تذکرے ہونے لگے کہ یہ ویکسین دراصل پولیو سے بچاؤ کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کی نئی نسل کو نامرد اور بانجھ بنانے کے لیے ایجاد کی گئی ہے۔ اس ویکسین کو پینے کے بعد بچے میں جنسی حِس ختم ہو جائے گی۔ اور وہ بڑے ہو کر نسل بڑھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

کئی لوگوں کو یہ بھی سننے کو ملا کہ اس ویکسین میں ایسے کیمیکل ہیں جن سے بچہ بڑا ہونے کے باوجود ذہنی طور پر دو تین سال کے بچے جیسا ہی رہتا ہے۔ ویکسین کی آڑ میں کافر ہماری اگلی نسل کو ذہنی مفلوج بنا رہے ہیں۔ جو کہ سوچ سمجھ سے عاری ہوں گے وغیرہ۔۔۔۔۔ یہ باتیں محض نجی محافل تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ باقاعدہ مساجد میں اعلانات کروائے جاتے۔ شہروں میں کمیٹیاں اور دیہاتوں میں پنچائتیں اس بات کو یقینی بناتیں کہ غلطی سے بھی پولیو ویکسین کا قطرہ کسی بچے کے حلق میں نہ اترنے پائے۔ اس سلسلے میں بڑی بڑی مذہبی شخصیات کے فتوؤں پر مبنی پروپیگنڈے نے جلتی پر تیل کا کام کیا حتیٰ کہ حکومت کو ویکسین پلانا تو دور کی بات۔۔۔۔۔ پولیو عملے کی حفاظت کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ مذہبی شخصیات ایک طرف نام نہاد لبرل اور آزاد خیال سوچ رکھنے والے بھی اس پروپیگنڈے میں پیش پیش تھے۔

تاہم میڈیا پر بے پناہ تشہیر، پاک فوج کی مدد اور دیگر اقدامات سے کسی نہ کسی طرح بچوں کو ویکسین پلانے کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کہیں جبر تو کہیں صبر شعور پھیلاتا رہا۔ نئے ہزاریے کی دو دہائیاں بھی بیت گئیں۔ جن بچوں نے پولیو کے قطرے پیے وہ جوان ہو کر اگلی نسل کی بنیادیں بھی رکھ چکے۔ وہ بچے تو نامرد نہ ہوئے البتہ ان تیس سالوں میں سینکڑوں بچے ہمیشہ کے لیے معذوری کی زندگی گذارنے پر ضرور مجبور ہو گئے۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد اہم ملک بچا ہے جہاں پولیو اینڈیمک کا خطرہ موجود ہے۔ (افغانستان بھی اس فہرست میں شامل ہے)۔ جبکہ دنیا کے باقی تقریباً تمام ممالک پچھلی صدی کے اس ناسور سے جان چھڑا چکے ہیں۔ اپنی آئندہ نسلوں کو اس وائرس سے محفوظ بنا چکے ہیں۔ پولیو فری قرار دیے جا چکے ہیں۔ جبکہ سازشی پروپیگنڈے کا شکار پاکستان میں آج بھی یہ حال ہے کہ رواں سال سو کے قریب بچے پولیو وائرس کا شکار ہو کر معذور ہو چکے ہیں۔

سال 1994 میں پہلی بار جب پاکستان میں پولیو ویکسین کی مہم شروع کی گئی۔ تب پاکستان میں سالانہ بیس ہزار پولیو کیسز سامنے آ رہے تھے۔ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود پالیسی کے تسلسل کے باعث دس سال میں یہ تعداد سالانہ بیس تک رہ گئی تھی۔ لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ افغان وار اور کچھ دیگر مسائل کے باعث ملک میں پروپیگنڈے نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ اور اب یہ حال ہے کہ گزشتہ سال 2019 میں پاکستان میں پولیو کے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد ایک بار پھر سو سے تجاوز کر چکی تھی۔

ہم آج اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی دنیا سے کٹ کر جی رہے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بس کافروں کی مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔ حال ہی میں کرونا وائرس معاملے پر ایک بڑے پاکستانی طبقے کی جو ذہنیت سامنے آئی، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کہ یہ بل گیٹس کی سازش ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے وغیرہ۔۔۔۔۔۔ مسلمان تو اب بھی اس سے کسی حد تک محفوظ ہیں۔ اور خدائے بزرگ و برتر آئندہ بھی محفوظ رکھے۔ لیکن پتہ نہیں یہ کون سی سازش تھی جو مغربی ممالک کے اپنے ہی گلے پڑ گئی۔ جو الیکٹرانک چپس ہمارے جسم میں اتاری جانی تھیں وہ نہیں معلوم کہاں گئیں۔ لیکن کرونا اب بھی موجود ہے اور جن پر سازش کا پروپیگنڈہ تھا وہ اس کے نرغے میں گھرے ہیں۔

کہنے سے مراد یہ کہ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ہر آفت کو اغیار کے کھاتے میں ڈال دینے کی بجائے حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج دنیا بھر میں پولیو ڈے منایا جا رہا ہے۔ دنیا اس سے نجات حاصل کرنے کی آخری کڑی پر ہے۔ لیکن بدقمستی سے ہم واحد ملک ہیں جو اس موذی وائرس کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں۔ خدارا اپنی آنکھیں کھولیں۔ پاکستان کو پولیو سے پاک بنانے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔ اس پیغام کو پھیلائیں۔ نئی نسل کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ٹائٹل کے لیے معذرت، ورنہ ہم میں سے اکثر اس مضمون کو پڑھنے کے قابل ہی نہ سمجھتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیں اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply