گلگت بلتستان تاریخ کے اہم موڑ پر۔۔۔شیر علی انجم

سپریم کورٹ آف پاکستان کےسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بنچ کی جانب سے گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے تاریخی فیصلے کے بعد گلگت بلتستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم یہاں کے شہریوں میں ایک ہیجانی سی کیفیت نظر آرہی  ہے۔ جہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک اور ٹیوٹر پر اور واٹس ایپ گروپس میں گلگت بلتستان کے حوالے سے روائتی مطالبات سے بلکل ہی الگ ڈیمانڈ زور پکڑ رہی  ہےوہیں گراونڈ لیول پراسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد کیا گیا۔ جبکہ کراچی لاہور سمیت گلگت بلتستان کے کئی اضلاع میں اس حوالے سے احتجاج سے ایسا لگتا ہے کہ اس بار گلگت بلتستان کے عوام وعدہ نہیں فیصلہ چاہتے ہیں۔
قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ پچھلے اکہتر  برسوں نے وفاق کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی گلگت بلتستان کے لوگوں نے یکم نومبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی  وجہ سے بغاوت کرکے جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے اس نومولود ریاست کو وجود میں آئے دو ہفتے بعد ہی کئی قسم کی سازشوں اور وجوہات کی بناء پر اپنی حیثیت بحال رکھنے اور ٹیبل ٹاک کے ذریعے مکمل طور پر پاکستان میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اُس وقت سے لیکر آج تک یہاں کے عوام کو حقوق کے نام پر پیکج دیکر بہلایا جارہا ہے اور ایک طرف متنازعہ ہونے کا اعلان کرتا ہے دوسری طرف متنازعہ حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے ۔
قارئین مورخہ 17 جنوری کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیکر اس خطے کو عبوری طور پر پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے یواین سی آئی کی  قرارداد   کی روشنی میں متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے حکم کے بعد احتجاج اور مطالبات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، ان علاقوں کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے ہونا باقی ہےلیکن اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق بھارت اورپاکستان اپنے زیرانتظام علاقوں کوزیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں۔ اس تاریخی فیصلے کے بعد اکہتر  برسوں سے پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بننے کے خواہاں عوام مکمل طور پر نا اُمید نظر آتے ہیں  ۔ عدالت عالیہ کی جانب سے جو فیصلہ آیا ہے وہی اس خطے میں قوم پرستوں کا ہمیشہ سے نظریہ رہا ہے،یہاں کی  قوم پرست جماعتیں ہمیشہ سے کہتی  رہی  ہیں کہ مسئلہ کشمیرکےتناظر میں اور اس حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اقوام کے قرارداد UNCIP کے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کی موجودگی میں رائے شماری سے پہلے ایسا ممکن نہیں۔ بدقسمتی اس بات کی  بھی ہے کہ گلگت بلتستان میں آج تک اس نظریے کو ایک طرح سے حکومتی سطح پر گالی سمجھتے رہے اور اس  نظریہ کو پیش کرنے والوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے گلگت بلتستان دشمن، غدار جیسے القابات سے نوازا  گیا، فورتھ شیڈول اور غداری کے مقدمات بنائے گئے ۔ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے کے بعد اس وقت گلگت بلتستان میں سیاست کرنے والے تمام وفاقی پارٹیوں کے موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صدر نے سیاسی جدوجہد میں ناکامی کا اعتراف کرلیا ،تحریک انصاف چونکہ اس وقت اقتدار کی راہ دیکھ رہے ہیں اور اُنکے منشور میں پہلے ہی داخلی خودمختاری کا وعدہ شامل ہے لیکن عمل درآمد کرانے کیلئے مقامی سطح پر قیادت گروہ بندی کے شکار ہونے کی وجہ سے اب تک وزیر اعظم کے سامنے گلگت بلتستان کا مقدمہ پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتا ہے، حکمران جماعت مسلم لیگ ہمیشہ سے گلگت بلتستان کو متنازعہ حیثیت کے مطابق حقوق دینے کے حق میں رہا ہے لیکن اب چونکہ وہ اقتدار میں ہے  اس وجہ سے اُنہوں نےاس معاملے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ شروع کردی ہے،مذہبی جماعتوں نے بھی احساس کرلیا ہے کہ ہم نے عوام سے جھوٹ بول کر اقتدار حاصل کیا ہےلیکن سیاست میں زندہ رہنے کیلئے اخباری بیانات کے ذریعے عوام  کو سمجھانے کی کوشش کرتےنظر آتا ہے جبکہ اندونی طور اُنہوں نے بھی ہار مان لی ہے۔
یوں اس  تمام صورت حال کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گلگت بلتستان کا مقدمہ خواہشات کے بجائے بین الاقوامی قوانین اور اُن قوانین کے حوالے سے ریاست پاکستان کی پالیسی اور اقوام متحدہ کے متفق چارٹرڈ کےمطابق حل ہوگا ۔جس کا مطلب گلگت بلتستان کے عوام کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری تک انتظار کرنا پڑے گا۔لیکن اُس سے پہلے یہاں کے عوام کے کچھ حقوق ہیں جس کے  حصول کیلئے اس وقت یہاں کی  تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں ایک پیج پر نظر آتی  ہیں اور عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے پہلے مرحلے میں عوامی  آگہی مہم چلانے کا  فیصلہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے پہلی بار گلگت بلتستان کی  تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے جس کے مطابق کہا یہ گیا ہے کہ  سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدخطے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے تمام شکوک و  شبہات دور ہوگئے ہیں  اور عوامی مطالبے پر عمل نہ ہونے اور ایسا کرنے کی صورت میں ریاست پاکستان کیلئے بین الاقوامی سطح پر مسائل بھی درپیش ہوگا لہذا اس خطے کو متنازعہ بنیاد پر حقوق کو یقینی بنائیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقد آل پارٹیز کارنفرنس میں بھی حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان اب مزید کسی قسم کے آرڈر کا متحمل نہیں لہذا اب یہاں کے عوام کی حق تلفی کے سلسلے کو ختم کرکےگلگت بلتستان کو 13 اگست 1948 کے (یو این سی آئی پی) متفقہ قراداد کی روشنی میں لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنائیں اوریہاں بھی دیگر دو اکائیوں کی طرح قانون باشندہ ریاست جموں کشمیر سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں سمیت تمام قسم کے غیر قانونی قوانین کا گلگت بلتستان میں ناجائز استعمال کو روکیں۔
محترم قارئین تقسیم برصغیر اور گلگت بلتستان کی نامکمل انقلاب کے بعد کی صورت کے بعد جواہر لال نہرو 1 جنوری 1948 کو کشمیرکےمسئلے کو اقوام متحدہ لیکر گیا اور وہاں ایک کمیشن بنی اُس کمیشن کو بین الاقوامی طور پر UNCIP کہتے ہیں اس کمیشن پر مملکت پاکستان اور ہندوستان دونوں نے دستخظ کیے ہوئے ہیں۔ یہ طے پایا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا 84 ہزار مربع میل خطہ متنازعہ ہے اور اس خطے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں کسی ملک میں شامل ہونے یا الگ ریاست کیلئے رائے شماری ہونا باقی ہے اور اُس وقت تک کیلئے پاکستان چھے ہفتوں کے اندر گلگت اور مظفر آباد میں لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنائیں اور اسی فیصلے کی گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی توثیق کردی ہے۔لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے کی اکہتر سالہ سیاسی ،معاشی اور اقتصادی محرومیاں ختم کرنے اور سی پیک کے تناظر میں عالمی اور بھارتی سازشوں کو روکنے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔
اس وقت گلگت بلتستان کے عوام ایک پیج پر نظر آتے ہیں اورکہا جارہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم جو گلگت بلتستان میں بن رہا ہے لیکن بھاشا کا نام شامل کرکے رائلٹی پختونخوا کو دیا جائے گا ،سی پیک کیلئےاس خطے کا چھے کلومیٹر رقبہ استعمال ہوریا ہے لیکن اس خطے کو نظر انداز کیا ہے۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس ففتھ جنریشن وار کے دور میں گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق مانگنے کے جرم میں غداری جیسے مقدمات کے ذریعےخاموش کرانے کی کوششوں کے بجائے گلگت بلتستان کے ساتھ ایک عمرانی معاہدہ کریں اور یہاں کے لوکل اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ دیکر یہاں کے عوام کو اپنے وسائل پر حق حکمرانی دیں اس خطے کے وسائل کو بروئے کار لاکر پاکستان کو درپیش لوڈشیڈنگ سے مکمل طور پر نجات دلائیں کیونکہیہاںہائیڈور الیکٹرک کے وسیع مواقع موجود ہیں، اسی طرح یہاں سیاحت کی فروغ کیلئےبھی انقلابی اقدام اُٹھا یا جاسکتا ہے جس سے یقینا فائدہ ملکی معیشت کو ہوگا ۔ یوں اگر حکومت ماضی حکومتوں کی طرح عوام کو تنگ کرکے ریاستی رٹ قائم کرنے کے فارمولے کو ترک کرکے اختیارات اسلام آباد سے گلگت اسمبلی کو تفویض کرتے ہیں تو فائدہ مملکت پاکستان کو ہی ہوگا۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply