جماعت اسلامی کی غلطیاں

جماعت اسلامی کا ملک گیر تنظیمی ڈھانچہ، کارکن کی تربیت، نظم و ضبط اور قیادت کے چناؤ میں جمہوری روایت ایسے مثبت پہلو ہیں کہ کسی اور جماعت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس کے باوجود یہ صرف ایک مذہبی جماعت ہی رہی، عشروں بعد بھی ایک ایسی سیاسی قوت نہ بن سکی جو ایوان اقتدار میں خاطرخواہ عوامی نمائندگی حاصل کر سکے۔جماعت اگر یہ چاہتی ہے کہ اس کے مذہبی تشخص کی پذیرائی میں اسے ووٹ یا خاطرخواہ عوامی سیاسی حمایت مل جائے تو یہ ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔جماعت اگر یہ چاہتی ہے کہ وہ اسکولوں کالجوں میں تربیت کے ذریعے ایک ایسی عوام کھڑی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جو حق سچ کی دیوانی ہو اور سارا سماج سدھرنے کے بعد بلآخر جماعت کو ایک لارج اسکیل پہ عوامی سیاسی قوت حاصل ہو جائے گی تو یہ بھی ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں۔جماعت کیلئے بھرپور عوامی قوت حاصل کرنے کا بس ایک ہی ذریعہ ہے جس پر آج تک نہ توجہ دی گئی ہے اور نہ ہی اس پر توجہ دینے کا کوئی ارادہ نظر آتا ہے، وہ ذریعہ ہے ڈیرے داری، پبلک میں بیٹھنا، ان سے باتیں کرنا، ان کے مسائل سننا اور انہیں اپنے حق میں راضی کرنا، لیکن جماعت عوام سے نہ صرف کٹی ہوئی ہے بلکہ کوسوں دور کھڑی ھے۔

جماعت کو چاہیے کہ تحصیل، تعلقہ، گاؤں اور گوٹھ کے ذمہ دار صرف ان لوگوں کو بنائیں جو دعوت کا کام کرنے کی بجائے صرف ڈیرہ داری کریں، مرکزی اور صوبائی امیدوار صرف عوام میں بیٹھے اور ڈیرہ داری کرے، مرکزی اور صوبائی امیدوار اپنے حلقے میں اپنے تمام دفاتر کا ہفتہ وار دورہ کریں، ایک ہفتے میں مرکزی امیدوار آئے اور دوسرے ہفتے میں صوبائی امیدوار آئے، تیسرے ہفتے میں ضلع کونسل کا امیدوار آئے اور مقامی ناظم روزانہ کی بنیاد پر شام کو چار چھ گھنٹے اپنے مقامی دفتر میں کچہری لگائے، ہر آنے والے الیکشن کیلئے اپنے امیدوار پہلے ہی طے کرلیں اور پانچ سال ان سے علاقوں میں محنت کرائیں۔دعوت کا کام دوسرے کارکنوں پر چھوڑ دیں، عوام کو”پیندی سٹے ای” دین کا مرد مومن بنانے کی بجائے مجوزہ امیدواران لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے کیلئے محلہ، کالونی، شہر، گاؤں، تھانہ کچہری اور سماجی سطح پر ان کی خوشی غمی میں شرکت کریں، تھانہ کچہری اور دیگر دفاتر پر عوامی دباؤ ڈال کر لوگوں کے کام کروائیں اور ان کو اپنا گرویدہ بنائیں، جب آپ لوگوں کے حق میں پلے کارڈ اٹھا کر پریس کلب یا تھانے کچہری کے سامنے کھڑے ہوں گے، لوگوں کے حق میں سرکاری دفتروں کے کرتا دھرتاؤں کے ساتھ مذاکرات کریں گے، جب آپ عوام کے جھگڑوں میں صلح صفائی اور ثالثی کریں گے، میرٹ کی بحالی پر زور ڈالیں گے، جب آپ کراچی کے حافظ نعیم صاحب کی طرح عوام کے حق کیلئے نظامِ بد سے لڑیں گے تو ہر کوئی آپ کی طرف امڈے گا، تب آپ جماعت کو جوق در جوق ووٹ پڑتے ہوئے بھی ضرور دیکھیں گے۔

عوام کو ایک ملک گیر دیانتدار قیادت کی اشد ضرورت تھی، اسی لئے وہ عمران خان کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے تھے، ابتداء میں عمران خان نے ہر طبقے کو متاثر کیا تھا اور اب تک کرپٹ سیاسی مافیا کی چولیں ہلا کے رکھ دی ہیں، بیشک اس نے سیاسی الیکٹورل دھاندلی اور مالی کرپشن کو بری طرح سے نقاب کیا ہے لیکن وہ ملک گیر سیاسی ڈھانچہ، کارکن کی مربوط سیاسی تربیت، اور اپنے وطیرے میں کسی شعوری برتری کے نہ ہونے کی وجہ سے سنجیدہ طبقات کا اعتماد دن بہ دن کھوئے چلے جا رہے ہیں، اس کمی کو اکیڈمک طریقے سے پورا کرنے کی بجائے انہوں نے زیادہ سے زیادہ یقینی سیٹیں حاصل کرنے کیلئے لوٹوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے جو انہیں بہت جلد روایتی سیاستدانوں اور ان کی پارٹی کو روایتی سیاسی پارٹیوں کی صف میں لیجا کر کھڑا کر دے گا، اب ان کے پاس صرف ایک ہی پلس پوائنٹ ہے کہ اگر ان کو حکومت ملی تو یہ تندہی سے قوم کے مسائل حل کریں گے، قوم کا پیسہ دیانتداری سے استعمال کریں گے اور قرضہ نہیں لیں گے لیکن جب یہ ایکٹنگ گورنمنٹ کے طور پر فور۔فرنٹ پر کھڑے ہوں گے تو ایک طرف یہ لوٹے ان کو تگنی کا ناچ نچائیں گے تو دوسری طرف ان سے زخم خوردہ پارٹیاں بھی ان پر وہی الزامات لگا لگا کر انہیں پولیوٹ کریں گی جبکہ برسوں کے سلگتے ہوئے مسائل حل کرنا بھی فوری ممکن نہ ہوگا۔ جس میں توانائی اور شہری سہولتوں کا بحران سر فہرست ہے، پریپوزیشن میں بات کرنا آسان ہوتا ہے کہ ہم یوں کر دیں گے ہم یوں کر دیں گے لیکن آن۔گراؤنڈ اصل پتا چلتا ہے کہ بندہ کیا کر سکتا ہے، کیا نہیں اور کیا کیا اسے کرنے ہی نہیں دیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریک انصاف کی کمزورہوتی ہوئی پوزیشن، دوسری پٹی ہوئی سیاسی پارٹیوں کی بدکرداری اور دیگر عوامل کے درمیان جماعت کے پنپنے کیلئے اور عوام میں بغیر کسی ڈرامے اور رقص کئے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا واحد اور ستھرا حل یہی ہے، وہ تمام متمول حضرات جو بحیثیت مرکزی، صوبائی، ضلعی و یونین کونسل کے امیدوار اس کچہری سسٹم کو پانچ سال تک وقت دے سکیں وہ نہ صرف پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دیں گے بلکہ عوام کو ایک ملک گیر منظم اور منظور نظر پارٹی بھی مل جائے گی، یاد رکھیئے کہ جو کام آپ کو ملک گیر پارٹی ہونے کی حیثیت سے کرنا چاہیے تھا وہ مولانا فضل الرحمٰن نے صدسالہ میں کر دکھایا ہے یعنی اس وقت اور آنے والے ہر وقت میں آپ کو اپنے مذہبی پیشوا سے زیادہ اپنا عوام دوست چہرہ دکھانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ میرا مخلصانہ مشورہ ہے آپ کو سیاست چھوڑ دینی چاہیے کیونکہ آپ کلئیر وژن نہ ہونے کی وجہ سے بے جا الزامات اور طعن و تشنیع اٹھا ر ہے ہیں ۔

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply