کل رات

کل رات مجھے اس سڑک پر چلنے کا اتفاق ہوا جہاں شاید میں کبھی چل چکا تھا۔۔
لیکن یہ اتنی پرانی بات ہے کہ ان قدموں کا جتنے میں چلا، دنوں سے موازنہ کیا جائے، جتنے دن پہلے میں چلا تھا تو شاید دنوں کا تناسب زیادہ نکلے۔۔
میں دکانوں کو دیکھنے لگا، اور بے گھر بھکاریوں کو بھی۔۔ اگر مجھے کچھ یاد آ جاتا تو میرے قدموں کی تھکن کچھ حد تک کم ہو سکتی تھی۔۔
جو اس خیال سے مزید بھاری ہو گئے تھے کہ انہیں جانا کہاں تھا۔۔میں نے جیب سے موبائل نکالا اور کچھ پڑھنے لگا۔۔
اس خیال سے کہ اب میرا ذہن ان کرداروں کے بارے میں ہمدردی محسوس کرتے ہوئے، اپنے بارے میں کچھ سکون حاصل کر لے گا۔۔
میں جوں جوں پڑھتا گیا، مجھے یہ احساس ہوتا گیا کہ وہ الٹا مجھ سے ہمدردی محسوس کرنے لگے ہیں۔۔
میں ان دوستوں کی طرح محسوس کرنے لگا جو بازار میں ملے ہوں اور ایک دوسرے سے اس بات پر بحث کر رہے ہوں کہ ان دونوں میں میزبان کون ہے۔۔
اور جب میں نے اس کشمکش سے نکلنے کی کوشش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ میں گھر سے کتنا آگے نکل آیا تھا۔۔۔۔

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply