• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جھگی تعلیمی پروجیکٹ، اوشین ویلفئیراور سندھ انتظامیہ کی بے حسی۔۔منصور ندیم

جھگی تعلیمی پروجیکٹ، اوشین ویلفئیراور سندھ انتظامیہ کی بے حسی۔۔منصور ندیم

جب ہم پاکستان کی سیاسی معاشی ، سماجی اور معاشرتی صورتحال کو دیکھتے ہیں تو ہمیشہ ہر معاملے  میں ہمیں مایوسی ہی ہوتی ہے ، لیکن ایسے ناموس حالات میں بھی کچھ سرپھرے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان نامساعد حالات کے جبر کے سامنے سینہ سپر کرلیتے ہیں اور ان حالات  میں بھی ناممکنات کو ممکنات کا جامہ پہنانے کی سعی کرنے کا بیڑہ اٹھالیتے ہیں ۔

تعلیم ہر شخص کا بنیادی حق ہے،  بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات اُٹھائے جن کی مدد سے ریاست میں بسنے والا کوئی ایک بچہ بھی اپنے اِس حق سے محروم نہ رہے۔ اگر ریاست اِس بات کا خیال نہیں رکھے گی تو پھر کوئی بھی شخص یا ادارہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے تعلیم سے محروم بچوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ اِس کی ایک  مثال نائن الیون کے چند سال بعد وطنِ عزیز میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر سے لی جاسکتی ہے کہ دشمنوں نے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے خودکش دھماکوں کے لیے ایسے لوگوں کو استعمال کیا جو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں تھے اور باآسانی دشمن کے دھوکے میں آگئے۔یا پھر حالیہ دنوں میں اسٹریٹ چلڈرن کےبڑھتے ہوئے جنسی استحصال کے حوالے سے ملنے والی خبروں سے بھی اندازہ ہوتا ہے ۔یا پھر یہ بچے یا تو جنسی استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ عموما ً دہشت گردی کی  وارداتوں کے دوران یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی کہ خود کش حملہ کرنے والوں میں نوعمر بچے بھی شامل ہیں جبکہ گلیوں میں پھرنے والے آوارہ بچے بھی اِن وارداتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ گلیوں میں آوارہ پھرنے والی نسل جب بڑی ہوگی تو ممکنہ طور پر اُن کی اکثریت جرائم پیشہ افراد کا حصہ بننے کے لئے آسانی سے مائل ہوسکتی ہے اور وہ دہشت گرد گروہوں کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک ادارے پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (اسپارک) کی ۲۰۱۲ء کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں اور دیہی مراکز میں تقریباً ۱۲ لاکھ ایسے  اسٹریٹ چلڈرن ہیں جن کا باقاعدہ کوئی گھر نہیں ہے یا وہ گھروں سے بھاگے ہوئے ہیں۔ ۔ ایسے بچوں کی اکثریت  تقریبا ۹ سال سے ۱۵  سال کی عمر  پر مشتمل ہے۔

ایسے ہی سر پھرے افراد میں ایک فرد جس نے ۲۰۰۶ میں جامعۃ الرشید  سے عالم کا کورس کیا اور یہاں سے فراغت کے بعد اس  ایک نہتے مولوی صاحب نے لاہور میں خانہ بدوشوں کی بستی کے بیچ جاکر انہیں پڑھنے پڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور ” جھگی تعلیمی پروجیکٹ”  کے نام سے اپنا کام شروع کیا ، . چرس , ہیروئن , بھیک, دھندے کی اس دنیا کے بیچ بیٹھ کر علم اور شعور کی ہلکی سی ٹمٹماتی شمع جلائی. جنہیں چور , بھکاری کہہ کر لوگوں نے اپنے سے دھتکارا . جہاں سکول آنے والے بچے نشہ  کر کےآتے تھے. اسی بستی کے مکینوں  اور انہیں جھگیوں کے بیچ ایک نیا خیمہ لگا کراپنے  مکتب کا آغاز کیا. جہاں عام لوگ انہیں اپنی مساجد میں نماز کے لیے نہیں چھوڑتے تھے کہ یہ جوتے لے کر بھاگ جائیں گے. چبوترہ بناکر اس پر چھپر کی چھت ڈالی گئی , ایک ٹوٹے پھوٹےمنبر کا انتظام کیا گیا. اور یوں سکول , مسجد , دینی مدرسہ کے تینوں ادارے اس ایک چھپر کے نیچے کام کرنے لگے. خیموں ,دھول, چرس کے دھویں اور بدبو میں ڈوبی اس دنیا میں کسی فرقے , مسلک اور مذہب کی پہچان کے بغیر علم کی شمع روشنی دے رہی ہے. جس دنیا میں این جی اوز کی دمکتی گاڑیوں اور زرق برق لوگوں کو اترنے سے الرجی ہوتی ہے وہاں یہ سیدھے سادے مولوی کام کررہے ہیں.   ۲۰۰۶ ء سے ۲۰۱۸ء تک کے اس سفر میں آج پاکستان میں بسنے والے  جو ایک کروڑ سے زائد ایسے خانہ بدوش جنہیں عرف عام میں “پکھی واس” بھی کہا جاتا ہے وہ اس معاشرے کا محروم طبقہ ہیں جو  دین و دنیا دونوں قسم کی تعلیمی دولت سے محروم ہیں ، لیکن آج یہ پروجیکٹ لاہور، اسلام آباد ، کراچی ، اوکاڑہ   شیخوپورہ ، گوجرانوالہ، ملتان ، بہاولپور ، ساہیوال اور ویہاڑی تک پہنچ  چکا ہے، آج اس جھگی پروجیکٹ سے فائدہ اٹھانے والے بچے بچیوں اور خواتین و حضرات کی تعداد کم و بیش ۵۰۰۰ کے لگ بھگ ہے ، جنہیں مستقل اور روزانہ کی بنیاد پر تعلیم دی جاتی ہے۔

ایسے ہی شہر قائد (کراچی) میں جہاں سیکنڑوں اسکول قائم ہیں وہیں ہزاروں بچے علم کی شمع سے محروم ہیں، پاکستان کے اہم شہر کراچی میں اسکول کے اوقات کے دوران سینکڑوں بچے سڑکوں پر کام کرتے ، بھیک مانگتے اور نشے میں گومتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔جن کے پاس اسکول کی فیس اخراجات کے لیے سرمایہ ہی میسر نہیں ہوتا جس کے باعث زمانہ انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ایسے بچے بچپن ہی سے اپنا پیٹ پالنے کے لیئے مزدوری کرتے ، بھیک مانگتے ، اور سڑکوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔

اِس مسئلہ کو کراچی کی رہائشی خاتون سیدہ انفاس علی شاہ نے شدت سے محسوس کیا۔ انہوں نے گلیوں میں پھرنے والے ایسے بچوں (اسٹریٹ چلڈرن) کی دیکھ بھال کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا تاکہ گلیوں میں پھرنے اور کام کرنے والے بچے اسکول بھی آئیں۔ اسٹریٹ چلڈرن کی اصطلاح میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو سڑک پر اپنی رات گزارتے ہیں یا پھر وہ بچے ہیں جو سڑکوں پر کام کاج کرتے ہیں اور پھر رات کو واپس اپنے خاندان کے پاس چلے جاتے ہیں۔سیدہ انفاس علی شاہ کا کہنا ہے  کہ ۲۰۱۴ء میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اُنہوں نے سوچا کہ وہ گھر سے باہر نکلیں اور کچھ مثبت انداز سے بچوں کے لئے کام کریں۔ اِس طرح کے کاموں کے لئے پہلا قدم اٹھانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ بچوں کو اسکول لانے کے لئے قائل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ بیشتر بچے یومیہ بنیادوں پر کام کرتے ہیں، اور اکثریتی جگہوں میں یہ بچے چند سو روپے کمانے کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر گالیاں سنتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ تشدد کو بھی برداشت کرتے ہیں۔سیدہ انفاس علی شاہ نے ہمت پکڑی اور کراچی کے علاقے کلفٹن میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے بحریہ فلائی اوور کے نیچے فٹ پاتھ پر چٹائی بچھا کر کام کا آغاز کیا۔

یہ عام تاثر ہے کہ گلیوں میں پھرنے والے بچوں کو پڑھائی لکھائی سے دلچسپی نہیں ہوتی لیکن وہ اِس کے برخلاف بچوں کی دلچسپی دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ فٹ پاتھ پر قائم اسکول میں بچوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ چٹائیاں، کرسیوں اور میزوں سے تبدیل ہوگئیں۔ اپنے اِس کام کو بہتر طور پر سرانجام دینے کے لیے انہوں نے ٹیچرز، ایک گارڈ اور کچھ مددگاروں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ بچوں کے پھٹے پرانے کپڑے، نیلے اور سفید رنگ کے یونیفارم سے تبدیل ہوئے جبکہ بچوں کو جوتے بھی مہیا کئے گئے۔

روزانہ صبح چھ بجے ڈیفنس کے علاقے اورعبداللہ شاہ مزار کے سامنے ایک فٹ پاتھ، لال رنگ کی میزوں، کرسیوں، بچوں، اساتذہ، مائیکرو فون، بلیک بورڈز، پینسلوں اور کتابوں کے ساتھ اسکول میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب سورج ڈوبنے لگتا ہے تو بچے اور اساتذہ گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں جبکہ کرسیوں و میزوں سمیت دیگر سامان بھی واپس ٹرک میں رکھوادیا جاتا ہے اور اگلے دن پھر سارا سامان دوبارہ اُسی مقام پر واپس لایا جاتا ہے۔نیلم کالونی کے قریب فٹ پاتھ اسکول کے اِس پروجیکٹ میں ۶۰۰ بچے زیرِ تعلیم ہیں جن کی بڑی تعداد گلیوں و سڑکوں پر پھرنے والے بچوں پر مشتمل ہے جو سڑکوں پر مختلف اشیاء فروخت کرکے اور ٹریفک سگنل پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرکے روزگار کماتے ہیں۔ اسکول میں تقریباً ۱۵  اساتذہ ہیں جو صبح ۸  بجے سے دوپہر  ۲  بجے تک تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہتا ہے جبکہ فٹ پاتھ دن کے اوقات میں بچوں سے بھرا رہتا ہے۔ بچوں کو مائیکرو فونز کی مدد سے اِس عارضی اسکول میں سبق پڑھایا جاتا ہے۔ بچے کافی تیزی سے سیکھنے لگے ہیں۔ مستقل محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ بچے کچھ انگریزی جملے کہنے اور اردو کہانیاں پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں، جبکہ سادہ حساب کتاب بھی سیکھ گئے ہیں اور صرف دو سال کے دوران یہ انتہائی قابل ذکر پیش رفت ہے۔قرب و جوار کی کچی بستیوں کے لوگ یا انتہائی محدود آمدن والے افراد بھی اپنے بچوں کو یہاں پڑھنے بھیجتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں بچوں کے اندر مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ بچوں کی سوچ بڑی ہورہی ہے اور ڈاکٹرز، انجینئرز سمیت دیگر پیشہ ورانہ شعبوں کی جانب اُن کی آگہی بڑھ رہی ہے۔اِس اسکول میں ایسے ذہین ترین طالبعلم بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں جو وسائل کی عدم فراہمی کے سبب پڑھنے اور کھیل کود کی عمر میں مشکل حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر قریبی بنگلوں، عمارتوں اور دکانوں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ پہلے عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے پاس بچے دن میں سڑکوں پر شاپنگ بیگ بیچتے تھے اور جب رات ہوجاتی تھی تو وہیں سوجاتے تھے لیکن اب وہ رات کو فارغ وقت میں اُسی فٹ پاتھ پر انگریزی اور حساب کا کام کرتے ہیں۔

اِس اسکول کی وجہ سے بہت سارے بچوں کی زندگیاں تبدیل ہوگئی ہیں۔ گلیوں میں پھرنے والے بچوں نے منشیات کا استعمال ترک کردیا ہے، یہی نہیں بلکہ انہوں نے لوگوں کی جیبیں کاٹنے جیسے بُرے کام بھی چھوڑ دیئے ہیں اور اب بہتر زندگی کے خواب کی تعبیر میں مصروف ہیں۔گزشتہ سال اسٹریٹ چلڈرن کے عالمی دن فٹ پاتھ اسکول کے ۴۰۰ طالب علموں نے پرفارمنگ آرٹس کا مظاہرہ کیا اور حاضرین طالب علموں نے اپنے ساتھیوں کی کارکردگی کو بھرپور انداز سے سراہا-سیدہ انفاس علی شاہ اِس وقت اسٹریٹ چلڈرن کی ۷  شاخیں چلا رہی ہیں جن میں مجموعی طور پر ۱۵۰۰ بچے زیرِ تعلیم ہیں۔ اِن میں تین اسکول کراچی اور چار اسکول اندرون سندھ قائم ہیں۔اِن بچوں کو اسکول کی جانب سے یونیفارم اور جوتے مہیا کئے جانے کے ساتھ روزانہ کھانا اور ۵۰  روپے بھی فراہم کئے جاتے ہیں،تاکہ جتنی دیر وہ کام چھوڑ کر پڑھائی کریں اس بدلے انہیں علم کے ساتھ ساتھ کچھ رقم بھی میسر ہوجائے،شاید یہ دو کروڑ آبادی کا پہلا اسکول ہے جہاں طلبہ اور طالبات تعلیم بمع معاوضہ وصول کرتے ہیں ، لیکن اِس حوالے سے لوگوں کی جانب سے زیادہ تعاون نہیں کیا جاتا۔ لیکن اِس کے باوجود سیدہ انفاس علی شاہ کا مکمل وقت اِن بچوں کے ساتھ گزرتا ہے، اور اِس کام میں خرچ ہونے والے وسائل کا بندوبست وہ اپنے فلاحی ادارے اوشن ویلفیئر آرگنائیزیشن کی طرف سے سرانجام دے رہی ہیں۔اس آرگنائزیشن کی جانب سے نہ صرف اسٹریٹ چلڈرن بلکہ بے سہارا خواتین کو بھی کئی ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنی محنت سے اپنا گزر بسر کرسکیں۔

اِس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ تعلیم کے ساتھ بچوں کو شعور آتا ہے۔ معاشرے کے باشعور افراد ہی ملک کو آگے لیکر چلتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں بھی اپنے ملک کو مثبت انداز سے آگے بڑھانے میں اپنے اردگرد گلیوں میں پھرنے والے بچوں کا خیال رکھنا چاہیئے اور ہمیں بھی اِس کام میں ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہیئے۔ بے شک اِس کام کے نتائج معاشرے میں فوری طور پر نظر نہیں آتے لیکن دور رس نگاہ سے دیکھیں تو اِس کام سے معاشرہ پائیدار اور مستحکم انداز سے آگے بڑھتا ہے۔یقیناً   یہ کام آسان نہ تھا کیونکہ بچوں کو بھیک مانگے پر مجبور کرنے والے مافیہ کے خلاف ایک قدم تھا لیکن ہمت اور حوصلے سب کام آسان ہوجاتے ہیں ،ملک میں اپنے شہریوں کو تعلیم دینا حکومت کا کام ہے لیکن اگر وہ نہ کریں تو ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ۔لیکن اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری بھی نہ کرے اور مزیدایسے لوگوں کو جو اپنے عزم و حوصلے کی بنیاد پر ایسے  ناممکنات کو ممکن  بنائیں،  ان  کی راہوں میں روڑے اٹکائیں، تو ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم کم از کم اپنے اپنے حصے کا احتجاج ضرور کریں ، گزشتہ سال  گورنر سندھ  زبیر احمدکے پروٹوکول عملے کی طرف سے بھی ان  کو دھمکایا گیا تھا کہ گورنر سندھ روزانہ اس راستے سے گزرتے ہیں اس لیے اس فٹ پاتھ سے یہ اسکول ختم  کرادیئے جائیں ، اور اب ایک بار پھر  سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ کی بیٹی ناہید درانی جو اس وقت سندھ ایجوکیشن فاونڈیشن کی ایم ڈی ہیں، ان کی طرف سے محترمہ انفاس زیدی کو دھمکیاں موصول ہورہی ہیں ۔سندھ حکومت کی کرپشن کے باعث ملکی و غیر ملکی ڈونر ایجنسیاں سندھ ایجوکیشن فاونڈیشن کو فنڈز دینے کیلئے تیار نہیں۔ ناہید درانی اب اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئےمحترمہ  انفاس علی شاہ سے فٹ پاتھ اسکولز چھین کر اس کی ساری محنت کا کریڈٹ خود لینا چاہتی ہے اور یہ دکھا کر ڈونر ایجنسیوں سے فنڈز ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ اس نے سیدہ  انفاس علی شاہ کو اپنے دفتر بلا کر دھمکیاں بھی  دیں کہ دو دن میں یہ سب کچھ نہ سمیٹا تو ملک ریاض اور آئی جی سندھ و دیگر اعلیٰ حکام سے کہہ کر زبردستی بوریا بستر گول کروا دوں گی۔( یہ بات ابھی تک الزام  ہے ، اس لئے سندھ ایجوکیشن فاونڈیشن کا موقف جاننا بھی ضروری ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن بحیثیت پاکستانی  ہم اگر  سمجھتے ہیں کہ وہ  اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے جو اسکول نہیں جاسکتے  یہ ان چند سرپھروں کی ان تک پہنچنے کی کوشش ہے،اور ہمیں ان اسٹریٹ چلڈرن کو پیسے دے کر بھکاری نہیں بنانا ، بلکہ جو لوگ ان بچوں میں شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ  یہ بچے غلط کام ، نشوں کو چھوڑکر علم حاصل کرکے اپنا مستقبل بہتر بنائیں۔تو ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے ۔(اگر واقعی یہ کام خلوص نیت اور انسانیت کی خدمت کی بنیاد پر ہی شروع کیا گیا ہے)۔گر ہمیں اپنا مستقبل محفوظ کرنا ہے تو ان کی  مدد کیجئے۔

(نوٹ: مضمون کی تیاری میں اعداد و شمار مختلف مضامین سے مدد لئے گئے ہیں)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply