• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جنسی تعلیم ، ایک حساس مگر خطرناک سماجی پہلو۔۔ظفر الاسلام سیفی

جنسی تعلیم ، ایک حساس مگر خطرناک سماجی پہلو۔۔ظفر الاسلام سیفی

سانحہ قصور لاریب کہ ہمارا سماجی واخلاقی المیہ ہے مگر اس سانحاتی آڑ میں فکری ابہامات،سماجی انتشار،غیر اخلاقی اقدار اور متنازعہ افکار کا پرچار اس سے زیادہ مذموم اور پراگندگی افکارکا مظہر ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کسی سماجی بے اعتدالی کو موضوع بحث کیوں بنایا جا رہا ہے سوال مگر یہ ہے کہ غیر متعلقہ زاویہ نگاہ ونکتہ نظر کو کیونکر مسئلہ کا حل تجویز کیا جا رہا ہے؟زیر بحث حالات میں جنسی تعلیم کو عنوان گفتگو بنانا غیر متعلقہ وغیر سنجیدہ اظہار رائے ہی نہیں ایک حساس سماجی مسئلے پر غیر محتاط وغیر ذمہ دارانہ زاویہ فکر بھی ہے۔

جنس اور جنسی تعلیم (sex education)فکری طور پرافراط وتفریط پر مبنی دو مختلف زاویہ نگاہ رکھتی ہے، تہذیبی مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک زاویہ فکر روحانیت کا معیارہی جنسیت (sexuality libido)کو یکسرنظر انداز کرنا قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا نکتہ نظراسے لائق پرستش تصور سمجھتا ہے،کلاسیکل ہندوازم اور ہندوازم انہی دو انتہاؤں کا وہ تہذیبی منظر ہے جنہیں ایک نظیر کے طور پر دیکھا اور پیش کیا جا سکتا ہے، اسلامی توضیحات اس باب میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ایسا معتدل منہج ہیں جو جنسی تسکین،معاشرتی نکھار،جسمانی راحت اور سماجی وخاندانی زینت کے ہمہ جہتی پہلوکے ساتھ اخلاقی ومعاشرتی تناظر میں حلال وحرام،جائز وناجائز اور پاکیزگی ونجاست کی جزوی تفصیلات کے ساتھ جنسیت (sexulaity libido) کو عنوان بحث بناتی ہیں۔

دورجدید میں جنسیت وجنسی تعلیم کا مفہوم اس کے فلسفیانہ پہلوؤں اور استدلالی خدوخال سے قطع نظر محض جنسی ہوس کی تسکین کے محفوظ طریقوں (methods)اور مادر پدر آزاد سماج (free sex society)سے آگے کچھ نہیں ۔ جنسیت کے اس مفہوم کی صورت گری اس یورپین سماج نے کی جسکی بنیاد مادہ پرستی (materialism) انفرادیت پسندی (andividualism) اور لادینیت (secularism)کے تین ستونوں پر قائم ہے اور اس پروردہ فکر نے جس کی چولیں ہلا کر رکھ دیں،بدقسمتی سے ہمارے نوزائیدہ دانشور اسی مفہوم کے علمبردار اور اسی تصور کا عملی تشکل چاہتے ہیں،اور یہی وہ مفہوم ہے اقوام متحدہ جسے ”sexual and reproductive health and rights“ کے الفاظ کے ساتھ حقوق کا عنوان دے کر اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔

ہمیں اعتراف ہے کہ جس سماج میں معصوم کلیاں نشانہ ستم بن رہی ہوں وہاں کچھ تو لازماً  غلط ہو رہا ہوتا ہے مگر وہ کچھ کہاں ہے اس کا تعین جتنا ضروری ہے اتنا ہی احتیاط طلب بھی،ہم مگر اسی نکتہ کی ہی لطافت کو سمجھ نہیں پاتے،تعلیم وتربیت سے لے کر معاشرتی اقدار وسماجی تعمیر تک مغربی تقلید میں ہم جب بھی بہکے ادھر ہی بہکے،سوال کسی ایک سماجی بے اعتدالی کا ہوتا ہے مگر ا سکا حل ام الامراض تجویز کیا جا تا ہے بقول میر تقی میر کہ

”میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب .

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں “

زیر بحث حالات میں جنسی تعلیم کو داخل نصاب کرنے کا مشورہ کوئی صائب نکتہ نظر تو کجا مسئلہ کو مزید گھمبیر کرنے کی ایک دانستہ کاوش لگتی ہے،آپ کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ بچوں کی جنسی آگہی معاشرتی درندگیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو سکتی ہے؟ لاریب کہ یہ احمقانہ زاویہ نگاہ ہے،کیا ہم عملی زندگی میں کوئی ایک نظیر بھی اس تعلیم کے خوشگوار اثرات کی پیش کر سکتے ہیں؟ہر گز نہیں بلکہ اس کے برخلاف اس کے مضرات کی لمبی داستانیں رقم ہو ہو کر تاریخ کا بھیانک باب بنتی جا رہی ہیں،چنانچہ بچوں کے جرائم کے خلاف ایک تحقیقاتی سنٹر کے ڈائیریکٹر ”ڈیوڈ فینکلور“کے مطالعاتی نتائج کی ہوش ربا تفصیلات بتلاتی ہیں کہ یورپ میں ہر پانچ بچیوں اور ہر بیس بچوں میں ایک جنسی ہوس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ”child abuse statistics“ کی آٹھ ستمبر 2017ء کی رپورٹ بتلاتی ہے کہ امریکہ میں چودہ سال سے سترہ سال تک کے بچے مستقلا خطرے کا شکار رہتے ہیں نیز انسانیت کے اس نام نہاد ٹھیکیدار کی سماجی درندگی کا عالم یہ ہے کہ فقط سال 2015ء میں 683000بچے زیادتی کا شکار ہوئے، یونیورسٹی آف پینسلونیا کے ”رچرڈ ایسٹس“ اپنی تحقیق میں انکشاف کرتے ہیں کہ امریکہ،کنیڈا،سویڈن،جرمنی اور برطانیہ میں سات سال سے انیس سال تک کے بچوں سے ذیادتی کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جو ایک خوفناک شرح ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی ماحول کا بھیانک چہرہ بھی ہیں ، کنیڈا کے ایک سکول میں ”جیرارڈمک گلی“ نامی ٹیچر نے اپنے سٹوڈنٹس کو ہی ہوس کا نشانہ بنا کر ایک ایسی مثال رقم کی جسے جنسی تعلیم کے نقد فوائد میں شمار کیا جا سکتا ہے،برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ کے خوفناک جنسی سکینڈلز اور وزراء تک کی خود کشیاں جنسی تعلیم کے ہی ہوش ربا نتائج ہیں ،ہالی وڈ کے مشہور آسکر ایوارڈ یافتہ پروڈیوسر ”ہاروی رائن سٹائن“ کے منظم جنسی جرائم ہالی وڈ اور امریکہ کا مکروہ چہرہ ہیں۔

حضور والا……..تو کیا ہم ایساسماج چاہتے ہیں؟پورنوگرافی میں چائلڈ پورن متعارف کروانے والا سماج کیا ہمیں بتلائے گا کہ ہم اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کریں؟طرفہ تماشا یہ کہ سانحہ قصور کے بعد جن معاشرتی عناصر کو اپنا چہرہ چھپانا چاہیے تھا وہی مسلح ہو کرنئے اسلوب کے ساتھ حملہ آور ہیں،ایک لمحہ کے لیے ذرا سوچیے کہ کیا جنسی تعلیم نظری سطح پر کوئی ادنی نسبت بھی زیر بحث حالات کے ساتھ رکھتی ہے؟ حافظ شیرازی تجھے سلام کہ نجانے پاکستانی حلقہ دانشوراں تجھے کس نے اور کیسے دکھلا دیا کہ بھپتی کسی بھی اور خوب کسی ”صلاح کار کجاومن خراب کجا…… ببین تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا“

بدقسمتی سے یہاں ایک اور فکری خلط مبحث بھی کارفرما ہے جو اسلام کی اخلاق ومعاشرہ کے تناظر میں دی جانیوالی جنسیت کے باب میں زریں تعلیمات کا حوالہ دے کر مغربی آوارہ گردی کی فضا ہموار کر رہا ہے،اس حوالے سے ڈاکٹر مبین اختر کی کتاب ”sex education for muslims“ فکری تضادات اور رطب ویابس کا حسین ملغوبہ ہے جسے کوئی صائب نتیجہ مل سکا نہ راست فکری منھج،ڈاکٹر صاحب موصوف قرآن وسنت کے حوالے دے دے کر جس جنسیت کو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالات حاضرہ میں اسکے عملی انطباق پر بجائے خود شرمسار سے ہو کر رہ گئے،میری نظر میں یہ لوگ فکری طور پر ذیادہ پسیماندہ ہیں جو مغربی بے اعتدالیوں کا جواز قرآن وسنت میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں،مگر یہ طبقہ فکر جتنا قابل رحم ہے اسی قدر خطرناک بھی،اسکے تباہ کن نظریات ہمارے سماج کو بھیانک تبدیلیوں کی طرف لے جارہے ہیں چنانچہ ”Bargad“ نامی ایک این جی او کی خوفناک سرگرمیوں کا ابھی حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لے کر اسپر پابندی عائد کردی جو جنسی تعلیم کے نام پر طلبا ء وطالبات کو اخلاق باختگی،فحاشی وبے حیائی پر ابھارنے میں مصروف کار تھی،سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے منظور شدہ نصاب میں ”life skilled“ کے نام سے جس جنسی بے راہ روی سے نونہالان قوم کو شناسائی دلائی جا رہی ہے وہ ہماری تعلیمی پالیسی سے متعلق ریاستی کارپردازوں کی سنجیدگی ولیاقت کو طشت ازبام کررہی ہے،بتلایا جا رہا ہے کہ ایک اور ”وی ایس او (ویلج شاد آباد آرگنائزیشن) نامی ادارہ جنسی خرافات کے فروغ کے لیے مصروف جہد ہے جس کی سرگرمیاں ریاستی اداروں کے لیے یقیناً  لمحہ فکریہ ہیں۔

میری نظر میں جنسی تعلیم ایسا حساس مسئلہ ہے جوخطرناک سماجی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے،اس باب میں ادنی تقصیر نسلوں کی تباہی اور لاتعداد سماجی جرائم جنم دے گی،یورپ جن حالات سے گذرا یا گذررہا ہے ان حالات میں اپنے سماج کو دھکیلنے کی دانستہ کوششوں سے باز رہا جائے،اس عنوان کو نظری سطح پر مکالموں کا موضوع بنایا جائے جس میں ہر حلقہ فکر کو اپنے خیالات وخدشات کے اظہار کاموقع دیتے ہوئے کسی صائب متفقہ نکتہ نظر کو اپنایا جائے،مذھبی سیاسی جماعتوں کے خیالات وتجربات سے بطور خاص رہنمائی لی جائے کہ یہ مسئلہ تعلیمی سے زیادہ سماجی وسیاسی پہلورکھتاہے،اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ ہی درست اور برمحل رائے معلوم ہوتی ہے،سائنسی علوم کے ساتھ شرعی تعلیم،محرم وغیر محرم کے احکامات،پردے کے مسائل،فحاشی وبدکاری کے دنیاوی واخروی مضرات،اسلامی شخصیت کی تعمیر اور اپنے مذہب وکلچر سے شناسائی دلانے کا اہتمام کم از کم ہماری سماجی بے اعتدالیوں کو باآسانی ختم کرسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہم اپنے سماج کو بچانے کے لیے مغربی جنسی تعلیم کو داخل نصاب کرنا مسئلے کا حل سمجھ رہے ہیں تو یقینًا ہم فکری مغالطوں پر کھڑے ہیں،ہمیں مان لینا چاہیے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ بجائے خود مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے انسانی وسائل،افکار ونظریات اور ذرائع وخیالات پر اعتماد کے بجائے فطرت کے سرمدی اصولوں سے رہنمائی لینا ہی درست و صحیح منہج ہے،مغرب کے آلودہ سماج سے نہیں مدنی ریاست کے خدوخال اور تعلیمات نبوی سے استدلال   کی ضرورت ہے ،ہمیں ذہن نشیں رکھنا ہوگا کہ صراط مستقیم یہی ہے اور اسی سے ہمارے جملہ مسائل کاحل ممکن ہے،اب یہ ہم پر موقوف ہے کہ ہم اسے کب سمجھتے اور زیرعمل لاتے ہیں۔

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply