وبا کا موسم ایک نعمت بھی ہے۔۔محمد جمیل آصف

فیصل مسعود صاحب کا جہیز پر کالم 3 اپریل کو پاکستان کے ایک اخبار 92 نیوز میں شائع ہوا ۔
ہم بہت سے موضوعات پر لکھتے ہیں اکثر سماجی ، معاشرتی، سیاسی مسائل پر سیر حاصل تجزیے بہت سے قلم نگاروں کی نوک قلم سے ہم تک پہنچتے ہیں اور بلا شبہ معاشرے کو بہت زیادہ آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔
یہ کالم اپنے موضوع کے حوالے سے اس لیے بھی منفرد ہے کہ اس میں معاشرے کے سب سے بڑے مسئلے کے ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے ۔

جہیز ایک ایسی معاشرتی لعنت اور ناسور ہے، جس کے لیے معاشی طور پر کمزور تو کمزور بظاہر بڑے بڑے دین دار اور معاشی، معاشرتی طور پر بلند مقام رکھنے والے طبقات بھی رال ٹپکاتے نظر آتے ہیں

ہندو مذہب میں عورت کے مرتبہ اور پھر مختلف ادوار میں ہندو معاشرے میں تبدیل ہوتی اس کی حیثیت کو بھی واضح کیا ہے ۔
جہیز کی لعنت کے آغاز پر بھی ان کی رائے اور تحقیق حقیقت کے قریب تر ہے ۔ شادی کے بے جا اسراف اور اخراجات پر ہوش ربا تخمینہ جو صرف ایک مڈل کلاس طبقے کی شادی سے متعلق ہے معاشرتی سوچ پر بہت سے سوالات اٹھاتا ہے ۔ فیصل مسعود صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں
“مڈل کلاس پاکستانی گھرانوں میں عام درجے کی ایک شادی پر لڑکی والے قیمتی عروسی جوڑوں ، زیورات اور جہیز میں دئیے جانے والے سامان پر اوسطاً 50 لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں دونوں طرف بارات اور ولیمہ کی مد میں دس لاکھ سے لیکر 20 لاکھ تک خرچ کرتے ہیں ۔”

کالم نگار کے دئیے گے اعداد و شمار سے تھوڑا بہت اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے مکمل انکار ممکن نہیں ۔ ناک رکھنے، نمود و نمائش، گدھ نما رشتے داروں کی فرمائشی اشیاء اور بیٹی کے اچھے مستقبل کے لیے والدین، بہن، بھائی اپنے اثاثوں کے ساتھ ساتھ قرضوں کی مد میں اپنی خودداری کو بھی طویل عرصہ کے لیے گروی رکھ دیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فیصل مسعود صاحب بیٹی کی پیدائش پر معاشرے میں متضاد رویے کو یہی وجہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
“انہی خرافات کی بنا پر معاشرے میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان کی پیدائش پر ماں باپ کے کندھے جھک جاتے ہیں ۔”
لالچ، طمع اور طفیلیے مزاج افراد اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اکثر مذہب کی آڑ لینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور جہیز کے جواز کے لیے حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کی شادی پر دیئے گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کو جہیز سے تشبیہ دیتے ہیں ۔حالانکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی نہیں  ۔
محترم کالم نگار لکھتے ہیں
“حق مہر کی رقم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹا پیسنے والی چکی، چند برتن اور معمولی اشیاء خرید کر میاں بیوی کے حوالے کیں ۔ بدقسمتی سے حق مہر سے خریدی اشیاء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیٹی کے لئے جہیز قرار دے کر جہیز کا جواز گھڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔”
یہاں وہ شادی کے بنیادی پہلو پر لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔
” شادی کا صرف ایک کھانا ہے جو ولیمہ ہے اور ولیمہ صرف لڑکے کی ذمہ داری ہے ۔بدقسمتی سے سوئی سے لیکر کار اور گھر تک کی ذمہ داری لڑکی کے گھر والوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے ۔”
کالم بلاشبہ اول و آخر بہترین تحریر اور ہر پہلو سے جہیز جیسے ناسور کی بیخ کنی کرتا ہے ۔
اسلام سادگی کا درس دیتا ہے ۔
بقول صاحب کالم کے اللہ نے آپ کو وسائل سے نوازا ہے تو بہت سے مقام ایسے ہیں جس پر پیسے کا درست اور جائز استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
صرف پیسے کی نمود و نمائش کرنے اور دیگر متوسط اور کم طبقات کو اس چلن میں ذہنی اذیت اور احساس کمتری سے دوچار کرنا اخلاقی گرواٹ کے سوا کچھ نہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply