سیاستدان ہے یا اوتار/عبدالرؤف

عمران خان بھی ہمارا ہیرو ہے اور شاہد آفریدی بھی  ۔ دونوں کی اپنی اک پہچان اور شناخت ہے۔ دونوں عوام میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں۔دونوں کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ ہر وہ شخص ہمارا ہیرو ہے جس نے ملک کا نام روشن کیا ہو ۔  یہ ہیروز ہمارے لیے بھی قابلِ فخر ہوتے ہیں۔ ہم انھیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ان کی تضحیک کرتا ہے تو وہ پوری قوم کی تضحیک ہوتی ہے۔
اب اگر کوئی قومی ہیرو کسی سیاستدان کے بارے میں اپنی کوئی رائے رکھتا ہے تو یہ اسکی ذاتی رائے ہے ۔ اور اسے رائے ہی سمجھا جائے۔ اسے رائی کا پہاڑ نہ بنایا جائے۔
اگر شاہد آفریدی نے عمران خان کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو اس میں بُرا کیا ہے۔؟ اک چھوٹی سی بات پر واویلا کیسا۔
خان کے کارکنوں کو تھوڑا تحمل سے کام لینا چاہیے۔ ہر وقت جذبات کی رو میں نہ بہا کریں ، دوسروں کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں ۔
اگر شاہد آفریدی کا بیان کوئی سیاسی انداز کا تھا تو پھر جواب بھی اسی انداز میں دینا چاہیے تھا  لیکن سوشل میڈیا  پر ہر کسی کی تذلیل کرنا ،اس کے خاندان کے پرخچے اڑا دینا ،یہ کہاں کی تربیت ہے۔؟ ہر کسی کو حق ہے وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔

اک سابقہ کھلاڑی جو عوام میں اپنی اک مقبولیت رکھتا تھا ۔ اس کی اپنی اک شناخت تھی اس نے قوم کو بیانوے کا ورلڈ کپ جتوا کر دیا تھا۔  وہ صرف کرکٹر ہی نہیں بلکہ اک پڑھا  لکھا  اور آکسفورڈ کا  تعلیم یافتہ شخص  تھا۔ اپنے زمانے میں ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ ان کے قصے کہانیاں آج بھی عوام میں زبان زد عام ہیں۔دنیا اسے عمران خان کے نام سے جانتی ہے۔
خان صاحب نے اپنی اک الگ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور اس سیاسی جماعت کا نام تحریک انصاف تھا۔
اب خان صاحب سیاسی میدان میں تھے اور اپنے مخالفین پر سیاسی الزامات لگاتے رہتے تھے۔اور مخالفین بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ پہلے پہل تو یہ لڑائی سیاسی انداز میں تھی ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بد مزگی پیدا ہونے لگی ۔ سیاست دان اک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگے۔ لائیو پروگرام ٹاک شوز میں اک دوسرے کے گریبانوں  پر ہاتھ ڈالنے لگے ۔

جہاں سیاستدان اک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے لگے وہیں کارکنوں نے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کردئیے۔ اور رہی  سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی۔
کچھ لوگ اس کی تمام تر ذمہ داری پی ٹی آئی کے  کرتا دھرتاؤں  پر ڈالتے ہیں۔

اس وقت بھی عمران خان عوام میں اک مقبول لیڈر ہے۔ اور کوئی بھی کارکن عمران خان پر تنقید برداشت نہیں کرتا  لیکن تنقید کرنا اور  سامنے والے کو بےعزتی کرنا دونوں الگ الگ خصوصیات ہیں۔ تنقید ہمیشہ مثبت ہوتی ہے۔ تنقید کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ غلط کو ایک طرف رکھ کر مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا ۔ نا کہ کسی کی بےعزتی شروع کردینا ۔ اس کی عزت کو اچھالنا۔  غلیظ گالیاں بکنا۔ یہ تنقید نہیں بلکہ  صرف اور صرف دوسرے کی  دلآزاری ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر اس غلط کام کی نفی ہونی چاہیے جس سے انتشار یا باہمی دست و گریباں ہونے کا اندیشہ ہو۔
افسوس ہے کہ مخالفین نہ مثبت روئیے کو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی مثبت تنقید کو۔ اس سے پہلے مولانا طارق جمیل صاحب نے عمران خان صاحب کی تعریف میں چند کلمات کہہ دیئے تھے۔ اس وقت بھی مخالفین نے سوشل میڈیا پر اسی قسم کا ہنگامہ بپا کیا تھا مولانا صاحب کے خلاف۔
دیکھا جائے تو ایک سیاست دان کو یہ سب سہنا پڑتا ہے۔ اب آپ ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی اثاثہ بھی ہیں  ۔ آپ پر منفی اور مثبت دونوں طرح کی رائے قائم کی جائے گی ۔
اپنے لیڈر کو پسند کرنا ایک حد تک تو درست ہے، لیکن اسے پوجنا درست عمل نہیں۔ اک لیڈر کے لئیے اپنی عقل کو موقوف کردینا، اس کے عشق میں اندھے ہوجانا۔ اس ستر سالہ لیڈر کو تشبیہات اور استعاروں میں لانا۔
یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔؟

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply