اجڈ پن، بزدلی اور صبر۔ دماغی گتھیاں/عبدالسلام(انڈیا)

ہمارے سماجی اور پیشہ ورانہ رویے کو سمجھنے کے معاملے میںReaction اور Response کے فرق کو سمجھنا مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں پر ری ایکشن سے مراد کسی واقعے یا مشاہدے کی صورت میں فوری اکساہٹ کے تحت ردِعمل دکھانا ہے اور رسپانس سے مراد کسی واقعے یا مشاہدے کے نتیجے میں سوچ سمجھ کر ایک مؤقف اختیار کرنا ہے۔

ہمارے دماغ میں ایک حصّہ ہوتا ہے جسے ایمگڈلا (Amygdala) کہتے ہیں۔ یہ حصہ ہمارے جذبات بشمول خوف اور غصے کو پراسیس کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک الارم سسٹم کی طرح کام کرتا ہے، جو جسم کے وسائل کو تیزی سے متحرک کر دیتا ہے تاکہ Fight and flight response کے ذریعے خطرات کا سامنا کیا جا سکے۔ اس ردِعمل کے دوران اس قسم کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جیسے دل کی دھڑکن تیز ہو، سانسیں پھولنے لگیں ، چہرہ لال ہوجائے وغیرہ۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمارا ایمگڈلا ہمارے لئے کسی خطرے کا مقابلہ کرنے  یا بھاگنے کے لئے فوری توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ایمرجنسی ردعمل کا طریقہ کار ہے جو ہمارے آباؤ اجداد کی بقا کے لیے بہت ضروری تھا۔ انسانی دور کے عہد طفولیت میں جب کہ مکمل معاشرتی نظم موجود نہیں تھا اور انسان اکثر اپنا گزارہ شکار اور جنگلی پھلوں سے کرتے تھے ،ہمارے دماغ میں اس قسم کے فوری ردعمل کا ہونا ضروری تھا اور اس کے بغیر انسانوں کی بقاء انتہائی مشکل تھی۔ مثلاً  جنگلی جانوروں کے حملے کی صورت میں یا قبائلی رقابت اور وسائل کے قبضے کی جنگ کے لئے اس قسم کی بہادری انسانوں کی  بقا کی جنگ میں جیت حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرتی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایمگڈلا کے ذریعے پیدا ہونے والے محرکات ماضی میں ہماری بقا کی جنگ کے آثار ہیں، جو قدرتی انتخاب کے ذریعے ہمارے دماغوں میں مضبوطی سے چپکے ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم پر یہ ایک حیاتیاتی جبر یا Biological compulsion ہے۔ یعنی ہم کسی حد تک اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔

البتہ جدید معاشرے کے نازک منظر نامے میں، ایمیگڈالا کے ذریعہ پیدا ہونے والا خودکار رد عمل اکثر منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ جب ہم فوری جذباتی رد عمل یعنی Reaction ظاہر کرتے ہیں تو چونکہ یہ ایک ایمرجنسی سسٹم کے تحت ہوتا ہے تو ہمیں اس کے نتائج پر غور کرنے کا زیادہ موقع  نہیں ملتا۔ اس وجہ سے عموماً ہمارا رویہ جارحانہ ہوتا ہے اور ایک مہذب یا پروفیشنل ماحول کے تناظر میں یہ ناقابل قبول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس Response میں ایک زیادہ دانستہ اور سوچا سمجھا عمل شامل ہوتا ہے، جس میں دماغ کے اعلیٰ مراکز جیسے پریفرنٹل کورٹیکس شامل ہوتے ہیں، جو صورت حال کا اندازہ لگاتے ہیں اور زیادہ نپے تلے انداز میں عمل کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ہمارے ایمگڈلا کے تحت کام کرنے والے جذباتی ردعمل کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت جدید دنیا اور پیشہ ورانہ تناظر میں خاص طور پر اہم ہے۔ شدید غصہ یا جارحانہ طرز عمل کیریئر کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور پیشہ ورانہ تعلقات کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر ایک شخص اپنی کمپنی میں”جھگڑا” کرتے ہوئے یا “چلّاتے” ہوئے پایا جائے تو وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہوتا ہے۔ صبر و تحمل اور چیلنجوں کا سوچ سمجھ کر جواب دینے کی صلاحیت کو فروغ دینا مہذب معاشروں میں قابل قدر ہے اور طویل مدتی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ کبھی کبھی کسی پیشہ ورانہ سیٹ اپ میں تنازع اتنا بڑھ سکتا ہے کہ ایک شخص غصے سے بالکل ہی بے قابو ہوسکتا ہے اور انتہائی شکل میں چلانے اور جسمانی زور آزمائی تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ اس کیفیت کو سائنسی زبان میں Amygdala Hijack کہتے ہیں۔  گویا کہ ہمارے حیوانی دماغ نے ہمارے شعور کو اغوا کر لیا ہو۔ اسی لئے انسانی دانش اور مذاہب میں ہمیشہ غصہ کو قابو کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ غصے کی ابتدا پاگل پن سے اور انتہا شرمندگی سے ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ سماجی و اقتصادی پس منظر اس بات میں اہم کردار ادا کرتا ہے کہ افراد کسی خاص صورت حال میں کس قسم کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ نچلے سماجی و اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ عموماً  اپنے آپ کو بقا کی جنگ میں محسوس کرتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی کی جدوجہد کی وجہ سے ایسا محسوس ہوسکتا کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے اور ایسے میں فوری ردعمل ان کی فطرت کا خاصہ بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ خطرے میں نہیں ہوتے تب بھی عادتاً چھوٹی چھوٹی بات پر فوری ردعمل دکھا سکتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک vicious cycle یعنی برائی کے چکر میں پھنس کر باہر نہیں نکل سکتے۔ یعنی اس قسم کے فوری رد عمل کی عادت کی وجہ سے وہ اپنی معاشی اور سماجی حالت بہتر نہیں کر سکتے، معاشی اور سماجی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ان میں یہ جبلی رد عمل کی عادت جاری رہتی ہے۔ اس چکر سے باہر آنا مشکل ہوتا ہے۔ عام طور پر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ غریب لوگ جاہل اور اُجڈ ہوتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں زیادہ نظر آتے ہیں اگرچہ ہم یہ بات کھل کر نہیں کرتے ۔ اس اجڈ پن کی ایک وجہ یہی برائی کا چکر ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی جیلوں میں کالوں کی آبادی تناسب کے اعتبار سے زیادہ ہوتی ہے۔ کالوں کی غلامی ختم ہونے کے باوجود برائی کا یہ چکر نسل در نسل چلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کالے لوگ فطری طور پر مجرم ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ vicious cycle ہے جو نسلوں تک چلتے رہتا ہے۔ کچھ نئی تحقیقات کے مطابق جو بچے پست سماجی و معاشی پس منظر میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ان میں فوری ردعمل اور Amygdala hijack کے مسائل ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے البتہ ہمیں اس کی جنرلائزیشن اور سٹیریوٹائپ کرنے سے بچنا چاہے۔ اور اگر کوئی اسی برائی کے چکر یعنی vicious cycle سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو ہر ممکن انہیں یہ سہولت فراہم کرنا چاہیے۔

بہرحال دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خوشحال اور مالدار لوگ بھی بڑے بڑے فراڈ کرتے ہیں لیکن ان کے قانون کی گرفت میں آنے کا امکان بہت کم رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے جرائم Reaction کے تحت نہیں بلکہ Response کے تحت آتے ہیں۔ اس لئے آسانی کے ساتھ بچ نکلتے ہیں۔

بہت سے معاشروں میں، جذباتی ردعمل کو اکثر بہادری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کچھ ایسے معاشرے اس بہادری کے شوق میں برائی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتے۔ اگر آپ ایک ہلکا سا اندازہ لگائیں تو دیکھیں گے کہ دنیا کی بہادر اقوام معاشی طور پر پس ماندہ ہونگی۔ میں یہاں پر بھارت کی ریاست راجستھان کی مثال دوں گا۔ یہاں کہ اکثر آبادی راجپوت ہے اور یہ اپنی بہادری پر بہت فخر کرتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راجستھان بھارت کا ایک پس ماندہ ترین علاقہ ہے۔ حقیقی ترقی کے لیے خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت ضروری ہے اور اگر کوئی احتیاط کو بزدلی سمجھتا ہے تو ہمیں خوشی سے ایسی بزدلی کو قبول کرنا چاہیے۔ عمومی دانش اور مذاہب میں یہی بزدلی صبر سے تعبیر کی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ اگر ہمیں حقیقی اور طویل المدتی اہداف حاصل کرنا ہے تو پھر صبر کرنا چاہئے، بلا ضرورت بہادری نہیں دکھانا چاہیے، غصہ پر قابو رکھنا چاہیے اور کسی فوری اکساہٹ کی وجہ سے اپنے اصل مقصد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

البتہ ان سادہ سی باتوں میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی غصہ اور فوری ردعمل انتظامی طور پر بہت مفید ثابت ہوتے ہیں، اس سے متعلقہ افراد کو مضبوطی کے ساتھ ایک پیغام دیا جاسکتا ہے جو کہ لمبی لمبی تقریروں سے نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا ردعمل کب افادیت کی سرحد کو عبور کر کے نقصان دہ علاقے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اگر کسی کو یہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ اپنے ردعمل کو ایک خاص حدود کے اندر رکھ سکتا ہے تو پھر بہتر ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الغرض اگرچہ اس ایمیگڈلا نے اور Fight and flight response نے ایک نوع کے طور پر ہماری بقا میں اہم کردار ادا کیا ہے، جدید معاشرے کی پیچیدگیاں بہتر جذباتی نظم و ضبط کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایمیگڈلا کے زیر اثر پیدا ہونے والے Reaction پر قابو پانے کی مشق کرنا اور شعوری رد عمل کو اختیار کرنا ذاتی تعلقات بشمول ازدواجی تعلقات، پیشہ ورانہ ترقی اور معاشرتی بہتری کے لئے بہت مفید ہیں۔ صبر کی مشق اور مدبرانہ ردعمل، چاہے وہ بزدلی کا الزام لیے ہوئے ہوں حقیقی طاقت کا ثبوت اور ہماری مسلسل بدلتی دنیا میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply