مسجد قاسم علی خان کا چاند۔۔۔مصطفین کاظمی

پورے خیبر پختون خوا میں آج مفتی پوپالزئی صاحب کے اعلان رویت پر عید منائی جا رہی ہے ۔ عید منانے والوں میں میرے وہ دوست بھی شامل ہیں جو سارا سال مفتی صاحب کو  ناجانے کیا کیا کہہ کر کوستے رہتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی عید پاکستان کی بجائے سعودی عرب کیساتھ مناتے ہیں۔

آج کسی دوست نے مسجد قاسم علیخان کو رویت کے متعلق موصول ہونے والی شہادتوں کی   تصویر شئیر کی ۔ مسجد قاسم علیخان پشاور کی اہم ترین مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور قدیم شہر کے دل قصہ خوانی بازار سے متصل مسگراں بازار میں واقع ہے ۔

ہمارا بچپن اسی مسجد کی سیڑھیوں پر کھیل  کود کر گزرا ہے ۔ رمضان کی راتوں اور خاص کر چاند رات پر یہ مسجد سارے شہر کی توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔ اسی بازار میں رمضان کی آخری راتوں میں نوخیز خانہ بدوش عورتیں کانچ کی رنگ برنگی چوڑیوں کے ٹھیلے سجاتیں جن پر خواتین سے زیادہ نوجوان لڑکوں کا  رش رہا کرتا تھا۔ دور دراز سے عید کی  خریداری کے لیے آنے والے لوگ شام کو مسگراں بازار کا رخ کرتے تاکہ مسجد سے عید کا اعلان سن کر گھروں کو لوٹیں ۔

رویت  کے گواہوں کو لوگ بڑے تپاک سے مسجد تک لاتے ،چند ایک کو رستے میں پھولوں کے ہار بھی پہنائے جاتے، بازار کے متعدد دوکاندار ہر سال مسجد میں آ کر حلفیہ گواہی دینے والے عادی گواہوں کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ ایک سال جبکہ ہر کسی کو پورا یقین تھا عید کا اعلان ضرور ہوگا لیکن مسجد سے کسی قسم کی کوئی خبر آ کے   نہیں دے رہی تھی ۔ جب رات کافی ہوگئی تو مجھے اور دوکانداروں کے  چند دوسرے بچوں جنہوں نے سب کے ناک میں دم کر   رکھا تھا کو حتمی اعلان ہونے تک مسجد کی سیڑیوں پر بیٹھے رہنے کی ہدایت دی گئی ۔ ہم نے وہاں پہنچ  کر سب سے پہلے یہ پوچھا کہ کل عید ہے یا نہیں؟۔۔۔  جواب ملا کہ اعلان ہوگا تو سب  کو معلوم ہو جائے گا، پھر پوچھا کہ گواہ نہیں آئے ؟۔۔جواب ملا آئے ہیں تو دیر کس بات کی ہے، ہماری تفتیش نے اچھے بھلے طالب علم  کو سٹپٹا دیا ۔

مسجد میں رہنے والے طلاب ہمیں پہچانتے  تھے، اس لیے بیچارہ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کر سکتا تھا، اسے معلوم تھا معلم صاحب سے اپنی علیک سلیک تھی اس لئے چار و ناچار بتایا کہ ایک گواہی کم ہے ،یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا ۔ اب ہم وہیں جم کر بیٹھ گئے کہ کب گواہیاں مکمل ہوں اور کب عید کا اعلان ہو ۔کچھ دیر کے بعد ایک اسی پچاسی سالہ ضیعف سا آدمی مسجد کے بالکل سامنے آ کر رکنے والے رکشے سے نمودار ہوا اور چاہتا تھا مسجد کے اندر جائے لیکن بیچارے کو مسجد کی سیڑھیاں دیکھنے اور چڑھنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ ہم سے مخاطب ہو کہا، بیٹا مجھے ذرا دروازے تک لے جاؤ رات کو ٹھیک سے نظر نہیں آتا ہم نے کہا بابا کی مسجد کا دروازہ بند ہے بابا جی بولے میرے لئے کھل جائے گا میں چاند کی گواہی لے کر آیا ہوں پہلے تو ہم نے باباجی کا مذاق اڑایا پھر جب یقین ہو گیا کہ بابا جی وہ باقی ماندہ گواہ ہیں تو ہاتھ پکڑ کر اندر تک چھوڑ آئے اور کچھ دیر میں مسجد سے عید کا اعلان ہو گیا ۔

رفتہ رفتہ لوگوں میں کچھ شعور آنے لگا اور دو ایک سال مسجد قاسم علیخان نے ملک بھر سے ایک دن پہلے عید کا اعلان نہیں کیا لیکن اس موقع کو غنیمت جان کر دو تین میل دور مسجد محبت خان جو مسجد سے بڑی اور تاریخی طور پر زیادہ اہمیت کی حامل ہے کے مفتی صاحبان نے ایک دن پہلے عید کا اعلان کرنا شروع کر دیا ،جلد ہی غالباً  مسجد قاسم علیخان والوں کو اپنی افادیت و اہمیت کی  کمی کا احساس ہو گیا اور حسب سابق پھر  سے اسی مسجد سے   عید کا اعلان ہونا شروع ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عجیب بات یہ ہے کہ اب بھی ساری شہادتیں خیبر پختون خوا  کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہیں گویا بقیہ پاکستان میں یا تو چاند نظر نہیں آیا یا پھر دوسرے صوبوں والوں یا تو مفتی صاحب اور یا پھر یوں کہیں کہ مفتی صاحب بقیہ پاکستان کے عوام عاقل بالغ اور عادل نہیں جانتے ۔ خدا بھلا کر ے مفتی صاحب کا کہ حج و محرم اور ربیع  الاوّل کا چاند نہیں دیکھتے وگرنہ پشاور والے اسلامی کلینڈر میں سال نہیں  تو کئی مہینے  آگے نکل چکے ہوتے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply