ایک بانکا کھلاڑی ۔

کچھ لوگوں کے ساتھ ایک المیہ ہمیشہ سے منسلک ہوتا ہے کہ وہ بھلے کوئی بھی کام شروع کر یں، اہم سے عام، جلد بازی ان کے اندر ایک ایسی نیگٹو قوت بن چکی ہوتی ہے کہ وہ اس سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں کر سکتے ۔ کچھ سیانے تو اس بات پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ جو کام جلد سے جلد تکمیل پاے وہ ہی بہتر ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ وہ کام ادھورا نہ رہے یا خراب ہونے کا اندیشہ جاتا رہے ۔

بات جب ایسے کاموں کی چلی ہے جو مکمل نا ہو سکے ہوں تو ایک اصطلاح دماغ میں فوری طور پر دستک دیتی ہے، یو-ٹرن۔ اب جب یہ اصطلاح سامنے آتی ہے تو ایک نام بھی ایسا ہے جو اس سے ایسا جڑا ہے کہ جسے سر سے بال۔ امید ہے آپ بھی وہاں ہی پہنچے ہیں جہاں میں، اور اگر نہیں بھی پہنچے تو میں خود لئے چلتا ہوں، بات ہو رہی ہے عمر ان خان کی ۔

رایونڈ میں جب کوئی ایک ماہ پہلے جو احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی۔ اس میں خطاب کے دوران موصوف نے تخت لاہور کو للکارا اور یہ دھمکی دی کہ میں اسلام آباد بلاک کر کے اسے “سٹنڈ سٹل” کر دونگا۔ اب ایسی بات تب ہی کی جا سکتی ہے کہ جب اسلام آباد آپکی اپنی ذاتی جاگیر ہو، لیکن ایسا نہیں ہے مگر پھر بھی ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے ۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس اعلان کے بعد زور و شور سے تیاریاں شروع کر دیں اور دوسری طرف اس بار معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے بھی جوابی کارروائی کی تیاری شروع کردی ۔اب ھوا کچھ یوں کہ اصل تاریخ جو کہ لاک ڈآون اسلام آباد کے لیے دی گئی تھی اس سے چند روز پہلے ہی اسلام آباد میں ہڑ بونگ کی فضا چھا گئی ۔ ملک بھر سے کچھ اوور ایکسیٹڈ نوجوان اپنے لیڈر کی حمایت میں پہنچ گئے ۔یہ تاثر ملتا رہا کہ جیسے اس بار جو یو-ٹرن کا دامن پہ داغ ہے وہ دھو ڈالنے کی عرض سے عمران خان نے اپنے پارٹی ورکرز کو زیادہ چارج اپ کیا ہو ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اس بار سنگھاسن پہ جھنڈا گاڑے بنا واپس نہیں آئیں گے ۔دوسری جانب حکومت نے ان سے نپٹنے کے لیے نہ صرف اسلام آباد کی پولیس بلکہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے بھی پولیس کی بھاری نفری طلب کر لی تھی اور اس کے علاوہ بہت سے راستوں پر کنٹینرز لگا کے راستے بند کر دیئے ۔

عمران خان نے جیسے سوچا تھا کہ انکے ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں لوگ پہنچ جائیں گے اور اس بار انہیں وزیر اعظم بنا کے ہی دم لینگے، وہ صورت حال بہت کوشش کے باوجود بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ لیکن پھر بھی کافی لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی ذاتی کاوشوں کے نتیجے میں پہنچ ہی گئے ۔مظاہرین نے تماشا شروع کیا اور ایک “کیوس” کی سی فضا بنانے میں کامیاب بھی ہو گئے ۔پولیس نے جوابی کارروائی کی تو لاٹھی چارج سے اور آنسو گیس سے بہت سے لوگوں کو کسی نہ کسی صورت نقصان اٹھانا پڑا ۔

اتنا سب کچھ ہونے کے بعد جب وہ موقع آیا، جب کپتان کو آگے آ کر سب کو لیڈ کرنا چاہیے تھا، اس نے بنی گالا سے ایک پریس کانفرنس کر کے اس سب میں سے نکالنے میں ہی بھلائی جانی ۔ٹھیک ہے کہ کورٹ نے سب فریقین کو طلب کر لیا، لیکن کیا یہ سب کچھ کرنا لازمی تھا؟ کیا لوگوں کو جو کہ عمران خان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، ان کو حکومت کے خلاف ایسی خطرناک کارروائی کرنے کی ترغیب دینا ٹھیک تھا؟ کیا عدالت میں پہلے نہیں جایا جا سکتا تھا؟ دنیا کو ایک اور موقع فراہم کرنا لازمی تھا کہ ہمارے ملک پر مزید تنقید کرو؟

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بھی کام جو عمران خان کرتے ہیں یا کوئی بھی فیصلہ جو عمران خان لیتے ہیں وہ صرف موڈ پر مبنی ہوتا ہے ۔اس کا کسی پولیسی یا ایک مکمل پلاننگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ جب جی میں جو سمائی وہ شروع کر دیا ۔ کبھی ایک دیوار کو ٹکر ماری اور جب وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی تو کچھ وقت کے لیے اپنے ماتھے کو سہلا کے کسی اور دیوار کے درپے ہوئے ۔ آج تک جو الزامات کسی پر بھی لگائے وہ ثابت نہیں کر پاتے مگر شور ہے کہ وہ اسی طرح جاری ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی قوت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے عمران خان کو اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ ہر کام سوچ سمجھ کے اور مکمل ہوم ورک کر کے ہی کرنا چاہیے۔ اگر طبیعت میں جلد بازی والا عنصر غالب بھی ہے تو کم از کم کام مکمل تو ہو، جو شروع کیا ہے ۔ اگر سب ایسے ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب عمران خان اکیلا ہی تقریب میں موجود ہو گا اور شیخ رشید سامنے بیٹھا اکیلے ہی سن کر تھالیاں پیٹ رہا ہو گا۔

Facebook Comments

نعیم اصغر تارڑ
لاگریجویٹ, سٹوڈنٹ آف فلاسفی آیٹ پنجاب یونیورسٹی, فری لینس جرنلسٹ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply