• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دانشوروں کا سیاسی سفر: مارکسی سماجیات سے قوم پرستی تک کی تبدیلی/عامر حسینی

دانشوروں کا سیاسی سفر: مارکسی سماجیات سے قوم پرستی تک کی تبدیلی/عامر حسینی

میں جب ایک دانشور کو بائیں بازو سے نیو لبرل اور پھر قوم پرستی کے راستے سے قوم پرستی کے مرغوب ثقافتی انتقاد کے راستے شاؤنزم کے گڑھے میں گرتا دیکھتا ہوں تو مجھے ڈچ سیاست کے ایک معروف کردار ولہیمس سائمن پیٹرسن فورٹیون کا ترقی پسندی سے انتہائی دائیں طرف جھکاؤ تک کا سفر یاد آجاتا ہے جو آخرکار ایک بائیں بازو کے انتہا پسند کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔

جب بھی کوئی دانشور سماجیات کے مطالعے اور تحقیق کے دوران سماجی معاشی طبقاتی تقسیم کو سماجی مظاہر کو سمجھنے میں ثانوی حیثیت دینے لگے اور وہ ثانوی تضادات کو کسی بھی سماج کے بنیادی تضادات قرار دے کر نتیجے اخذ کرنے لگے وہ لامحالہ شاؤنزم/تعصب کے گڑھے میں گر جاتا ہے ۔ وہ سرمایہ داری کی حرکیات سے جنم لینے والی سماجیات میں سرمائے کے بنیادی کردار کو یا تو ثانوی حیثیت دینے لگتا ہے یا پھر اسے بالکل نظر انداز کر دیتا ہے ۔ وہ طبقاتی تضاد کے زیر اثر پیدا ہونے والے  نسلی، مذہبی تضادات کو مطلق اور بالذات تضادات قرار دے کر جس حل کی طرف جاتا ہے وہ متعصب قوم پرستی کو تقویت پہنچاتے ہیں اور استحصال اور قومیتوں پر جبر روا رکھنے والے حکمران طبقات کو محنت کشوں ، مظلوموں و محکوموں کے درمیان اتحاد کو نہ بننے دینے اور انھیں تقسیم در تقسیم کرنے کے کام آتے ہیں۔

فورٹیون جیسے سابقہ مارکس وادی ان سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے ڈچ ریاست کی حکمران اشرافیہ کی عالمی سرمایہ داری کے نیو لبرل منڈی کی معیشت پر مبنی پالیسیوں سے ڈچ ورکنگ کلاس کے استحصال اور جبر کی صورت حال کی ساری ذمہ داری مسلمان تارکین وطن پر ڈال دی تھی اور ان کا خیال تھا کہ اگر ڈچ سماج سے مسلم تارکین وطن جن میں ایک بہت بڑی تعداد مراکشی مسلم محنت کشوں کی تھی کو ڈچ سماج سے نکال دیا جائے تو ڈچ سماج کی معیشت میں ڈچ ورکنگ کلاس کے برے حالات ٹھیک ہوجائیں گے ۔ ان کی اجرتوں اور مراعات میں جو کمی آ رہی ہے وہ رک جائے گی ۔ وہ ڈچ سماج میں ورکنگ کلاس کی ابتری کی بنیادی ذمہ داری ڈچ سماج میں آنے والے مسلم تارکین وطن پر ڈالتے تھے اور اس کی بنیادی وجہ ان کی “ثقافتی پسماندگی” اور ڈچ سماج کی سیکولر لبرل جمہوری اقدار سے عدم مطابقت اور ڈچ ثقافت میں خود کو جذب نہ کر پانے کو قرار دیا کرتے تھے ناکہ نیو لبرل مارکیٹ سرمایہ داری کو ۔

ہمارے کئی ایک سندھی، بلوچ، پشتون ، سرائیکی ، اردو اسپیکنگ مہاجر اور خود پنجابی دانشور جن کا ماضی مارکس واد سماجیات سے جڑا تھا وہ اپنے علاقوں میں پھیلی معاشی ابتری کا ذمہ دار ان علاقوں میں ہجرت کرکے آنے والے محنت کشوں کی نسلیاتی ثقافتی شناخت کو بناتے ہیں اور وہ حکمران طبقات کی عالمی سرمایہ داری سے جڑت اور اس جڑت سے تشکیل پانے والی معاشی پالیسیوں سے پیدا ہونے والے بنیادی اور ثانوی تضادات ، استحصال اور جبر اور انھیں دبانے کے لیے ریاست مشینری کے جبر کو تنگ نظر شاؤنسٹ قوم پرستانہ ثقافتی انتقاد کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور کم و بیش ساری ذمہ داری دوسری شناخت کے محنت کشوں پر ڈالتے ہیں اور انھیں حکمران طبقات اور ان کے استحصال اور جبر کو برقرار رکھنے والی ریاست کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں ۔

حال ہی میں بہاولنگر میں ریاست کے جبر کے دو آلہ کار اداروں یعنی پولیس اور فوج کے درمیان کھڑے تنازعے کو کئی ایک سندھی دانشوروں نے اسی ثقافتی انتقاد کے تناظر میں دیکھا۔ ان کے خیال میں پنجاب پولیس کے کمزور بلکہ مبینہ بزدلانہ ردعمل کا سبب پنجابیت تھی ، ان کا خیال ہے کہ اگر یہ واقعہ سندھ پولیس اور فوج کے درمیان ہوا ہوتا تو سندھ پولیس کا ردعمل بغاوت اور عام ہڑتال کے منظر میں تبدیل ہو جاتا کیونکہ ان کے خیال میں سندھی ثقافت کا جوہر برتر اور اعلی ہے۔ یہ شاونسٹ ثقافتی قوم پرستانہ انتقاد کچھ ایسے سندھی دانشوروں کی طرف سے بھی سامنے آیا جن کا ماضی فورٹیون کی طرح کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی کا رہا ہے یا وہ پیپلزپارٹی میں بائیں بازو کی جدوجہد سے منسلک رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے سندھی، بلوچ ، سرائیکی اور پشتون شناخت کے کئی ایک دانشور جو خود کو مارکس وادی یا بائیں بازو کی روایت سے منسلک بتاتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے کارپوریٹ بورژوازی حکمران طبقات کی قبضہ گیری، حملہ آوری اور جبر کے ذریعے سرمایہ داری کی لوٹ کھسوٹ اور مارا ماری کا راستا قوم پرستانہ ثقافتی انتقاد پر مبنی سیاسی نکتہ نظر سے روکا جا سکتا ہے جو محنت کی لوٹ کھسوٹ، استحصال پر استوار بنیادی طبقاتی تضاد کو ثانوی درجے پر رکھتا ہے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply