• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت کے آخری بدھ مت آدم خور بادشاہ شری بدت کی کہانی/اشفاق احمد ایڈووکیٹ

گلگت کے آخری بدھ مت آدم خور بادشاہ شری بدت کی کہانی/اشفاق احمد ایڈووکیٹ

گلگت بلتستان کے قدیم افسانوں میں شری بدت کا افسانہ سب سے مشہور ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں بدھ مت دور کے قدیم حکمرانوں میں شری بدت واحد حکمران ہے جس کا نام آج بھی اس خطہ کے لوگوں کے حافظے میں زندہ ہے, جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے. شاید اس لئے مخالفین نے اسے فوق البشر، جادوئی طاقت کا حامل، بدروح اور آدم خور قرار دیا۔

شری بدت گلگت کا آخری مقامی بدھ مت بادشاہ تھا جسے آدم خور بادشاہ بھی کہا جاتا ہے. اس کا اصل نام چندر شری دیوا وکرمادتیہ تھا۔
بقول پروفیسر احمد حسن دانی گلگت کے حکمران شری بدت کی آخری معلوم تاریخ نوشتہ جات کے مطابق 749 صدی عیسوی ہے جس کی تصدیق ہنزہ راک انسکرپشنز ( ہنزہ کے مقدس چٹانوں کے نوشتہ) سے ہوتی ہے، جسے بروشسکی زبان میں ہلڈکوش کہا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ شری بدت کی حکومت ہنزہ نگر چلاس داریل، ہراموش، استور گریز، پونیال، یاسین ،غذر و چترال تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں کئی علاقوں پر مختلف گورنرز حکومت کرتے تھے۔
شری بدت سے منسوب آدم خوری کی کہانی حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتی ہے لیکن صدیاں گزرنے کے باوجود یہ کہانی یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی زندہ ہے ۔

اساطیری یا افسانہ سمجھی جانے والی اس کہانی پر نہ صرف خواندگی سے قبل کے لوگ یقین رکھتے تھے بلکہ آج بھی گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت شری بدت سے منسوب آدم خوری کی کہانی کو بنا تحقیق سچ مانتی ہے کیونکہ یہ کہانی انہوں نے آباو اجداد سے سنی تھی، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آبا و اجداد سے سنی ہوئی ہر کہانی سچ و حقیقت پر مبنی ہو۔

ڈاکٹر جی ڈبلیو  لیٹنر پہلا یورپی شخص تھا جس نے شری بدت کی کہانی 1866 میں ریکارڈ کی تھی جسے  انہوں نے 1877 میں “تاریخی افسانوی تاریخ برائے گلگت” کے نام سے شائع کیا۔ انہوں نے شری بدت کی کہانی کو حقیقت اور افسانے کا امتزاج قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر لیٹنر شری بدت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “مقامی روایات کے مطابق شری بدت بری روحوں کی اولاد تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب دردستان میں اس قاتل شہزادہ کا نام آذر جمشید کے بجائے آذر شمشیر لکھا ہے جس نے شری بدت کی بیٹی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اس کے ذریعہ شری بدت  کی لافانی  زندگی کا راز معلوم کر لیا تھا کہ اس کی روح برف کی ہے” اور اس کی زندگی  صرف آگ سے ہی ختم ہو سکتی ہے.

مقامی روایات کے مطابق بادشاہ شری بدت گلگت میں ایک محل میں مقیم تھا ،اس کے ذوق موزوں تھے ،اس کے محل کے سامنے ایک پولو گراونڈ تھا اور وہ پولو کھیل کا دلدادہ تھا ۔ اس کا ملک بہت زرخیز تھا، دارالحکومت کے چاروں طرف دلکش اور پرکشش باغات تھے۔ بادشاہ شری بدت آدم خور تھا اور اس آدم خوری کی ابتدا ایک حادثہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی رعایا سے روزانہ خراج میں ایک بھیڑ لینے کی عادت تھی۔  ایک دن ، جب وہ کھانا کھا رہا تھا ، اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ گوشت پہلے سے زیادہ لذیذ تھا۔  اس نے اپنے کولن (باورچی خانے کے دروغہ) کو حکم دیا کہ بھیڑیں کہاں سے لائی گئیں ہیں ۔  چھان بین کے بعد اس کے دروغہ نے بتایا کہ اسے یہ بھیڑ گلگت میں برمس گاؤں کی ایک عورت سے ملی ہے۔
بادشاہ سلامت نے اس عورت کو شاہی دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔  وہ عورت جو اچانک اس بلاوۓ  کی وجہ نہیں جانتی تھی بادشاہ کے سامنے لاۓ جانے سے بہت خوفزدہ تھی ، جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

جب وہ خاتون دربار  پہنچی تو وہ شری بدت کے سوالات سن کر پرسکون  ہوگئی اور خوشی سے جواب دیا: “اے گلگت کے عظیم بادشاہ ، تجھ پر سلامتی رہے!
میرا بچہ اور یہ بھیڑ ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے  میرا بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد  وفات پا گیا تھا اور اس بھیڑ کی ماں بھی اس کی  پیدائش کےکچھ ہی دن بعد فوت ہوگئی تھی۔
پیدائشی طور پر  بھیڑ بہت خوبصورت ہونے کی وجہ سے میں نے اسے بہت پسند کیا چونکہ بھیڑ کی ماں کےساتھ ساتھ میں نے اپنے بیٹے کو بھی کھویا تھا چنانچہ  میں نے اپنا غم مٹانے کے لئے  اس بھیڑ کے بچے کو اپنا ہی دودھ پلایا جب تک کہ وہ چر نہ سکے۔
کچھ دن پہلے اسی بھیڑ کے بچے کو آپ کی عظمت کے سامنے پیش کیا گیا کیونکہ میرے پاس اپ کو دینے کے لیے اور کچھ نہیں تھا ۔

یہ سن کر شری بدت بہت خوش ہوا اور خاتون کو بڑا انعام دیا اور اسے واپس جانے دیا۔ پھر ایک دن تنہا بیٹھے ہوئے ، اس نے گوشت کے زائقے کی وجہ پر سوچنا شروع کیا۔

اس نے استدلال کیا کہ جب ایک بھیڑ جس نے تھوڑی دیر کے لئے صرف انسانی چھاتی کو چوس لیا ہو ، اس کے گوشت کا ذائقہ اتنا عمدہ ہوتا ہے تو انسان کا گوشت جو ہمیشہ ہی انسانی دودھ سے پرورش پاتا ہے یہ جانور کے گوشت سے بہت بہتر اور لذیذ ہوگا۔ اس نتیجے پر پہنچ کر اس نے یہ احکامات دیئے کہ بھیڑوں کے بجائے مستقبل میں انسانی بچوں کا ٹیکس عائد کیا جائے ، اور ان کے گوشت کو ہمیشہ اس کے رات کے کھانے میں پیش کیا جائے۔ اس طرح وہ انسانی گوشت کھانے لگا.”

جب یہ ظالمانہ حکم صادر کیا گیا تو اس سے  ملک کے لوگ بہت مایوس ہوگئے ، لیکن قربانی دے کر اس صورتحال میں بہتری لانے کی کوشش کی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں  پہل پہلے تو یتیموں اور پڑوسی قبائل کے بچے اس کے خوراک بن گئے  !  آہستہ آہستہ سب کی باری آنے لگی اور جلد ہی اس کی ظلمت گلگت کے بہت سے خاندانوں نے محسوس کی اور عوام اس کے ظلم سے سخت ناخوش تھے- مقامی لوگ اس بادشاہ کے خلاف کچھ اثر نہیں ڈال سکتے تھے کیونکہ اس کو جادوئی امداد حاصل تھی۔

آخر کار ایک دن ان کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے امداد ائی ، جس پر چڑھنے میں ایک دن لگتا ہے ، اور یہ امداد دریا کے کنارے گلگت کے نیچے ، دیور(دنیور) نامی گاؤں کے اوپر پہاڑ پر نمودار ہوئی ، جس میں تین شخصیات نظر آئیں، وہ مردوں کی طرح نظر آتے تھے ، لیکن زیادہ مضبوط اور خوبصورت تھے۔  انہوں نے اپنے بازوؤں میں دخش اور تیر اٹھائے ہوئے تھے وہ تینوں پری زاد تھے۔

ایک دن شری بدت کے محل کے پاس اس شہزادہ کی ملاقات شری بدت کی بیٹی سے ہوئی اور بقول ڈاکٹر لیٹنر آذر جمشید نے شری بدت کی بیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پری زاد ہے یہ سن کر وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور ایک دن اس نے شہزادی سے اپنے باپ کی لافانی زندگی کا راز معلوم کرنے کا کہا۔ شہزادی نے باپ کو اپنی محبت کا واسطہ دے کر بالآخر یہ راز معلوم کیا اور پھر اپنے باپ کی لافانی  زندگی کا راز آذر شمشیر کو بتایا- یہ راز معلوم کرنے کے بعد آذر جمشید نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی اور شری بدت کے محل پر آگ لگادی جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوگیا اور قاتل شہزادہ نے شری بدت کی بیٹی سے شادی کی اور گلگت کا حکمران بن گیا۔

شری بدت کے متعلق ایک دوسری کہانی بھی روایات میں موجود ہے اس کہانی کے مطابق جب شری بدت کو اس سازش کا علم ہوا تو اس نے اپنی بیٹی کو ایک قلعے میں قید کیا تھا۔

دریا گلگت پل روڑ کے قریب واقع  اگورتھم بولڈر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں شری بدت نے لوہے کا ایک قلعہ بنوایا تھا، اگورتھم کو شری  بدت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے روایتی تاریخ کے مطابق ، اس نے اپنی بیٹی Miyokhay کو جس سے مقامی طور پر لوگ نور بخت کے نام سے جانتے ہیں کو لوہے کے اس قلعے میں بند کردیا تھا جو اس نے ان پتھروں پر بنایا تھا جو آج بھی دریائے گلگت کے وسط میں نظر آتے ہیں ، کیوں کہ اس نے آذر جمشید کے ساتھ مل کر اس کی حکومت  گرانے کی سازش کی تھی۔

یہ بولڈر آج بھی مقامی طور پر اگورتھم  گیری (پتھر)  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہانی کے مطابق شری بدت نے اپنی سازشی بیٹی کو ایک لوہے کے قلعے میں بند کردیا تھا چونکہ اس نے اپنے منہ بولے باپ جو شری بدت کا وزیر تھا کے ساتھ مل کر اپنے باپ سے غداری کی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ اپنی جادوئی طاقت کی وجہ سے  شری بدت کی زندگی کا راز کسی کو نہیں معلوم تھا  لیکن آذر جمشید کی محبت میں گرفتار ہو کے  شری بدت کی بیٹی نے یہ راز اپنے آشنا  آذر جمشد کو بتایا دیا کہ اس کا باپ  صرف آگ سے مر سکتا ہے پھر آزد جمشید نے لوگوں کو شری بدت کے خلاف اکسایا اور منصوبہ بندی کرکے  شری بدت کے محل کے چاروں اطراف آگ لگا دی۔

کہا جاتا ہے کہ آزاد جمشید نے سازش کرکے جب رات کے اندھیرے میں اس کے محل پر اگ لگا دی تو محل کے اندر شری بدت کی روح کو بے چینی محسوس ہوئی اور اس نے شہزادی سے پوچھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے ذرا دیکھ کر آو، شہزادی باہر گئی اور واپس آکر باپ سے یہ بات چھپا دی کہ باہر اگ لگی ہوئی ہے ، اس نے باپ کو بتایا کہ باہر کچھ نہیں آپ پریشان نہ ہو۔

لیکن جب آگ نے محل کو لپیٹ میں لیا تو اس کی روح جلنے لگی اور وہ فورا باہر نکل کر گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑے نےچھلانگ لگا کر محل کے دیوار پار کی اور وہ وادی اشکومن چٹور کھنڈ کی طرف روانہ ہوئے۔

کہانی کے مطابق انہوں نے یاش پور کھنڈ(گلگت سے غربی جانب 12 میل دور ویران گاؤں میں آرام کیا، جہاں اس نے کسی شخص سے درخواست کی کہ وہ اس کے لیے ٹھنڈا پانی لائے۔ گاؤں میں انگور کی پیداوار خوب ہوتی تھی، باشندے ان سے شراب بناتے تھے۔ موجود شخص نے شری بدت کے لیے شراب کا پیالہ لایا تو اس نے غصے سے یہ کہتے ہوئے پینے سے انکار کر دیا کہ وہ آگ سے بچ کے یہاں آیا ہے جس نے اس کی روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس لئے اسے ٹھنڈا پانی چاہیے نہ کہ شراب ۔

کسی نے پینے کے لئے اس سے پانی نہیں دیا، چنانچہ وہ گاؤں کے لوگوں کے سلوک سے سخت ناخوش ہوا اور اس جگہ پر لعنت بھیج دی کہ یہ گاؤں تباہ و برباد ہو جائے تاکہ دوبارہ انگور پیدا نہ ہوں۔ کہا جاتا ہے اگلے سال وہ گلیشیر جس سے گاؤں کے لئے پانی فراہم ہوتا تھا وہ پگھل گیا۔ اس کے بعد وہ گاؤں ہمیشہ کے لئے تباہ ہوا۔

بقول منشی غلام محمد یاش پور گاؤں سے شری بدت وادی اشکومن چٹور کھنڈ چلےگئے اور خود کو گلیشیر کے بڑے سیل کے نیچے چھپا لیا۔ کہا جاتا ہے وہاں ابھی تک ان کا ٹھکانہ موجود ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وادی چٹور کھنڈ :مرزا کچت” نامی دیو کے حوالے سے مشہور ہے۔ ممکن ہے وقت گزرنے کے ساتھ شری بدت کے کردار نے میزہ کچٹ کا روپ دھار لیا ہو۔
بقول منشی غلام محمد ”لوگوں کو پختہ یقین ہے کہ شری بدت ایک دن گلگت میں دوبارہ وارد ہو کر حکمرانی کرے گا۔ چنانچہ اس کی بادشاہت دوبارہ بحال ہونے کے خوف سے لوگ ہر سال دسمبر میں شری بدت کی حکومت کے خاتمے کی سالگرہ پوری رات گھروں میں آگ جلا کے مناتے ہیں تاکہ اگر اس کا سفر واپسی بدستور جاری ہو تو اس کے بھوت کو خود سے دور رکھ سکے۔
پوری رات کوئی بھی شخص سوتا نہیں۔ وہ بڑی آگ پر رقص اور گانے گاتے ہوئے رات گزارتے ہیں ۔

کہانی کے مطابق شری بدت کے باورچی خانے کے ملازم کا ایک خاندان موجود ہے اور گلگت میں رہائش پذیر یہ واحد خاندان ہے جو شری بدت کا خیر خواہ ہے جو اس تقریب میں حصہ نہیں لیتا کیوں کہ وہ اب بھی اپنے آقا کا وفادار ہے، ان کو یقین ہے کہ ایک دن وہ ضرور لوٹ آئے گا”۔

مقامی روایت کے تحت بیان کی گئی اس کہانی کا جائزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے اس کہانی میں شری بدت اور آذر  جمشید دونوں کو دیو مالائی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آذر جمشید کو پری زاد اور شری بدت کو بدروح اور آدم خور کہا گیا ہے جو حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتا ہے۔

لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے چونکہ دنیا کی ہر تہذیب  میں اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں۔
دوسری طرف  یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں انسانی گوشت خوری  کا رواج بھی رہا ہے جس کے متعلق مشہور فلسفی برٹرینڈرسل اپنی نوبل انعام یافتہ کتاب “فلسفہ مغرب کی تاریخ ” میں لکھتے  ہیں کہ ” تمام دنیا میں مذہبی ارتقاء کے خاص مرحلے پر مقدس حیوانوں اور انسانوں کی قربانیاں دی جاتی اور انہیں کھایا جاتا تھا ۔

یہ مرحلہ مختلف جگہوں پر مختلف زبانوں میں رائج رہا- انسانوں کو کھانے کی نسبت انسانی قربانی زیادہ عرصہ تک قائم رہی،  یونان میں تاریخی زمانوں کی ابتدا تک یہ رسم ختم نہیں ہوئی تھی ۔ان ظالمانہ پہلوؤں کے بغیر ذرخیزی کی رسومات تمام یونان میں عام تھیں۔ دیوتا کو پوری طرح انسان مانا جاتا تھا البتہ وہ انسانوں سے اتنے مختلف ہیں کہ وہ غیر فانی اور فوق البشری قوتوں کے مالک ہیں۔”

حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہمالیہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں آباد کچھ  افراد خود کو شری بدت کے نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کی پروفیسر صدف منشی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ہنزہ کے راجہ جمشید علی خان نے خود کو شری بدت کی بیٹی کے نسل سے ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔
لہذا بدت سے منسوب آدم خوری کی قدیم کہانی کو ایک نئے انداز میں دیکھنا لازمی ہے چونکہ یہ صرف اساطیر سے بھری ہوئی ایک کہانی نہیں بلکہ درحقیقت یہ قدیم کہانیاں وہ نالیاں ہیں جن سے اس زمانے کا مجموعی شعور ہم تک آتا ہے جس میں وہ حقائق پنہاں ہو سکتے ہیں جن سے سینکڑوں سال قبل ہمارے آباؤ اجداد دوچار ہوۓ تھے۔

یہ واضح  ہے کہ شری بدت کے کردار کو بدی کا پیکر کے طور پر پیش کرنے کے پیچھے مختلف سماجی معاشی اور سیاسی مقاصد  پوشیدہ تھے جن پر نظر ڈالنے سے حقیقت کا کھوج لگانا آسان ہوتا ہے۔ اس کے لیے 740 تا 749 صدی عیسوی کے ان معروضی حالات کا جائزہ لینا لازمی ہے جن سے ریاست بلور دوچار ہوئی تھی۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف فریبرگ کے پروفیسر آسکر وان ہنبر کے بقول 745 صدی عیسوی میں پھیلتی تبت کی سلطنت نے ریاست بلور پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بلور ریاست ٹوٹ گئی۔
شری بدت کا دور حکومت بلور ریاست کے ٹوٹنے کے صرف چار سال بعد یعنی 749 کا ہے تب یہ ایک جنگ سے تباہ حال معاشرہ تھا ۔
لیٹل بلور پر قبضہ کرنے کے لئے گلگت کی وادیوں میں تبت اور چین نے 747 صدی عیسوی میں ایک خونی جنگ لڑی جس میں تبت کو چین نے شکست دیا۔

گلگت کی وادیوں میں لڑی گئی اس تاریخی جنگ کے بارے میں Susan Whitfield نے اپنی کتاب”Life Along the Silk Road” میں دلچسپ حقائق بیان کیے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے شائع شدہ اس کتاب میں The Soldier ’s Tale۔
کے عنوان سے اس جنگ کے بارے میں وہ رقم طراز ہے کہ سیگ لاتن SEG LHATON تبت کے ان جنگی صفوں میں شامل تھے جنہوں نے چینی حملہ کا سامنا کیا تھا۔
ایک اور دن وہ اس جنگ کی کہانی یوں بیان کرتا ہے کہ ” تبتیوں نے ان چھوٹی وادیوں کی سلطنتوں پر اپنا راج قائم کیا تھا جو ان راستوں کو کنٹرول کرتا ہے جو دریائے گلگت کے راستے سے شمالی

ہندوستان کی طرف گامزن ہیں۔740 صدی عیسوی کے اوائل میں تبتی فوج کو کئی بار ان وادیوں میں چینی فوج کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیشہ تبتی فوج فاتح رہی مگر 747 صدی عیسوی کے موسم گرما میں وہ اتنے خوش قسمت نہیں تھے کہ انہیں فتح حاصل ہو۔ سیگ لاتن کو یہ جنگ واضح طور پر یاد ہے کہ ان کی فوج نو ہزار افراد پر مشتمل تھی جو ان پہاڑوں کے اندر چین کے ساتھ برسر پیکار تھے”۔

گلگت کی وادیوں میں 747صدی عیسوی میں چین اور تبت کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ میں چین کے دس ہزار افواج کو جنرل Gao کمانڈ کر رہا تھا اور تبت کے نو ہزار زرہ بکتر بند افواج نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا یہ جنگ لیٹل بلور میں لڑی گئی لیکن موسم بہار میں لڑی گئی اس جنگ میں تبتی اتنے خوش نصیب نہیں ٹھہرے کہ انہیں کامیابی ملے، اس جنگ میں چین نے تبت کو شکست دیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ سے تباہ حال لیٹل بلور کے آخری حکمران شری بدت کے خلاف بیرونی دشمنوں نے ایک سازش کے تحت اس سے آدم خور حکمران کے روپ میں عوام کے سامنے پیش کیا اور مقامی آبادی کو اس کے خلاف اکسا کر ایک رات اس کے محل پر آگ لگائی۔

اس پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شری بدت ایک آدم خور تھا یا پھر بیرونی جارحیت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے یہ محض اس کے  دشمنوں کی طرف سے پھیلایا گیا ایک نفرت انگیز جھوٹا پروپیگنڈہ تھا؟

اس اہم سوال پر اسکالرز میں دو طرح کی رائے پائی جاتی ہے مثال کے طور پر شری بدت پر کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے سکالر John Mock کے بقول ”گلگت کے آخری بدھ مت بادشاہ شری بدت کو آدم خور بنا کر پیش کرنے کا مقصد پرانے معاشرتی نظام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ ماضی سے عوام کے تعلق کو توڑ کر نئے معاشرتی نظام کی توثیق اور قبولیت کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکے۔”

جبکہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے دانشور عزیز علی داد اپنے تحقیقی مقالہ بعنوان Cannibalism In Gilgit میں شری بدت کے افسانے کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں یہاں قحط سالی پیدا ہوئی ہو، جس نے لوگوں کو اپنی بقا کے لئے نربہ خوانی پر مجبور کیا ہو۔ ممکن ہے کہ قحط سالی نے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی ہو ایک ایسی خانہ جنگی جہاں ہر ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہو جس نے اس ریاست کو تباہ کر دیا ہو“ ۔ عزیز کا کہنا ہے اس آدم خوری کی باقیات شینا اور دیگر زبانوں میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر شینا میں خانہ جنگی جیسے حالات کو ”اک سے اک کھوک“ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ایک دوسرے کو کھانے کے ہیں، اس میں کھانا لازمی نہیں کہ انسان کا گوشت ہی کھائیں بلکہ یہ قتل غارت کی کیفیت کو کہا جاتا ہے۔

عزیز علی داد کے نقط نظر کے مطابق بیرونی مسلط شدہ جنگ اور قحط سالی نے اندرونی خانہ جنگی کو جنم دیا ہو اور شری بدت کے ظالمانہ طرز حکمرانی کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کی داخلی کمزوریوں نے ایک نئی ریاست کے لیے بنیاد مہیا کی ہو اور خارجی طاقتوں کو اپنے مفاد میں ان کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کیا ہو اور وہ معاشرہ اندرونی تنازعات اور سازشوں کے ذریعہ کرایہ پر دستیاب تھا چنانچہ شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے اس کے قتل کی سازش میں اہم کردار ادا کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے شری بدت کا افسانہ دراصل بدھ مت دور کا افسانہ ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اپنی طرف سے مافوق الفطرت باتیں شامل کی ہیں اور آدم خوری کی کہانی میں کوئی صداقت نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply